جی این این سوشل

دنیا

کینیڈا نے ایران کے پاسداران انقلاب کودہشتگرد گروپ کی فہرست میں شامل کر لیا

کینیڈا نے اپنے شہریوں کو ایران سے نکلنے کی ہدایات بھی جاری کر دیں

پر شائع ہوا

کی طرف سے

کینیڈا نے ایران کے پاسداران انقلاب کودہشتگرد گروپ کی فہرست میں شامل کر لیا
کینیڈا نے ایران کے پاسداران انقلاب کودہشتگرد گروپ کی فہرست میں شامل کر لیا

کینیڈا کی حکومت نے ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔

کینیڈا کے پبلک سیفٹی کے وزیر ڈومنک لیبلنک نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت نے پاسداران انقلاب کور کو اپنے ضابطہ فوجداری کے تحت دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کینیڈا کے وزیر خارجہ اور وزیر انصاف کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ ایرانی رجیم دہشت گردی کی مدد کرتی ہے اور ایک تسلسل کے ساتھ ایران کے اندر اور ایران سے باہر انسانی حقوق کا احترام نہیں کر رہی ہے۔ نیز بین الاقوامی سطح پر قانون کی حکمرانی اور استحکام کے خلاف خواہش رکھتی ہے۔

وزیر خارجہ میلانی جولی نے کہا کہ اوٹاوا نے کئی سال پہلے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ لیے تھے، ان کا اپنے شہریوں کو زور دے کر کہنا تھا کہ وہ ایران کا سفر نہ کریں۔ نیز جو کینیڈین شہری اس وقت ایران میں ہیں ، ان کے لیے یہ وقت واپس گھر آنے کا ہے۔

کینیڈا کی طرف سے دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیے جانے کا مطلب پاسداران انقلاب کے ارکان کے کینیڈا میں داخل ہونے پر پابندی لگانا ہے۔ اس کے ارکان کے ساتھ کسی قسم کی ڈیلنگ کرنے کو روکنا اور اگر پاسداران کے کسی ممبر کے کینیڈا میں اثاثے ہیں تو انہیں ضبط کرنا شامل ہے۔

یاد رہے کہ ایرانی تارکین وطن اور خاندانوں کے پرواز پی ایس 752 کے متاثرہ افراد جنہیں تہران سے اڑان بھرتے ہی جنوری 2020 میں گرا دیا گیا تھا ، اس طیارے میں 176 مسافروں کے علاوہ عملے کے لوگ تھے ، جن میں 85 کینیڈین شہری تھے۔

ایران نے بعد ازاں کہا تھا کہ اس کے ہاں سے میزائل غلطی سے فائر ہو گیا تھا جس کا نشانہ طیارہ بن گیا تھا۔

اس وجہ سے اوٹاوا پر طویل عرصے سے دباؤ تھا کہ ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ کینیڈین پارلیمنٹیرینز نے پچھلے ماہ متفقہ طور پر منظوری دی تھی۔

واضح رہے اب تک کینیڈا کی طرف سے جاری کردہ بلیک لسٹ میں تقریباً 80 ادارے شامل کیے جا چکے ہیں۔ ان میں القاعدہ، حزب اللہ، طالبان، آئی ایس آئی ایس اور پراؤڈ بوائز شامل ہیں، جو شمالی امریکہ میں سرگرم ایک عسکریت پسند گروپ ہے۔

اوٹاوا نے اس سے پہلے ایرانی قدس فورس جو پاسدران انقلاب کی ایک ذیلی شاخ ہے، اسے بھی دہشت گرد ادارے کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ کینیڈا کی طرف سے 2022 میں ایرانی پاسداران کے ارکان سمیت 10,000 سے زیادہ ایرانی اہلکاروں کے داخلے کو مستقل روک دیا تھا۔

ایرانی پاسدارن انقلاب کور کو امریکہ نے 2019 میں دہشت گردی کی فہرست یں شامل کیا تھا۔ اس ماہ کے شروع میں یورپی یونین نے بھی پاسداران انقلاب کور دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

پاکستان

سُپریم کورٹ مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کا کردار دیکھے، عمران خان

میں آج بھی ایبسولوٹلی ناٹ کے مؤقف پر کھڑا ہوں، بانی چیئرمین پی ٹی آئی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سُپریم کورٹ مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کا کردار دیکھے، عمران خان

بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ سُپریم کورٹ مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کا کردار دیکھے، کسی بھی جمہوریت میں ایک پارٹی کی سیٹ دوسرے کو نہیں دی جا سکتی یہ کہیں نہیں ہوتا۔میں آج بھی ایبسولوٹلی ناٹ کے مؤقف پر کھڑا ہوں۔

اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ الیکشن کو پانچ ماہ گزر گئے مجھے ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ کون جیتا اور کون ہارا، الیکشن میں بے ضابطگیوں پر امریکی کانگریس نے قرارداد منظور کی، 85 فیصد کانگریس اراکین نے حمایت میں ووٹ دیا، کانگریس نے پوری تحقیق کے بعد یہ قرارداد منظور کی،اقوام متحدہ کا بھی میرے بارے میں بیان آیا، جواب میں پاکستانی حکومت نے کانگریس کی قرارداد کے مقابلے میں اپنی قراداد پیش کی، حکومت قراردادیں پیش کرنے کے بجائے ملک کو بچانے کا سوچے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ پل ڈاٹ اور فافن کی رپورٹس میں بھی دھاندلی کی تصدیق کی گئی، چیف الیکشن کمشنر کو دھاندلی کو کور کرنے کے لیے لگایا گیا ہے، سارا ملک کہہ رہا ہے کہ فراڈ الیکشن کروایا گیا ، ساری دنیا وہی کہہ رہی ہے جو کمشنر پنڈی نے اور سابق وزیراعظم کاکڑ نے حنیف عباسی کو کہا تھا، ریٹائرڈ ججز کو ٹریبیونل میں تعینات کر کے مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کا کردار دیکھے، کسی بھی جمہوریت میں ایک پارٹی کی سیٹ دوسرے کو نہیں دی جا سکتی، یہ کہیں نہیں ہوتا۔

سائفر سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ میں آج بھی سائفر کے معاملے پر اپنے بیان پر قائم ہوں، میں نے کہا تھا امریکہ نے حکومت گرانے کی دھمکی دی ہے اور انہوں نے ہماری حکومت ہی گرا دی، میں آج بھی ایبسولوٹلی ناٹ کے مؤقف پر کھڑا ہوں۔

فارورڈ بلاک سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارٹی میں اختلافات کوئی بڑا مسئلہ نہیں عمر ایوب کی پارٹی کے لیے بہت خدمات ہیں، پی ٹی آئی میں کوئی فارورڈ بلاک موجود نہیں یہ ایسی پارٹی ہے جو اپنے ووٹ کی طاقت پر بنی اور قائم ہوئی، پی ٹی آئی سے مضبوط جماعت ملک میں موجود نہیں اس میں فارورڈ بلاک بن ہی نہیں سکتا۔

بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ پارٹی میں اختلافات کی بنیاد غلط فہمی ہے، جمعرات کو دونوں گروپس کو ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل بلا لیا ہے، کچھ لوگوں نے تشدد کے باعث اور کچھ نے فائلیں دیکھ کر پارٹی چھوڑی، دونوں کے الگ الگ کیسز ہیں، جب جیل سے باہر نکلوں گا تو پھر پارٹی میں واپسی کے معاملات کو خود دیکھوں گا۔

وزیراعظم شہباز شریف سے مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس مذاکرات کے لیے ہے کیا کہ ان سے بات چیت کی جائے، ہم شہباز شریف سے موسم پر مذاکرات کریں، حکومت جھوٹ پر چل رہی ہے وزیر داخلہ فراڈ اور سفارشی ہے اس نے کرکٹ کے ساتھ کیا کیا، کرکٹ ٹھیک کرنی ہے تو سب سے پہلے محسن نقوی کو نکالیں جو سفارش پر چل رہا ہے۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصوراعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے مزید کہا کہ 2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں، اٹارنی جنرل نے 2018 میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بتایا، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے 2002 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین، اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، آزادامیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیاجائےگا، سیاسی جماعت جتنے مخصوص نشستوں کے لیے نام دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر چار ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہوتے ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی فنڈز نہ دینے پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی سے نالاں

اراکین اسمبلی نے فنڈز کی بندربانٹ پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو وزیراعلیٰ کے خلاف شکایات کردیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی فنڈز نہ دینے پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی سے نالاں

بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے ارکان نے فنڈز کی بندربانٹ پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو وزیراعلیٰ کے خلاف شکایات کردیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز دینے کے معاملے پر پیپلزپارٹی کے ارکان بلوچستان اسمبلی وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی سے نالاں ہو گئے اور انہوں نے پارٹی قیادت کو سرفراز بگٹی کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے۔

ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت نے ارکان صوبائی اسمبلی کی شکایات کا نوٹس لیا ہے، جس کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری 4 جولائی سے بلوچستان کا دورہ کریں گے، اس دوران وہ پیپلزپارٹی بلوچستان کے ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کریں گے اور ارکان کی شکایات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ارکان بلوچستان اسمبلی کو چند مخصوص ارکان کو فنڈز ملنے اور انہیں نظر انداز کرنے پر تحفظات ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll