جی این این سوشل

پاکستان

وزیراعظم کی منکی پاکس کے حوالے  سے مؤثر اور جامع آگاہی مہم  شروع کرنےکی ہدایت

شہباز شریف نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) کو  منکی پاکس کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی ہدایت کر دی

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیراعظم کی منکی پاکس کے حوالے  سے مؤثر اور جامع آگاہی مہم  شروع کرنےکی ہدایت
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

وزیراعظم شہباز شریف نے منکی پاکس کے حوالے  سے مؤثر اور جامع آگاہی مہم  شروع کرنےکی ہدایت کردی۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت  منکی پاکس کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی۔

وزیراعظم نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) کو  منکی پاکس کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی ہدایت کی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ منکی پاکس کی جانچ کے حوالے سے تمام  ضروری آلات  اور کٹس کی فراہمی یقینی بنائی جائے، منکی پاکس کا پھیلاؤ  روکنے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں  سے روابط بہتر بنائے جائیں اور  منکی پاکس کے حوالے سے مؤثر اور  جامع آگاہی مہم شروع کی جائے۔

وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی کہ حال ہی میں ضلع مردان کے ایک شخص میں منکی پاکس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، متاثرہ شخص روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھا اور حال ہی میں پاکستان آیا، متاثرہ شخص کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے، حالت خطرے سے باہر ہے،

بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں اس وقت منکی پاکس کی لوکل ٹرانسمیشن نہیں ہے، منکی پاکس کے حوالے سے این سی او سی نے نیشنل ایڈوائزری جاری کر دی ہے، سول ایوی ایشن منکی پاکس کے حوالے سے بیرون ملک سے آنے والی پروازوں کی نگرانی کرے گی، صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد میں بڑے اسپتالوں میں آئیسولیشن وارڈز مختص کردیے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نےکہا کہ منکی پاکس کی حوالے سے ہفتہ وار  بریفنگ لیا کروں گا۔

جرم

پنجاب اور سندھ پولیس کا کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے مشترکہ آپریشنز کیے گئے اور یہ تعاون جاری ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پنجاب اور سندھ پولیس کا کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ

کراچی: پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس عثمان انور نے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کے لیے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے رابطہ کیا۔ دونوں صوبوں نے ان مجرموں کو نشانہ بنانے کے لیے انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ پولیس کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ جاری ہے۔ انہوں نے کہا جب بھی پنجاب پولیس کو سندھ میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے، ہم ان کی مدد کے لیے وہاں موجود ہوتے ہیں۔


انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے مشترکہ آپریشنز کیے گئے اور یہ تعاون جاری ہے۔

آئی جی میمن نے وضاحت کی کہ وہ اور پنجاب کے آئی جی عثمان انور نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سندھ میں گھوٹکی اور کشمور کے سرحدی علاقوں اور پنجاب میں راجن پور اور رحیم یار خان میں پولیس فورسز کی جانب سے مشترکہ کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔


چیلنجز کی وضاحت کرتے ہوئے آئی جی میمن نے کہا کہ کچے کے علاقے میں سرحدوں کا تعین کرنا ایک پیچیدہ کام ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں صوبائی پولیس فورسز اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے والے فعال گروہوں کو ختم کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی میں پوری طرح سے منسلک ہیں۔ اس مربوط کوشش سے جلد ہی موثر نتائج کی توقع ہے۔



پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

بنگلہ دیش میں سپریم کورٹ کے سابق جج شمس الدین چوہدری پر عوام نے انڈوں اور جوتوں کی بارش کردی

لوگوں نے سابق جج کو دیکھتے ہی ان کے خلاف خوب نعرے بازی کی جبکہ بعض افراد نے ان پر انڈے اور جوتوں سے حملہ کیا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

بنگلہ دیش میں سپریم کورٹ کے سابق جج شمس الدین چوہدری پر عوام نے انڈوں اور جوتوں کی بارش کردی

ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں سپریم کورٹ کے سابق جج شمس الدین چوہدری پر عوام نے انڈوں اور جوتوں کی بارش کر دی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کے حامی اپیلیٹ ڈویژن کے سابق جج شمس الدین چوہدری کو گزشتہ روز بھارت فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا۔

پولیس آج شمس الدین چوہدری کو ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ پہنا کر عدالت میں پیشی کیلیے لائی جہاں سماجی کارکن، سیاسی رہنما اور عوام کی بڑی تعداد جوجود تھی۔

ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ ملزم کو مقامی پولیس نے دفعہ 54 کے تحت متعدد تھانوں میں قتل اور دیگر الزامات کے تحت درج مقدمات میں گرفتار کیا۔

لوگوں نے سابق جج کو دیکھتے ہی ان کے خلاف خوب نعرے بازی کی جبکہ بعض افراد نے ان پر انڈے اور جوتوں سے حملہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ ملزم کو بحیثیت سابق جج تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔

گزشتہ روز سابق جج کو بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پاکستانی و اسلامی معاشرے کی سوچ میں نفسیاتی تناؤ ہے

ہمیں اپنے دکھ تو سمجھ میں آتے ہیں تو پھر کیوں  کسی اور کے دکھ سمجھ میں نہیں آتے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پاکستانی و  اسلامی معاشرے  کی سوچ میں  نفسیاتی تناؤ ہے

ہر معاشرے کے اندر بہت سارے افکار و نظریات ہوتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ خالصتاً ایک اسلامی معاشرہ ہے جس میں مختلف نظریات کے حامل لوگ موجود ہیں۔ جہاں لفظ ”معاشرہ“ (Society) آئے گا وہاں آپ کو ایک دوسرے سے مختلف سوچ (Thinking)  اور نظریات  رکھنے والے لوگ ملیں گے۔ کسی بھی معاشرے میں بہت ساری کمزوریوں کے ساتھ اگر محدود(limited) اور تنگ نظر (narrow)سوچ ہو تو میں اسے اس معاشرے (Society) کا المیہ کہوں گا۔ مجھے فکر ہے تو اس بات کی کہ اس معاشرتی برائی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا  رہا ہے۔ تنقید پر اپنی اصلاح کی ضرورت اور فکر قریباً ہوتی جا رہی ہے ۔ تعمیری افکار کو اپنانا اور وسعت دینا ہم بالکل بند کرچکے ہیں ۔ معاشرے کی اس زبوں حالی پرکافی دنوں سے کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔ تاہم آج یہ موقع ملا اور اس موضوع کا انتخاب کیا تاکہ معاشرے کے ہر اجمالی زاویے پر سیر حاصل بحث ہو سکے۔ گفت و شنید اور اظہارِ رائے کے مزید در کھل سکیں۔

کبھی سوچا ہے کہ ہمارا ایک جملہ (Troll) کسی کی ساری زندگی تباہ کر سکتا ہے ، شکل دیکھی ہے آئینے میں کبھی اپنی ؟ شکل سے ہی پاگل (Mental) لگتے ہو ، رنگ تو دیکھو کتنا کالا ہے ، اتنے موٹے ہو گئے ہو ، شادی کیوں نہیں کی ابھی عمردیکھی ہے اپنی ؟ آخر کب ہم انسان کو انسان سمجھیں گے ؟  کیوں ہم  کسی کو کم تر سمجھتے ہیں ، کم ظرف سمجھتے ہیں ، حقیر سمجھتے ہیں ، آخر کیوں ہم کسی کی صورت پر بات کرتے ہیں ؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ خوب صورتی کی بجائے اولین ترجیح خوب سیرتی ہونی چاہیے۔ اوراگر ہمیں صورت میں کوئی عیب (Fault) نہ ملے تو سیرت کو ٹارگٹ (Target) کرتے ہیں ، آخر کیوں ہم کبھی کسی کی حیثیت کا کبھی کسی کی آواز کا اور کبھی کسی کے وجود کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ 

کیوں ہم اپنے بچوں کو کسی سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں ؟ ہم انہیں محبت کرنا کیوں نہیں سکھاتے؟ جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہم سے محبت کریں ، پھر کیوں ہم انہیں کہتے ہیں کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور یہ بہتر نہیں ہے، پھرکیوں ہم انہیں کسی انسان سے تعلق رکھنے پر روکتے ہیں کہ اس کے بال بڑے ہیں اس سے مت ملو ، اسں کی مونچھیں بڑی ہیں یہ بدمعاش ہوگا اس سے مت ملو، کیوں ہم کسی کو اس کی شکل سے جانچتے (Judge) ہیں ؟ کیا ہمیں اپنے بچوں کی پرورش پر کوئی شک (Doubt) ہے ؟ کیوں ہم انہیں اپنے فیصلے خود کرنے کا حق نہیں دیتے ؟ جب ہم اپنے گھر سے ہی اپنے بچوں کو یہ پیغام دیں گے تو ہماری نسلیں کیسے سدھریں گیں ؟ آخر کیوں ہم نفرت کی بنیاد رکھتے ہیں ؟ اور پھر خود ہی روتے ہیں کہ ہمارے بچے ہماری عزت نہیں کرتے ، جب ہم ان کے دلوں میں نفرت کے بیج بوئیں گے تو پھول کہاں کھلیں گے؟ انہیں محبت کرنا سکھائیں  ، دوسروں سے پیار کرناسکھائیں ، انہیں اپنے فیصلے خود کرنا سکھائیں نہ کہ ان کو کسی کو تنگ (Bully) کرنا ۔ ایک بات تو طے ہے ہمارے بچے وہی کریں گے جو ہم انہیں سکھائیں گے ۔

کتنی آسانی سے ہم اپنے الفاظ سے کسی کو ایک لمحے میں اس کی اوقات یاد دلاتے ہیں ، ہمارے پاس کوئی حق نہیں ہے کسی کو کچھ کہنے کا ، ہم کیوں کسی کی ذاتی زندگی (Personal Life ) میں گھستے ہیں ؟ اور جو دل میں آتا ہے بنا سوچے سمجھے جملے کستے ہیں ، ہم کیوں خدا بن گئے ہیں ؟ کیوں ہم کسی کی خوبصورت زندگی کو تباہ کرتے ہیں ۔ 

باقی تمام بیماریاں ہماری سمجھ میں آتی ہیں تو ڈپریشن (Depression) کیوں سمجھ میں نہیں آتا ؟ ہمارے ہاں دماغی بیماری ( Mental Illness) کو کیوں سیریس نہیں لیا جاتا ؟ سائیکو (Psycho)  ملنگ ، پاگل (Mental)  جیسے ناموں سے پکارتے ہیں لیکن ان کی مدد نہیں کرتے ، کیوں ہم کسی کی بیماری کا مذاق بناتے ہیں؟ یاد آیا ہم تو اس کو بیماری ہی نہیں سمجھتے بلکہ ان کو تنگ کرکے لطف اندوز (Entertain) ہوتے ہیں ۔ 

مسلم ہونے کے ناطے میں بس اتنا جانتا ہوں کہ عبداﷲ بن مسعوؓد سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے  ’’ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبّر ہوگا، وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔ 

ایک صحابی نے حضور اکرمؐ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! انسان کو جو کچھ عطا ہوا ، اس میں سب سے بہتر کیا ہے؟ “ تو آپ نے جواب میں فرمایا ”اچھے اخلاق“۔
پس دین و دنیا سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہر سطح پر ہمیں اچھے کردار و اخلاق کی ضرورت ہے۔ ایسا ہو جائے تو ہم ایک مثالی معاشرے کے داعی بن سکتے ہیں۔

یہ کالم ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل پر لکھا گیا ہے ،  اورمیں  خود اس کالم میں موجود تمام الفاظ کا ذمہ دار ہوں ،  ادارے کی پالیسی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ 

 

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll