جی این این سوشل

علاقائی

حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس پر فول پروف سکیورٹی کے انتظامات

عرس کے دوران شہر میں 6 ایس پیز، 22 ڈی ایس پیز سمیت 4 ہزار سے زائد پولیس اہلکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس پر فول پروف سکیورٹی کے انتظامات
حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس پر فول پروف سکیورٹی کے انتظامات

لاہور : حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش کے 981ویں سالانہ عرس کے موقع پر لاہور پولیس نے شہر میں فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کیے ہیں۔ عرس کے موقع پر لاکھوں زائرین کی آمد کی توقع ہے جس کے پیش نظر پولیس نے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر ناکہ بندی کر کے سکیورٹی کے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔

پولیس کے مطابق عرس کے دوران شہر میں 6 ایس پیز، 22 ڈی ایس پیز سمیت 4 ہزار سے زائد پولیس اہلکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے۔ خواتین زائرین کی چیکنگ کے لیے خواتین پولیس اہلکار بھی تعینات کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں 81 ناکہ جات، 9 چیک پوسٹس اور 12 واک تھرو گیٹس لگائے گئے ہیں۔

سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ نے کہا ہے کہ داتا دربار میں داخل ہونے سے قبل ہر فرد کی مکمل تلاشی لی جائے گی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر سیکیورٹی ہائی الرٹ رہے گی اور سینئر پولیس افسران خود بھی عرس کے انتظامات کا جائزہ لیں گے۔

سی سی پی او نے ہدایت کی ہے کہ دودھ کی سبیلوں اور لنگر کی تقسیم کے دوران بھی سیکیورٹی کا خاص خیال رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے پیش نظر مختص کردہ پارکنگ کے علاوہ کہیں بھی گاڑی کھڑی نہ کرنے دی جائے اور پولیس افسران مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھیں۔

سی سی پی او نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سیکیورٹی فورسز کو تعاون دیں اور کسی بھی مشکوک چیز یا شخص کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں۔

جرم

لاہور ایئر پور کسٹم حکام کی کارروائی، 3 مسافر گرفتار، سامان برآمد

مسافروں کے قبضے سے 100 سے زائد موبائل فون اور بھاری مالیت کے سونے کے زیورات برآمد کیے گئے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

لاہور ایئر پور کسٹم حکام کی کارروائی، 3 مسافر گرفتار، سامان برآمد

لاہور : لاہور ایئرپورٹ پر کسٹم حکام نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے بیرون ملک سے آنے والے تین مسافروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان مسافروں کے قبضے سے 100 سے زائد موبائل فون اور بھاری مالیت کے سونے کے زیورات برآمد کیے گئے ہیں جن کی مجموعی مالیت تقریباً 10 کروڑ روپے ہے۔

ذرائع کے مطابق گرفتار افراد بیرون ملک سے موبائل فون اور زیورات سمگل کرکے پاکستان میں فروخت کرتے تھے۔ کسٹم حکام کو ان کی حرکتوں پر کافی عرصے سے شک تھا، جس کے بعد انہیں لاہور ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا گیا۔

ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ گروہ کافی عرصے سے یہ غیر قانونی کاروبار کر رہا تھا اور انہوں نے اس طرح کئی کروڑ روپے کی کمائی کی ہے۔

گرفتار افراد کو متعلقہ اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ان سے مزید پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ایک مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

موسم

جڑواں  شہروں کی انتظامیہ کا صبح 6بجے راول ڈیم کے سپل وے کھولنےکا اعلان

انتظامیہ کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ریسکیو ذرائع سے رابطہ کریں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جڑواں  شہروں کی انتظامیہ کا  صبح 6بجے راول ڈیم کے سپل وے کھولنےکا اعلان

جڑواں  شہروں کی انتظامیہ نے کل صبح 6بجے راول ڈیم کے سپل وے کھولنےکا اعلان کردیا ۔

ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہریوں سے درخواست ہے کے دریا ندی نالوں کی طرف جانے سے اجتناب کریں، نشیبی علاقوں کے مکینوں سے گزارش ہے کے حفاظتی تدابیر کا اختیار کریں۔

انتظامیہ کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ریسکیو ذرائع سے رابطہ کریں، نشیبی علاقوں سے مال مویشی وقت طور پر محفوظ مقام پر لے جائیں تا کہ کسی بھی نقصان سے محفوظ رہیں۔ 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پاکستانی و اسلامی معاشرے کی سوچ میں نفسیاتی تناؤ ہے

ہمیں اپنے دکھ تو سمجھ میں آتے ہیں تو پھر کیوں  کسی اور کے دکھ سمجھ میں نہیں آتے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پاکستانی و  اسلامی معاشرے  کی سوچ میں  نفسیاتی تناؤ ہے

ہر معاشرے کے اندر بہت سارے افکار و نظریات ہوتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ خالصتاً ایک اسلامی معاشرہ ہے جس میں مختلف نظریات کے حامل لوگ موجود ہیں۔ جہاں لفظ ”معاشرہ“ (Society) آئے گا وہاں آپ کو ایک دوسرے سے مختلف سوچ (Thinking)  اور نظریات  رکھنے والے لوگ ملیں گے۔ کسی بھی معاشرے میں بہت ساری کمزوریوں کے ساتھ اگر محدود(limited) اور تنگ نظر (narrow)سوچ ہو تو میں اسے اس معاشرے (Society) کا المیہ کہوں گا۔ مجھے فکر ہے تو اس بات کی کہ اس معاشرتی برائی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا  رہا ہے۔ تنقید پر اپنی اصلاح کی ضرورت اور فکر قریباً ہوتی جا رہی ہے ۔ تعمیری افکار کو اپنانا اور وسعت دینا ہم بالکل بند کرچکے ہیں ۔ معاشرے کی اس زبوں حالی پرکافی دنوں سے کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔ تاہم آج یہ موقع ملا اور اس موضوع کا انتخاب کیا تاکہ معاشرے کے ہر اجمالی زاویے پر سیر حاصل بحث ہو سکے۔ گفت و شنید اور اظہارِ رائے کے مزید در کھل سکیں۔

کبھی سوچا ہے کہ ہمارا ایک جملہ (Troll) کسی کی ساری زندگی تباہ کر سکتا ہے ، شکل دیکھی ہے آئینے میں کبھی اپنی ؟ شکل سے ہی پاگل (Mental) لگتے ہو ، رنگ تو دیکھو کتنا کالا ہے ، اتنے موٹے ہو گئے ہو ، شادی کیوں نہیں کی ابھی عمردیکھی ہے اپنی ؟ آخر کب ہم انسان کو انسان سمجھیں گے ؟  کیوں ہم  کسی کو کم تر سمجھتے ہیں ، کم ظرف سمجھتے ہیں ، حقیر سمجھتے ہیں ، آخر کیوں ہم کسی کی صورت پر بات کرتے ہیں ؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ خوب صورتی کی بجائے اولین ترجیح خوب سیرتی ہونی چاہیے۔ اوراگر ہمیں صورت میں کوئی عیب (Fault) نہ ملے تو سیرت کو ٹارگٹ (Target) کرتے ہیں ، آخر کیوں ہم کبھی کسی کی حیثیت کا کبھی کسی کی آواز کا اور کبھی کسی کے وجود کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ 

کیوں ہم اپنے بچوں کو کسی سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں ؟ ہم انہیں محبت کرنا کیوں نہیں سکھاتے؟ جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہم سے محبت کریں ، پھر کیوں ہم انہیں کہتے ہیں کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور یہ بہتر نہیں ہے، پھرکیوں ہم انہیں کسی انسان سے تعلق رکھنے پر روکتے ہیں کہ اس کے بال بڑے ہیں اس سے مت ملو ، اسں کی مونچھیں بڑی ہیں یہ بدمعاش ہوگا اس سے مت ملو، کیوں ہم کسی کو اس کی شکل سے جانچتے (Judge) ہیں ؟ کیا ہمیں اپنے بچوں کی پرورش پر کوئی شک (Doubt) ہے ؟ کیوں ہم انہیں اپنے فیصلے خود کرنے کا حق نہیں دیتے ؟ جب ہم اپنے گھر سے ہی اپنے بچوں کو یہ پیغام دیں گے تو ہماری نسلیں کیسے سدھریں گیں ؟ آخر کیوں ہم نفرت کی بنیاد رکھتے ہیں ؟ اور پھر خود ہی روتے ہیں کہ ہمارے بچے ہماری عزت نہیں کرتے ، جب ہم ان کے دلوں میں نفرت کے بیج بوئیں گے تو پھول کہاں کھلیں گے؟ انہیں محبت کرنا سکھائیں  ، دوسروں سے پیار کرناسکھائیں ، انہیں اپنے فیصلے خود کرنا سکھائیں نہ کہ ان کو کسی کو تنگ (Bully) کرنا ۔ ایک بات تو طے ہے ہمارے بچے وہی کریں گے جو ہم انہیں سکھائیں گے ۔

کتنی آسانی سے ہم اپنے الفاظ سے کسی کو ایک لمحے میں اس کی اوقات یاد دلاتے ہیں ، ہمارے پاس کوئی حق نہیں ہے کسی کو کچھ کہنے کا ، ہم کیوں کسی کی ذاتی زندگی (Personal Life ) میں گھستے ہیں ؟ اور جو دل میں آتا ہے بنا سوچے سمجھے جملے کستے ہیں ، ہم کیوں خدا بن گئے ہیں ؟ کیوں ہم کسی کی خوبصورت زندگی کو تباہ کرتے ہیں ۔ 

باقی تمام بیماریاں ہماری سمجھ میں آتی ہیں تو ڈپریشن (Depression) کیوں سمجھ میں نہیں آتا ؟ ہمارے ہاں دماغی بیماری ( Mental Illness) کو کیوں سیریس نہیں لیا جاتا ؟ سائیکو (Psycho)  ملنگ ، پاگل (Mental)  جیسے ناموں سے پکارتے ہیں لیکن ان کی مدد نہیں کرتے ، کیوں ہم کسی کی بیماری کا مذاق بناتے ہیں؟ یاد آیا ہم تو اس کو بیماری ہی نہیں سمجھتے بلکہ ان کو تنگ کرکے لطف اندوز (Entertain) ہوتے ہیں ۔ 

مسلم ہونے کے ناطے میں بس اتنا جانتا ہوں کہ عبداﷲ بن مسعوؓد سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے  ’’ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبّر ہوگا، وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔ 

ایک صحابی نے حضور اکرمؐ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! انسان کو جو کچھ عطا ہوا ، اس میں سب سے بہتر کیا ہے؟ “ تو آپ نے جواب میں فرمایا ”اچھے اخلاق“۔
پس دین و دنیا سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہر سطح پر ہمیں اچھے کردار و اخلاق کی ضرورت ہے۔ ایسا ہو جائے تو ہم ایک مثالی معاشرے کے داعی بن سکتے ہیں۔

یہ کالم ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل پر لکھا گیا ہے ،  اورمیں  خود اس کالم میں موجود تمام الفاظ کا ذمہ دار ہوں ،  ادارے کی پالیسی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ 

 

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll