پاکستان
خیبر پختونخوا کے ہندوں ، سکھوں کے میرج ایکٹ2017 کے تحت مسائل حل نہ ہوسکے
شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے میرج ایکٹ تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں
آزادی کے 77سال بعد بھی خیبر پختونخوا کے ہندوں اور سکھوں کے دیرینہ مسائل حل نہ ہوسکے ۔
خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری کی دیرینہ مسائل کا حل نہ نکالا جاسکا ۔ ہندوں برادری کے شادی کے بندھن کے کچے ڈور پکے نہ ہوسکے تو میتوں کے انتم سنسکار کیلئے صوبائی دارالحکومت میں شمشان گھاٹ کا قضیہ تاحال حل طلب ہے۔ وطن عزیز کے آزادی کے 77سال گزرنے کے باوجود اقلیتی برادری کئی اہم مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔
شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئےہندوں میرج ایکٹ2017میں تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں جس کی وجہ سے ہندوں کی اپنے مذہب کے لحاظ شادی کی رسومات کی ادائیگی تو ہو جاتی ہے لیکن سرکاری رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں کو قانونی تحفظ نہیں ملتا اور علیحدگی کی صورت میں خواتین کو حاص طور پر کئی مشکلات درپیش ہوتی ہے ۔
اسی حوالے سے جی این این میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہندوں کمیونٹی کے مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے فوکل پرسن ہارون سرب دیال کا کہنا تھا کہ ایکٹ کو بنے 7سال اور 4 ماہ ہوگئے ہیں ، لیکن اگر رولز نہیں ہے تو اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا ۔
ایکٹ میں ہندوں کے شادی ،علیحدگی ،اموات کی صورت میں سیکسشن اور وراثت کےلئے قوانین تو موجود ہے لیکن رولز کی صورت میں طریقہ کار تاحال وضعہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صرف اگر عدالتوں کی بات کی جائے تو لوئر کورٹس سے اعلی عدالتوں تک درجنوں مقدمات التواء کا شکارہیں ۔
ہندوں مذہب کے مطابق شادیاں تو ہو جاتی ہیں لیکن اس کا سرٹیفکیٹ یا شادی پرتھ نہیں بن سکتا حالانکہ ایکٹ میں اس 25 شرائط موجود ہے جس میں میاں بیوی کی صحت ،عمر ،بیماریوں ،پہلے سے شادی شدہ ہونے اور اسی طرح گواہان اور شادی کرانے والے کے حوالے سے قوانین درج ہیں لیکن سرکاری میں اس شادی کو رجسٹرڈ کرنے کی صورت میں کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے اسی کے ساتھ اگر کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان علیحدگی کا مسئلہ آجائے تو عدالت میں سب سے پہلے شادی کا سرٹیفیکیٹ یا شادی پرتھ مانگا جاتا ہے پھر بچوں کے مینٹینشش کا مسئلہ بھی ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کے حوالگی کے مسائل الگ ہیں جس کےلئے ایکٹ کی وضاحت یعنی رولز کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
ہندوں میرج ایکٹ کے رولز نہ بننے پر ہاروں سرب دیال کے اظہار خیال کی تصدیق کرتے ہوئے ایڈوکیٹ مہوش محب کاکا خیل جی این این کوبتایا کہ رولز نہ ہونے سے شادیاں ،بچوں کی پیدائش اور فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں بن رہا ،جس کی وجہ سے بچوں کو نہ صرف سکول میں داخلہ کرانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ ہندوں خاندانوں کو سفر میں بھی مشکلات پیش آرہی ہوتی ہے ۔
اگر شادیاں رجسٹرڈ نہیں تو قانونی طور پر ہندوں جوڑوں کی علیحدگی کی صورت میں عدالت میں کیس دائر کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کا مسئلہ سامنے آتا چونکہ رجسٹریشن نہیں ہوتی تو اکثر اوقات شوہر بچوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے پھر اس کی وجہ سے خواتین کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔عدالت کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے کہ انکی شادی رجسٹرڈ کیوں نہیں ہے ،یہ بچے کس کےہیں جیسے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہندو میرج ایکٹ کے رولز آف بزنس نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ شادی کہاں رجسٹرڈ کروانی ہے بڑے شہروں میں یونین کونسل یا نیبر ہوڈ کونسل ہیں جن میں اکثریتی جگہوں پر انکے نمائندے موجود نہیں کیونکہ کسی بھی شادی کو رجسٹرڈ کرنے کےلئے اس کمیونٹی کے نمائندوں کا ہونا بہت ضروری اس کے ساتھ انکو اس حوالے سے کوئی آگاہی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سے قانونی تقاضی پورے نہیں ہو رہے ہیں اور ہرطرف مشکلات ہی مشکلات ہے ۔مہوش محب کاکا خیل نے جائیداد میں وراثت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وراثت کی تقسیم اور حصول ہندوں کمیونٹی کےلئے بہت بڑا مسئلہ ہے اگر شادی پرتھ رجسٹرڈ نہیں تو پھر کسی کے بیوی بچے جائیداد میں حصہ کا دعوی نہیں کرسکتے ۔اسی طرح بیوہ ہندو خواتین کو دوبارہ شادی کرنے کا بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔علیحدگی کی صورت میں اگر کسی خاتون کے بچے ہوں تو انکے خرچہ کا مسئلہ آجاتا ہے اور اکثر شوہر بچوں سے انکار کردیتا ہے ۔شادی رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہو رہی ہے جس کے مثبت حل کےلئے رولز کا وجود میں آنا بہت ضروری ہے۔
شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے اگر ہندوں کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا ہے تو زندگی کے قید سے آزاد ہونے کےلئے ہندووں اور سیکھوں کو پشاور میں شمشان گھاٹ نہ ہونے کے وجہ سے بھی دشواریاں درپیش ہیں، ہندووں اور سکھوں کےلئے اپنے پیاروں کی آخری رسومات احسن طریقے سے ادا کرنے کےلئے انہیں شمشان گھاٹ میں جلانا بہت ضروری ہے جہاں دونوں کمیونٹیز کے لوگ اپنے پیاروں کو جلانے کے بعد انکے سولہویں سنسکار کے طور پر انکی استیوں کو دریاں میں بہایا جاتا ہے ۔
مذہبی اعتبار سے شمشان گھاٹ کاآبادی سے دور اور دریاں کے کنارے ہونا اس کے اہم تقاضوں میں شامل ہے لیکن پشاور کے ہندوں اور سکھ برادری اپنے پیاروں کو 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر بنائے گئے شمشان گھاٹ لیکر جاتے ہیں جس پر وقت اور پیسے کا خرچ بہت زیادہ ہے اور اکثر غریب افراد اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں ۔
سکھ کمیونٹی کے رہنما اور سماجی شخصیت بابا جی گورپال سنگھ کہتے ہیں سکھ اور ہندو کمیونٹی کے اس دیرینہ مسئلے کے حل کےلئے انہوں نے عدالت عالیہ سے بھی رجوع کیا اور عدالتی احکامات کی روشنی میں جہاں صوبائی حکومت نے شمشان گھاٹ اور مسیحی قبرستان کے جگہ کےلئے رقم مختص کی وہی پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے ہمیں جگہیں بھی دیکھا دئیے لیکن یا تو وہ جگہیں شرائط پر پورا نہیں اتررہے تھے اور یا وہاں کی مقامی آبادی نے اعتراض اُٹھا جس کی وجہ سے تاحال ہمارا یہ دیرینہ مطالبہ حل نہ ہو سکا ۔
اس کی وجہ سے ہمارے مردوں کے آخری رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ استطاعت نہ رکھنے والے افراد مجبورا اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندوں کی مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے فوکل پرسن ہارون سرب دیال نے کہا کہ ایک تو پشاور میں کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں دوسری بات یہ کہ جہاں شمشان گھاٹ موجود ہے وہاں بھی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے مثلا کوہاٹ میں شمشان گھاٹ دشوار گزار علاقے میں ہیں جہاں میت کو جلانے کے بعد استیاں 52کلومیٹر دور خوشحال گڑھ لیکر جانا پڑتا ہے جبکہ پشاور سے 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر شمشان گھاٹ تو موجود ہے لیکن دور ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن اور وہاں رسومات کی ادائیگی میں مشکلات پیش آرہے ہیں ۔مثال کے طور پر استیوں کو دریا میں بہانے کےلئے اٹک کے مقام پر سیڑھیاں موجود نہیں اسلئے حکومت سے مطالبہ بھی کرتے اور مشورہ بھی دیتے ہیں کہ نوشہرہ حکیم آباد میں جگہ ہیں جو دریا کے کنارے اور آبادی سے دور بھی اور وہ ہمارے لئے مقدس بھی جبکہ پشاور ،نوشہرہ اور مردان سے آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے جس پر کسی کا اعتراض بھی نہیں لہذا اس جگہ اگر شمشان گھاٹ تعمیر کیا جائے تو سب کےلئے قابل قبول ہوگا ۔
سابق اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما روی کمار سے جب ہندو اور سکھ کمیونٹی کے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو روی کمار نے جی این این کو بتایا کہ ہندو میرج ایکٹ کے رولز بنانے کےلئے سابق دور حکومت میںٰ کام شروع ہوا جس میں ہمارے تھینک ٹینکس نے اہم کردار ادا کیا ۔ تھینک ٹینکس نے رولز کے حوالے سے سفارشات مرتب کئے جس کو سٹیڈی کرنے کے بعد سات اعتراض لگائے گئے تاہم وہ ساتھ اعتراض بھی ختم کردیئے گئے ہیں جس کے بعد ان رولز کو صوبائی کابینہ سے بہت جلد پاس کرایا جائے گا۔
روی کمار نے شمشان گھاٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف شمشان گھاٹ بلکہ مسیحی قبرسانوں کےلئے بھی گزشتہ دور حکومت میں سیکشن فور لگا کر کام شروع کیا گیا تھا تاہم بہت سی جگہوں پر مقامی لوگوں کے اعتراضات یا شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے کوئی زمین مختص نہیں ہوئی ۔
اس کے بعد سٹیٹ لینڈ کیلئے حکومت سے درخواست کی گئی لیکن کچھ سیاسی وجوہات کے بنا پر صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا اور نگران حکومت میں اس کام کو مزید آگے نہیں بڑھایا گیا تاہم نئے حکومت آنے کے بعد اب جیسے ہیں محصوص نشستوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا تو اس پر دوبارہ کام کا آغاز کرینگے تاکہ یہ دیرینہ مسائل حل ہو جائے
قانونی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہے کہ نہ صرف عام شہریوں کو بلکہ اقلیتوں کو بھی تمام بنیادی حقوق حاصل ہے اور تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق جس کےلئے حکومت کو بھی چاہئے کہ انہیں تمام حقوق دیئے جائے ۔
رپورٹ سید کامران علی شاہ (رپورٹر پشاور بیورو)
پاکستان
علی امین گنڈاپور کی صحافیوں سے متعلق زبان نامناسب ہے، وزیر اطلاعات
عطا تارڑ مزید کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کوفوبیا ہوگیا ہے، سمجھ نہیں آرہی ان کی کیا پالیسی ہے، جیل میں آپ کو سہولتیں ملی ہیں، شاہانہ کھانے پیش کیے جارہے ہیں
اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف غلط زبان استعمال کرنے پر علی امین گنڈاپور معافی مانگیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے صحافیوں کے خلاف غلط زبان استعمال کی، میڈیا ٹرولنگ اور مخالفین کے خلاف نازیبا زبان ان کا وطیرہ ہے، جب کہ اختلاف رائے پی ٹی آئی والوں کے نزدیک جرم ہے ، عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف پی ٹی آئی رہنماؤں کی بیان بازی نئی بات نہیں، ان کےصحافیوں پر تشدد کے بے شمار واقعات ہیں۔ کیا وزیراعلیٰ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایسی زبان استعمال کریں جب کہ پی ٹی آئی کا رویہ رہا ہے کہ صحافیوں سے متعلق سوشل میڈیا مہم چلائی جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کی صحافیوں سے متعلق زبان نامناسب ہے، صحافیوں کے خلاف غلط زبان ہمیشہ تحریک انتشار کا طریقہ رہا ہے، نامناسب زبان پرعلی امین گنڈاپورغیرمشروط معافی مانگیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی ارکان کو سچے الزامات پر پارلیمنٹ کے گیٹ کے باہر سے پکڑا، یہ اپنےعزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے جب کہ افسران شہید ہو رہے ہیں اور وہ کس کے لیے لڑرہے ہیں؟۔
عطا تارڑ مزید کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کوفوبیا ہوگیا ہے، سمجھ نہیں آرہی ان کی کیا پالیسی ہے، جیل میں آپ کو سہولتیں ملی ہیں، شاہانہ کھانے پیش کیے جارہے ہیں جب کہ تمام سہولتوں کے بعد آپ وزیرداخلہ پر من گھڑت الزامات لگاتے ہیں۔
پاکستان
معیشت ٹیک آف پوزیشن میں ہے ، آئی ایم ایف پروگرام آخری ہو گا ، مریم نواز
سرمایہ کاروں کا اعتماد دن بدن بڑھ رہا ہے۔پنجاب میں ضروری اشیاء خورونوش کے نرخ دیگر صوبوں کی نسبت سب سے کم ہیں۔مہنگائی میں کمی آنے سے عوام نے سکھ کا سانس لیا
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کی مخلصانہ کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیاہے اور آئی ایم ایف کے مثبت ردعمل کو معاشی ترقی کے لیے خوش آئند قرار دے دیا -
وزیراعلی مریم نواز نے کہاکہ وزیر اعظم شہباز شریف اور انکی ٹیم نے معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ پاکستان کی معیشت بلند پرواز کے لیے ٹیک آف پوزیشن میں آ چکی ہے۔آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام آخری ثابت ہوگا۔ وقت دور نہیں جب پاکستان کا معاشی قوت کے طور پر ظہور ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ( ن) کی حکومت نواز شریف کی قیادت میں عوام کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے کوشاں ہے۔معیشت کا مستحکم ہونے کے بعد ترقی کی جانب گامزن ہونا خوش آئند امر ہے۔ مسلم لیگ( ن) ہی پاکستان کے عوام کی امیدوں کا محور ہے۔ حکومتی معاشی پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروبار اور معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
سرمایہ کاروں کا اعتماد دن بدن بڑھ رہا ہے۔پنجاب میں ضروری اشیاء خورونوش کے نرخ دیگر صوبوں کی نسبت سب سے کم ہیں۔مہنگائی میں کمی آنے سے عوام نے سکھ کا سانس لیا۔
پاکستان
پی ٹی آئی رہنماؤں کی پریس کانفرنس ، صحافیوں نے مائیک اٹھا لیے
گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بھی علی امین گنڈاپور کی صحافیوں کے بارے میں گفتگو کو نامناسب قرار دیا تھا
پاکستان تحریک انصاف کی نیوز کانفرنس کے دوران صحافیوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے بیان کیخلاف احتجاج کیا۔صحافیوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے سامنے سے احتجاجاً مائیک اٹھا لیے۔
پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صحافیوں سے متعلق گفتگو غیر ضروری تھی، اس کا ہماری سیاست سے تعلق نہیں ہے۔صحافیوں کے احتجاج کی وجہ سے پی ٹی آئی رہنما نیوز کانفرنس کیے بغیر ہی اٹھ گئے۔
گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بھی علی امین گنڈاپور کی صحافیوں کے بارے میں گفتگو کو نامناسب قرار دیا تھا۔
اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور کی صحافیوں کے بارے میں گفتگو کی تائید نہیں کرتا، علی امین گنڈاپور کو صحافیوں کے بارے میں ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہیے تھی۔
واضح رہے کہ 8 ستمبر کو اسلام آباد کے سنگجانی کی مویشی منڈی میں ہوئے پی ٹی آئی کے جلسے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے صحافیوں کے خلاف بیان دیا تھا۔
پی ٹی آئی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ عوام ان صحافیوں کو پہچانیں جو قلم بیچ رہے ہیں، جس کے بعد کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کو معافی مانگنا پڑگئی تھی۔
جلسے کے اگلے روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی تقریر کےخلاف پارلیمنٹ کی پریس گیلری سے صحافیوں نے واک آؤٹ بھی کیا تھا، جس کے بعد عمر ایوب اور شبلی فراز صحافیوں کو منانے پہنچے تھے۔
صحافیوں کی جانب سے واک آؤٹ کرنے کے بعد اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر کی جانب سے غیر مشروط معافی بھی مانگی گئی تھی۔
-
پاکستان 2 دن پہلے
قائداعظم کا یومِ وفات، صدر مملکت اور وزیراعظم کا ’بانی پاکستان‘ کو خراجِ عقیدت پیش
-
دنیا 2 دن پہلے
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر نائن الیون حملوں کو 23 سال مکمل
-
پاکستان 2 دن پہلے
ملک میں وی پی اینز کو بلاک نہیں کیا جا رہا، پی ٹی اے
-
کھیل ایک دن پہلے
خالد محمود ڈائریکٹر پی سی بی اپنے عہدے سے دستبردار
-
پاکستان 2 دن پہلے
پارلیمنٹ سےگرفتاریوں کا معاملہ، ساجنٹ ایٹ آرمز سمیت 5 سکیورٹی اہلکار معطل
-
تجارت ایک دن پہلے
پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں مزید کمی کا امکان
-
ٹیکنالوجی 2 دن پہلے
یو ٹیوب نے نئے اے آئی ٹولز متعارف کروانے کا اعلان کر دیا
-
تجارت 2 دن پہلے
پنشن اصلاحات پر جلد قانون سازی لائیں گے، وزیرخزانہ