جی این این سوشل

پاکستان

آرمی چیف کی ہارورڈ بزنس سکول کے طلبا سے ملاقا ت

  آرمی چیف نے پاکستان کی بے پناہ صلاحیت کو اجاگر کرتے ہوئے شرکاء پر زور دیا کہ وہ ذاتی تجربات کی بنیاد پر ہی اپنی سوچ کو استوار کریں

پر شائع ہوا

کی طرف سے

آرمی چیف کی ہارورڈ بزنس سکول کے طلبا سے ملاقا ت
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

 آئی ایس پی آر کے مطابق ہارورڈ بزنس سکول کے44طلباء کے وفد نے آج جنرل ہیڈ کوارٹرز میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرسے ملاقات کی۔ 
ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ44رکنی وفد میں9ممالک کے طلبہ شامل تھے، ملاقات میں پاکستان کے امور پر بات چیت ہوئی ۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ سیشن میں پاکستان کی جانب سے جمہوری اقدار سے وابستگی اور دہشتگردی کیخلاف غیر متزلزل جدوجہد کا آعادہ کیا گیا، آرمی چیف نے موجودہ سیکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں تعلیم، اختراعات اور تنقیدی سوچ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

آئی ایس پی آرکے مطابق آرمی چیف نے عصری سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تعلیم، تنقیدی سوچ اور اختراع کی اہمیت پر زور دیا، انٹریکٹو سیشن کے دوران علاقائی امن اور استحکام کے لیے پاکستان کے کلیدی کردار کے حوالے سے د  نقطہ نظر کا اظہار کیا گیا۔ 

  آرمی چیف نے پاکستان کی بے پناہ صلاحیت کو اجاگر کرتے ہوئے شرکاء پر زور دیا کہ وہ ذاتی تجربات کی بنیاد پر ہی اپنی سوچ کو استوار کریں ،انہوں نے طلبہ کو ڈیجیٹل دور میں جعلی خبروں اور مس انفارمیشن کے حوالے سے بھی خبردار کیا۔

پاکستان

نوازشریف سے ممتاز عالم دین ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ملاقات

معروف عالم دین ڈاکٹر ذاکر نائیک ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، وہ کراچی میں اپنے دس روز گزار کر اب لاہور میں موجود ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

نوازشریف سے ممتاز عالم دین ڈاکٹر ذاکر نائیک کی  ملاقات

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نوازشریف سے ممتاز عالم دین ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملاقات ہوئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق نواز شریف نے ملاقات میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دینی خدمات کو سراہا۔

واضح رہے کہ معروف عالم دین ڈاکٹر ذاکر نائیک ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، وہ کراچی میں اپنے دس روز گزار کر اب لاہور میں موجود ہیں جہاں انہوں نے دو روز عوامی اجتماعات سے خطابات کیے اور سوالات کے جوابات بھی دیے تھے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس : پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کا اعلان ابھی تک قائم 

سیاسی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اور فلسطین کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر بائیکاٹ کرکے صیہونی قوتوں کی خدمت کی جا رہی ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس :  پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کا اعلان ابھی تک قائم 
 
پاکستان میں 15 اور 16 اکتوبرکو شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم ترین سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے اس اہم موقع پر پی ٹی آئی نے ماضی کی طرح اپنی غیر سیاسی روش پر چلتے ہوئے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے، سب جانتے ہیں ہے بانی پی ٹی آئی کی تاریخ رہی ہے کے جب کوئی اہم معاشی یا سیاسی سرگرمی پاکستان میں منعقد کی جاتی ہے پی ٹی آئی ہَیجان پھیلانا شروع کر دیتی ہے، دراصل بانی پی ٹی آئی کی ڈوریں صیہونی طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں اور صیہونی طاقتیں کبھی نہیں چاہتی کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اہم ترین ملک بن کر ابھرے اس مقصد کیلئے آپریشن گولڈ سمتھ  کے تحت بانی پی ٹی آئی اور  اپنے  مہروں کے ذریعے انتشار پھیلنے کے عمل پر کارفرما ہے۔
 
اس جماعت  کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ وہ پاکستان میں ہونے والے مثبت اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کردیتے ہیں۔  اس حوالے سے یہ جماعت ایک تاریخ رکھتی ہے، جب 2014ء میں چین کے صدر نے پاکستان کا اہم ترین دورہ کرنا تھا جس میں پاکستان اور خطے کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع تھے اس جماعت نے بیرونی قوتوں کے آلہ کار کے طور پراسلام آباد میں دھرنا دیا اور چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہو گیا، جو کہ بلاشبہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہچاننے کی منظم سازش تھی۔ 
 
اسی طرح 2016ء میں بھی اس سازشی شخص بانی پی ٹی آئی نے برطانوی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے موقع پر احتجاج کرکے انتشار پھیلایا ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ حال ہی میں ملائیشیا کے وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا جو اہم نوعیت کا تھا اور اس دوران معیشت سے لیکر دونوں ملکوں کے درمیان اہم امور زیر بحث آئے اور یہ دورہ بلاشبہ پاکستان کیلئے بہت اہمیت کا حامل تھا مگر اس دوران بھی اس جماعت نے اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے اسلام آباد  پر دھاوا بولا اور معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کی۔
 
اب سب پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس جماعت کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے کیونکہ اب جبکہ  15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے تو اس جماعت نے ملک میں فتنہ اور فساد برپا کرنے کیلئے احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ یہ تمام احتجاج پاکستان کی دشمنوں قوتوں کے اشارے پر ہوتے ہیں۔ سب کو یاد ہوگا کہ اس جماعت نے  ملک کو بدنام کرنے اور عالمی سطح پر سازش کرنے کیلئے سائفر کا ڈرامہ بھی کیا تھا جو بعد میں ڈونلڈ لو کے بیان کے بعد ٹھس ہو گیا تھا اسی طرح اس جماعت نے آئی ایم ایف کو قرضے نہ دینے کیلئے خطوط بھی لکھے، آئی ایم ایف کے مرکزی دفاترکے باہر پاکستان کی اہم شخصیات کی تصاویر لگا کر بدتہذیبی کا بھی مظاہرہ کیا اور پاکستان کے مفادات کو نقصان پہچانے کی کوشش کی ۔
 
  یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت یہ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس میں انتشار پایا جاتا ہے ۔پی ٹی آئی کے زیادہ رہنما اس اہم موقع پر احتجاج کو غلط قرار دے رہے ہیں۔اس احتجاج کے حوالے سے منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اور حماد اظہر کے درمیان شدید جھڑپ بھی ہوئی، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کا موقف تھا کہ احتجاج کیلئے فنڈز کی کمی ہے۔اس سے یہ بات اب بالکل واضح ہوچکی ہے کہ پی ٹی آئی اے میں جو بھگوڑے ہیں اور بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہیں وہ سوشل میڈیا بیانیہ کے ذریعے پارٹی پر مسلط ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور کارکنوں کو احتجاج کے نام پر استعمال کرکے ان کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور جبکہ خود احتجاج میں کوئی بھی سینئر سیاسی رہنما  نظر نہیں آتا۔
 
 سیاسی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے  کہ پی ٹی آئی فلسطین پرآل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرکے اور شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس  کے دوران احتجاج کرکے حکومت کو دباؤ میں لا کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی چاہتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے ریاست پاکستان نے تمام تر بیرونی دباؤ کو مسترد کیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صیہونی قوتوں کے یہ مہرے اب اہم موقع پر احتجاج کرکے کس کی خدمت کر رہے ہیں۔۔؟ 
 
دورسری جانب ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اور فلسطین کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر بائیکاٹ کرکے صیہونی قوتوں کی خدمت کی جا رہی ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں مغرب کی آنکھ میں کھٹکتی ہیں کیونکہ مغربی میڈیا بار بار فلسطین کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کو ناکام دکھانے کی کوشش کر رہا ہے جس سے یہ واضح ہے کہ یہ جماعت دراصل آپریشن گولڈ سمتھ کے تحت کن قوتوں کی آلہ کار ہے اور ان کے مقاصد پاکستان میں بدامنی، انتشار اور خلفشار کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ 
پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

26 ویں آئینی ترمیم کےلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کس کا پلڑا بھاری 

آئینی ترامیم کی منظوری کےلئے حکومت کو مزید کتنے ووٹ درکار ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

26 ویں آئینی ترمیم کےلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کس کا پلڑا بھاری 

26 ویں آئینی ترمیم کےلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کس کا پلڑا بھاری ،آئینی ترامیم کی منظوری کےلئے حکومت کو مزید کتنے ووٹ درکار ہیں۔

ان دنوں ملک میں سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن میں تکرار جاری ہے،آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ دو تہائی اکثریت  درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت کے لیے قومی اسمبلی میں 224  اور سینیٹ میں 63  ووٹ درکار ہوتے ہیں ۔

قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر 211 ارکان جب کہ اپوزیشن بنچزپر 101 ارکان موجود ہیں۔  ایسے میں اگر حکومت آئینی ترمیم لانا چاہے تو اسے مزید 13 ووٹ درکار ہوں گے۔قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے 68، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 22، استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے چار 4، پاکستان مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا 1 ایک ایک رکن ہے۔

اسی طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80،  پی ٹی آئی حمایت یافتہ 8 آزاد  ارکان ، جمیعت علماء اسلام  کے 8،  بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین  اور  پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن اپوزیشن بینچوں کا حصہ ہیں،آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرنے والے ایک ایک رکن بھی اپوزیشن نشستوں پر ہیں۔

سینیٹ میں حکومتی بنچز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19،بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان ہیں۔ حکومتی بنچز پر 2 آزاد سینیٹرز جب کہ 2 ارکان انڈیپنڈنٹ بنچز پر ہیں۔ یوں ایوان بالا میں ان کی مجموعی تعداد54  بنتی ہے، اس لیے آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو مزید 9  ووٹ درکار  ہیں۔

سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر  پی ٹی آئی کے 17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل ، مجلس وحدت المسلمین ، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے۔ اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں ، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر31 سینیٹرز موجود ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی کے مزید 13 اور سینیٹ کے 9 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ جے یو آئی ف کے 8 اراکین شامل ہونے پر بھی حکومت کو 5 ووٹ مزید درکار ہوں گے

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئینی ترامیم کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈلاک برقرار ہے، اس کے برعکس مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنا آئینی مسودہ حکومت کے سامنے رکھ دیا ہے۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll