پاکستان

شاری بلوچ،بلوچستان میں دہشت گردوں کی خواتین کے استحصال کی ہولناک مثال

شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی کے حملے میں تین چینی شہریوں اور ایک پاکستانی ڈرائیور کی جان لی

GNN Web Desk
شائع شدہ 2 days ago پر Jan 4th 2025, 12:54 pm
ویب ڈیسک کے ذریعے
شاری بلوچ،بلوچستان میں دہشت گردوں کی خواتین کے استحصال کی ہولناک مثال

کراچی میں اپریل 2022 میں چینی اساتذہ کو نشانہ بنانے والی خودکش حملہ آور خاتون شاری بلوچ تھی اور اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔

 شاری بلوچ 3 جنوری 1971 کو تربت، بلوچستان کے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئیں، جو اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں تھا۔شاری کو بچپن سے ہی بڑے خواب رکھتی تھیںجس نے تعلیم کے ذریعے اپنے علاقے کو غربت اور ناانصافی سے نکالنے کے خواب دیکھے تھے۔ 
شاری بلوچ نےسخت محنت کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ایم فل مکمل کیا اور امید کی ایک کرن بننے کا عزم کیا،لیکن شاری کی دنیا اس وقت بکھر گئی جب ان کی ملاقات حبیطان بشیر بلوچ سے ہوئی بظاہر، وہ ایک بااثر اور پُرجوش شخص نظر آتا تھا،لیکن اس کی باتیں شاری کے دل کی آواز لگیں،شاری اس کی باتوں میں کھو گئیں اور اس کے خوابوں میں شامل ہوگئیں۔
وہ ایک شکاری تھا، وہ بی ایل اے کا اعلیٰ رکن تھا اور ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ تھا جو خواتین کو اپنے مقاصد کے لیے استحصال کرتا تھا،وہ خاص طور پر شاری جیسی تعلیم یافتہ اور معصوم خواتین کو اپنا شکار بناتا، ان کے خوابوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتاتھا۔
شادی کے بعدحبیطان نے شاری کو مکمل طور پر تنہا کر دیا، اسے اس کے خاندان اور دوستوں سے الگ کر دیا،اس نے نہ صرف شاری کی جذباتی کمزوریوں کو نشانہ بنایا، بلکہ اپنی گھریلو زندگی کو بھی تباہ کر دیا۔ 
اس کے دیگر خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات اور شاری کو اپنے دوستوں کے ساتھ تعلقات پر مجبور کرنا اس کے حوصلے کو مزید پست کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات تھے،اس ظلم اور استحصال نے شاری کو ایک ایسی عورت میں بدل دیا جو اپنے حقیقی وجود کو کھو بیٹھی تھی۔ 
حبیطان کے نفسیاتی دباؤ نے اس کی دنیا کو اس حد تک بگاڑ دیا کہ وہ اپنی تعلیم، خواب اور انسانیت سب کو کھو بیٹھی۔
 مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی وہ اب ایک آلہ بن چکی تھی، ایک ایسا ہتھیار جو اپنی ہی تباہی کے راستے پر چل پڑا تھا۔
حبیطان نے شاری کو ایران اور افغانستان لے جا کر دہشت گردی کی تربیت دی۔ وہاں نہ صرف اس کی انسانیت چھینی گئی بلکہ اسے یہ سکھایا گیا کہ تشدد ہی واحد حل ہے۔ 26 اپریل 2022 کو، شاری وہ عورت نہیں رہی تھی جو ایک تعلیم یافتہ اور ترقی پسند بلوچستان کا خواب دیکھتی تھی۔ وہ ایک خودکش بمبار بن چکی تھی۔
کراچی یونیورسٹی کے حملے میں اس نے تین چینی شہریوں اور ایک پاکستانی ڈرائیور کی جان لی۔
 یہ حملہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جسے حبیطان نے اس حد تک توڑ دیا کہ اس نے اپنی زندگی کے مقصد کو ہی برباد کر دیا،شاری اپنے پیچھے دو معصوم بچے، مہرش اور میر حسن، چھوڑ گئی۔ وہ بچے بھی اب اسی زہریلے ماحول میں پروان چڑھیں گے جس نے ان کی ماں کو برباد کیا۔
حبیطان بشیر بلوچ ایک ایسی قوت کا مجسمہ ہے جو خواتین کے خوابوں اور امیدوں کا استحصال کر کے انہیں تباہی کے آلات میں تبدیل کر دیتی ہے۔ شاری کی کہانی صرف اس کی بربادی کی داستان نہیں، بلکہ ان تمام خواتین کی کہانی ہے جو ان جیسے دہشت گردوں کے استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے جس میں محبت، جو کبھی پاکیزہ تھی، کو ایک ہولناک ہتھیار میں بدل دیا گیا۔