پاکستان میں تنگ پٹڑی کی تاریخ ،ملک کے طول و عرض میں بچھائے جانے والےریل ٹریکس کی کہانی
قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان میں نیرو، میٹر اور براڈ گیج کی پٹڑیاں تھیں جن میں اس اب صرف براڈ گیج کی پٹڑیاں استعمال کی جا رہی ہیں،عظیم شاہ بخاری


پہلی قسط
1850 میں جب تاجِ برطانیہ نے سر ہنری بارٹلے فریئر کو سندھ کا چیف کمشنر بنا کے بھیجا، تو وہ اپنے ساتھ ساتھ اس خطے کے لیئے تبدیلی کا پروانہ بھی لے کر آیا۔ اس کے ہوتے ہوئے نہ صرف کراچی کی بندرگاہ بنائی گئی بلکہ جہازوں کے لنگر انداز ہونے کو جیٹیاں بھی تعمیر کی گئیں۔ سندھی زبان کو فروغ دیا گیا اور سندھ میں ڈاک کا مضبوط بھی نافذ کیا گیا۔
بندرگاہ بنی تو اسے ملک کے دیگر شہروں سے ملانے کے لیئے ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ پیش کیا گیا جس کا سروے بھی فریئر نے کروایا۔ سروے کے مطابق کراچی کو پہلے لاہور اور پھر براستہ امرتسر دہلی سے جوڑا جانا تھا جس کے بعد لاہور کو پشاور سے جڑنا تھا۔ پہلے مرحلے میں کراچی تا کوٹڑی پٹڑی بچھانے کا فیصلہ ہوا جسے جلد از جلد مکمل کیا جانا تھا۔ مئی 1861ء میں کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا جس سے اس خطے میں ریل کا آغاز ہوا۔
اس کے بعد اپریل 1865ء کو لاہور - ملتان ریلوے لائن اور اکتوبر 1876ء کو دریائے راوی, چناب اور جہلم پر پلوں کی تعمیر کے بعد لاہور - جہلم ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں مختلف گیج کی لائنیں بچھائی گئیں جو موجودہ پاکستان کے کئی کونوں تک پہنچیں اور کامیابی سے چلتی رہیں۔ آج میں انہی لائنوں کا ذکر کریں گا۔
سب سے پہلے ہم اس گیج کو سمجھتے ہیں۔
ریلوے کی اصطلاح میں ٹریک کے لفظ 'گیج' کا مطلب ہے دو متوازی ریلوں کے درمیان کا فاصلہ۔ ہر ملک نے اپنی ضرورت کے حساب سے یہ فاصلہ منتخب کر رکھا ہے جبکہ کئی ممالک میں یہ فاصلہ ایک جیسا ہے۔ دنیا میں اس وقت مختلف گیج استعمال کیئے جا رہے ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:
1۔ براڈ گیج (پانچ فٹ چھ انچ/ سولہ سو چھیتر ملی میٹر چوڑا)
2- اسٹینڈرڈ گیج (چار فٹ ساڑھے آٹج انچ چوڑا)
3۔ میٹر گیج (تین فٹ تین انچ یا ایک ہزار ملی میٹر چوڑا)
4- نیرو گیج (دو فٹ چھ انچ یا سات سو باسٹھ ملی میٹر چوڑا)
5۔ مکس گیج ۔ ایسی لائن جس پر تین پٹڑیاں بچھائی جاتی ہیں تاکہ اس پہ بڑی اور نشبتاً چھوٹی گاڑی اپنے اپنے وقت میں چل سکیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان میں نیرو، میٹر اور براڈ گیج کی پٹڑیاں تھیں جن میں اس اب صرف براڈ گیج کی پٹڑیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔
اس مضمون میں میں آپ کو صرف نیرو اور میٹر گیج ٹریکس کا بتاؤں گا۔ براڈ گیج کو بعد میں الگ سے بیان کیا جائے گا۔ شروع کرتے ہیں سب سے چھوٹے نیرو گیج سے۔
تنگ پٹڑی یا نیرو گیج:
نیرو گیج لائن، اسٹینڈرڈ گیج سے چھوٹی ہوتی ہے اور اس میں دو پٹڑیوں کے بیچ کا فاصلہ 1435 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے۔ اس کا پیمانہ ہر خطے کے لیئے مختلف ہے۔ بوسنیا میں یہ 760 ملی میٹر ہے تو ہندوستان میں 762 ملی میٹر یا دو فٹ چھ انچ۔
نیرو گیج کو براڈ گیج پر کئی حوالوں سے سبقت حاصل ہے۔ آسانی سے مُڑ جانے، ہلکی ریل کے استعمال اور کم لاگت ہونے کی وجہ سے دنیا کے کئی علاقوں میں شروعاتی طور پہ نیرو گیج ٹریک بچھائے گئے تھے۔ تعمیر میں آسانی اور کم خرچ کی وجہ سے بہت سے پہاڑی علاقوں اور چھوٹے قصبوں تک یہی پٹڑی عوام الناس کو لے جاتی تھی ۔
تنگ گیج ریلوے ٹریکس کو کانوں سے معدنیات کی ترسیل کے لیئے بھی بہترین تصور کیا جاتا ہے۔
جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی کچھ ریاستوں میں نیرو گیج کو ہی بطور اسٹینڈرڈ استعمال کیا جاتا ہے۔
تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے میں کئی نیرو گیج ٹریکس آئے تھے جن میں سے کچھ کو آہستہ آہستہ براڈ گیج سے بدل دیا گیا تھو اور جو باقی بچے وہ بھی اکھاڑ دیئے گئے لیکن ان کی نشانیاں اب بھی باقی ہیں۔
میں خود تو ان ٹریکس پر سفر نہ کر سکا لیکن آپ کو ضرور ساتھ لیئے چلوں گا۔
1) کوہاٹ – تھل برانچ لائن:
اگرچہ یہ ٹریک جنڈ جنکشن سے شروع ہوتا ہے لیکن اسے خوشحال گڑھ -کوہاٹ- تھل ریلوے لائن بھی کہا جاتا ہے جو ضلع اٹک کے جنڈ شہر کو ضلع ہنگو کی تحصیل تھل سے براستہ کوہاٹ جوڑتی تھی۔
1889 میں خوشحال گڑھ تا کوہاٹ اس لائن کا سروے مکمل ہوا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ راستے میں آنے والے دریائے سندھ پر پُل بنانے کی بجائے ایک رَوپ وے بنایا جائے گا۔ خوشحال گڑھ سے کوہاٹ تک 48 کلومیٹر کی نیرو گیج لائن 1902 میں کھول دی گئی۔ یوں یہ موجودہ پختونخواہ کی پہلی نیرو گیج لائن قرار پائی۔
درہ کوہاٹ کے راستے تھل تک جانے والی سو کلومیٹر نیرو گیج لائن 1901 میں مختلف حصوں میں بنتی ہوئی 1903 میں تھل تک پہنچی۔
اُدھر ایک حادثے کی وجہ سے روپ وے کو بند کر کے 1903 میں ہی دریائے سندھ پر ایک کشتی والا پُل تعمیر کر دیا گیا۔ ایک بڑے پل کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے آخر کار دریائے سندھ پر ایک مضبوط پل تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا اور 1907 میں دو منزلہ خوشحال گڑھ پل کی صورت ایک حسین تعمیراتی شاہکار اباسین کے کناروں کو ملا رہا تھا۔
اس کا نچلا حصہ عام ٹریفک جبکہ اوپر والا حصہ ریل کراسنگ کے لیئے مختص ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سیکشن کو بھی کوہاٹ تک براڈ گیج میں تبدیل کر دیا گیا اور یہ 1908 میں دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔
جون 1991 میں، کوہاٹ-تھل سیکشن کو ترک کر دیا گیا تھا۔
کوہاٹ تک اس برانچ لائن پہ جنڈ جنکشن، خوشحال گڑھ، فقیر حسین شہید، غرزئی، گمبٹ اور کوہاٹ چھاؤنی جبکہ تھل سیکشن پہ نصرت خیل، استرزئی، ہنگو، توغ، کاہی، دوآبہ اور تھل کے اسٹیشن واقع ہیں۔ تھل پہنچ کر یہ لائن تھل کے قلعے میں غائب ہو جاتی تھی جو اب تھل سکاؤٹس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔
یہاں ریلوے لائن کے آخر میں ایک چھوٹی چٹان پر دو پرانی بوگیاں کھڑی ہیں جن پر ’تھل سفاری‘ کا نشان موجود ہے۔ جبکہ کوہاٹ سے تھل تک اس سفاری ٹرین کو کھینچنے والا کالا دُخانی انجن گولڑہ کے ریلوے عجائب گھر میں کھڑا ہے۔
اس سے آگے پارا چنار میں بھی ریلوے کا ریسٹ ہاؤس اور کچھ جائیدادیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انگریز سرکار اس لائن کو پاراچنار کے راستے افغانستان تک لے جانا چاہتی تھی لیکن اس سے پہلے ہی ان کا بوریا بستر یہاں سے گول ہو گیا۔
کوہاٹ تا تھل برانچ لائن اب بند کر دی گئی ہے جس کی دوبارہ بحالی بھی زیرِ غور ہے۔ اگر یہ سیکشن بحال ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف ضلع کُرم بلکہ وزیرستان کے علاقوں کو بھی بہت فائدہ ہو گا۔ نیز سیاحتی مقاصد کے لیئے بھی اس ٹریک کو استعمال کی جا سکے گا۔
جاری ہے۔
از قلم: ڈاکٹرمحمد عظیم شاہ بخاری،سیاح و محقق

سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کو قتل کرنے والے ملزم کی شناخت سامنے آگئی
- 5 گھنٹے قبل

9 مئی کے واقعات کی ہم پہلے ہی مذمت کر چکے ہیں، یہ واقعہ پیش نہیں آنا چاہیے تھا ، بیرسٹر گوہر
- 41 منٹ قبل

اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، آل پارٹیز کانفرنس
- 4 گھنٹے قبل

عمران خان کے بیٹوں نے پاکستان کے ویزے کے لیے درخواست دے دی ، علیمہ خان
- 4 گھنٹے قبل

عالمی و مقامی مارکیٹوں میں سونا پھر سستا ،فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟
- 5 گھنٹے قبل

کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی کی برطرفی کا حکم معطل
- 5 گھنٹے قبل

عدالتی نظام جانبدار ہو چکا ہے ،5 اگست سے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کریں گے ، سلمان اکرم راجہ
- 5 گھنٹے قبل

اسلام آباد ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں، 25 مسافر زخمی
- ایک گھنٹہ قبل

راولپنڈی : بیٹی سمیت سیلابی ریلے میں بہنے والے کرنل (ر)کی گاڑی برآمد، بیٹی کی تلاش تاحال جاری
- 4 گھنٹے قبل

راولپنڈی: جرگے کے فیصلے پر خاتون کا قتل، رکشہ ڈرائیور کا عدالت میں اعترافِ جرم
- 5 گھنٹے قبل

وزیراعظم کا گلگت بلتستان کے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان
- ایک گھنٹہ قبل

جماعت اسلامی اور حکومت کے مذاکرات کامیاب، لانگ مارچ ختم
- ایک گھنٹہ قبل