تقسیمِ ہند سے پہلے ملکوال اپنے لوکو شیڈ کی بدولت دور دور تک مشہور تھا۔ کیونکہ ملکوال سے بھیرہ، کھیوڑہ و غریبوال تک صبح شام دخانی انجن چلا کرتے تھے


ویب ڈیکس: ملکوال شاید کوئی بہت مشہور شہر نہیں ہے نا آپ میں سے بیشتر اسے جانتے ہوں گے لیکن میرے لیئے کچھ حوالوں سے یہ شہر بہت خاص ہے اور اسے پسند کرنے کے لیئے وہ حوالے ہی کافی ہیں۔
ضلع منڈی بہاؤالدین کی مغربی تحصیل ملکوال کا جغرافیہ بہت خاص اور منفرد ہے۔ یہ شہر پنجاب کے تین ڈویژنز اور تین اضلاع کے سنگم پر واقع ہے جسے ہم جنکشن پوائنٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے دائرے میں آپ ملکوال سے گجرات، سرگودھا اور راولپنڈی ڈویژنز کے بیچ سفر کر سکتے ہیں۔
ملکوال کا شہر اور ریلوے اسٹیشن ضلع منڈٰ بہاؤالدین کا حصہ ہے جو گجرات ڈویژن (پہلے گوجرانوالہ) میں آتا ہے۔
اسٹیشن سے کچھ آگے ہی ضلع سرگودھا (سرگودھا ڈویژن) کی حدود شروع ہو جاتی ہے بلکہ ملکوال کا لوکو شیڈ اسی حدود میں آتا ہے۔ یہاں ایک لائن میانی سے بھیرہ تک جاتی تھی۔
ملکوال کے شمال میں دریائے جہلم اور ہرن پور کا پُل ضلع جہلم کی حدود میں آتا ہے جو راول پنڈی ڈویژن کا حصہ ہے۔ یوں یہ شہر تین ڈیوژنز کو لنک کرتا ہے۔
اسی طرح دریائے جہلم کنارے آباد یہ شہر تین لائنوں کا جنکشن بھی ہے جن میں شور کوٹ – لالہ موسیٰ برانچ لائن، ملکوال – خوشاب لائن (جو پنڈ دادن خان تک چالو ہے) اور ملکوال – بھیرہ لائن (متروک شدہ) شامل ہیں۔
قیامِ پاکستان سے پہلے یہ شہر تاریخی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل تھا جب کوئلے سے چلنے والے اسٹیم انجن استعمال ہوتے تھے اور ان انجنوں میں استعمال ہونے والی ''فائر پروف برکس'' کا ایک کارخانہ بھی یہاں لگایا گیا تھا جو آج بند پڑا ہے۔
ملکوال شمالی و وسطی پنجاب کا ایک بہت بڑا جنکشن ہے اور اس کے تمام حوالے اس اسٹیشن سے جڑے ہیں جہاں دن میں کئی گاڑیوں کی سیٹیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہاں کئی انجن بھی دوڑتے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔
چلیئے ملکوال کے حوالے سے کچھ اور جانتے ہیں۔
ملکوال ریلوے جنکشن :
شور کوٹ تا لالہ موسیٰ برانچ لائن پر واقع یہ اہم جنکشن نہ صرف راولپنڈی اور گجرات کو جھنگ، ملتان و کراچی سے ملاتا ہے بلکہ سرگودھا کو گجرات، جہلم اور منڈی بہاؤ الدین کے اضلاع سے ملانے کا بھی اہم راستہ ہے۔
لائنوں کے حوالے ایک دور تھا جب ملکوال ملک کا سب سے بڑا جنکشن ہوا کرتا تھا لیکن کچھ ٹریکس کے بند ہو جانے سے اب اس کی وہ رونق نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی۔
ملکوال میں پانچ ٹریکس آ کر ملتے ہیں:
1- ملکوال تا سرگودھا براستہ پھلروان
2- ملکوال تا لالہ موسیٰ براستہ منڈٰی
3- ملکوال تا بھیرہ (متروک شدہ)
4۔ ملکوال تا خوشاب براستہ پنڈ دادن کان
5۔ ملکوال تا کھیوڑہ براستہ چلیسہ جنکشن
اس جنکشن کے کئی پلیٹ فارم ہیں جہاں سے ایکسپریس اور پسنجر ٹرینیں گزرتی ہیں۔ یہاں آنے والی مشہور ٹرینوں میں ملت ایکسپریس، چناب ایکسپریس، ہزارہ ایکسپریس اور پنڈ دادن خان شٹل شامل ہیں۔ یہاں سے دھماکہ ایکسپریس بھی گزرتی تھی جسے بند کر دیا گیا ہے۔ پنڈ دادن خان شٹل، ایک لوکل ٹرین ہے جو روزانہ ملکوال سے پنڈ دادن خان کے لیئے چلتی ہے۔ پہلے یہ دن میں دو بار چلتی تھے جسے اب دن میں ایک بار کر دیا گیا ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں درجن سے بھی زیادہ ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔
سال 1996 میں یہاں کا دورہ کرنے والے ایک سیاح، ڈاکٹر رولینڈ زیگلر لکھتے ہیں کہ ''سال 1996میں اب بھی ملکوال سے غریبوال، کھیوڑہ تک بھاپ کے ذریعے چلنے والی لوکل ٹرینیں موجود ہیں، اور بھاپ کے انجن کبھی کبھار خوشاب اور مرکزی لائن لالہ موسیٰ - ملکوال - سرگودھا کے راستے پر نظر آتے ہیں۔
ملکوال کا ڈپو خوشاب اور سرگودھا جانے والے راستوں کے جنوب میں مغربی اسٹیشن ہیڈ پر واقع ہے۔
یہاں ڈپو میں ان کے پاس اضافی انجن بھی ہیں۔ ڈپو کی ورکشاپس میں آپ کو قدیم مشینی اوزار بھی ملیں گے جو ایک بڑے مرکزی ٹرانسمیشن سے چلتے ہیں۔
یہ تقریباً دوپہر کا وقت ہے کہ ہماری ٹرین روانہ ہو چکی ہے اور میں اپنے آپ کو فٹ پلیٹ پر لے گیا جہاں وملے کے ساتھ ساتھ کافی جگہ بھی تھی۔ مہمان نواز لوکو عملے نے پھل اور چائے سے ہماری تواضع کی۔ یہاں چائے کی پتی، دودھ، چینی اور الائچی کا مرکب بنانے کے لیے ابلتا ہوا پانی لوکوموٹیو بوائلر سے مطلوبہ مقدار میں دستیاب ہے۔
اس دوران، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہے، جب ہم بنہ میاں والا کے اسٹیشن سے گزر رہے ہیں۔''
اس جنکشن کے قریب ہی مغرب میں ملکوال کا مشہور ڈائمنڈ کراس موجود ہے۔
ملکوال ڈائمنڈ کراس:
ریلوے کی اصطلاح میں جب ایک لائن دوسری کو اس طرح ترچھا کاٹتی ہے کہ ان کے عین درمیان میں ایک معین (رومبس، ہیرے کی شکل کا) نشان بن جائے، ڈائمنڈ کراس کہلاتا ہے۔
ملکہ وکٹوریہ نے 1885ء میں جب ملکوال سے کھیوڑہ کا ریلوے ٹریک بنوایا تبھی اس ڈائمنڈ کراس کو بنایا گیا تھا اس لیے اس کا نام ڈائمنڈ کراس رکھا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کے تاج میں جو ہیرا تھا اس ہیرے کی طرز پر یہ ڈائمنڈ کراس بنایا گیا، لیکن یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔
پاکستان میں اس وقت ریلوے کے تین ڈائمنڈ کراس ہیں جو روہڑی جنکشن، میر پور خاص جنکشن اور ملکوال جنکشن کی حدود میں واقع ہیں۔ یعنی پنجاب میں واقع یہ واحد کراس ہے۔ اس سے کچھ آگے ملکوال کا لوکو شیڈ ہے۔
ملکوال لوکو شیڈ:
تقسیمِ ہند سے پہلے ملکوال اپنے لوکو شیڈ کی بدولت دور دور تک مشہور تھا۔ کیونکہ ملکوال سے بھیرہ، کھیوڑہ و غریبوال تک صبح شام دخانی انجن چلا کرتے تھے سو یہاں ایک بڑا لوکوشیڈ تعمیر کیا گیا۔ یہ اس خطے کا دوسرا بڑا لوکو شیڈ تھا جہاں کئی دخانی انجن سیٹیاں بجاتے ہوئے مرمت کی غرض سے جاتے تھے۔ یہاں انجن کا رخ موڑنے والا ٹرن ٹیبل بھی موجود ہے۔ میں جب یہاں گیا تو مجھے ایک ریلیف ٹرین کھڑی نظر آئی جو ایمرجنسی میں چلائی جاتی ہے۔
یہاں 19 ستمبر 1939 میں تعمیر کی گئی پاور ہاؤس کی عمارت آج بھی چالو حالت میں موجود ہے جو اب لوکاٹ اور شہتوت کے درختوں سے گھری ہوئی ہے۔ نجانے کب یہ عمارت بھی بند کر دی جائے۔
یہاں ایک دو منزلہ مینار بھی نظر آیا جس کے اوپر لوہے کی ٹینکی دھری تھی۔ یہ مینار ایک حفاظتی چوکی ہوا کرتی تھی۔ یہاں چاروں طرف کھڑکیوں سے لوکوشیڈ اور نزدیک واقع آئل ڈپو پر نظر رکھی جاتی تھی۔
اس کے ساتھ ہی آگے ورکشاپس،کچھ دفاتر اور اینٹیں بنانے کی فیکٹری موجود ہے۔
ملکوال برِکس فیکٹری:
لوکو شیڈ کے پاس ہی کچھ خوبصورت سے اِگلو (گول چھت والے برف کے گھر) قسم کی تعمیرات نظر آتی ہیں۔ قریب جا کر دیکھا تو یہ برکس فیکٹری کی بھٹیاں تھیں ۔
دخانی انجنوں کے اندر جو بوائلر ہوا کرتے تھے ان کے اندر آگ سے محفوظ رکھنے والی اینٹیں لگائی جاتی تھیں۔ زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کرنے والی یہ فائر پروف اینٹیں، ملکوال کی اس فیکٹری میں بنتی تھیں اور بن کر پورے ہندوستان میں بذریعہ ریل سپلائی کی جاتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ فیکٹریاں کہ جن میں بوائلر استعمال ہوتے تھے، ریلوے سے یہ اینٹیں خریدا کرتی تھیں۔
یہاں مختلف اقسام کے انجنوں کے لیئے مختلف سائز اور شکلوں کی اینٹیں بنائی جاتی تھیں۔
اسی فیکٹری کی باقیات، یہ یادگار گول بھٹیاں اور چمنیاں آج بھی ملکوال لوکو شیڈ کے پاس موجود ہیں۔
یہ چار سے پانچ گول بھٹیاں ہیں جو ایک ترتیب سے بنائی گئی تھیں جن کے پاس ایک لوہے کا بوائلر اور مینار کی شکل کی بڑی بڑی دو چمنیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ بھٹی کے شمالی و جنوبی سمت ایک چھوٹا دروازہ جبکہ چاروں طرف دس چھوٹے سرنگ نما دروازے بنائے گئے تھے جنہیں مضبوط لوہے کے ڈھکنوں سے بند کیا گیا تھا جن میں سے ایک پر یہ عبارت تحریر ہے ؛
N W R
IRS F.D – 63
ORDER W-397
ERAY HRIS
گول عمارتوں کے اندر زمین دوز بھٹیاں بنی ہوئی ہیں جو زیرِ زمین راستوں سے ایک دوسرے اور باہر بنی چمنیوں سے منسلک ہیں۔ غالباً یہیں کچی اینٹیں پکنے کے لیئے رکھی جاتی تھیں۔ جبکہ مٹی چھاننے اور گوندھنے والا پلانٹ بھی یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
ان عمارتوں کے درمیان جگہ جگہ لوہے کا ایک چھوٹا سا ٹریک بھی بچھایا گیا تھا جس پر اینٹوں کی ترسیل میں استعمال ہونے والی ٹرالیاں چلتی تھیں۔ یہ ٹرالیاں کچی اینٹیں بھٹی کے اندر لاتیں اور پکی، باہر لے جاتی تھیں۔
ان میں سے دو عمارتوں کی شکل کچھ مختلف ہے جہاں شاید مختلف اینٹیں بنتی ہوں۔
تقسیم کے بعد بھی یہ فیکٹری کافی عرصہ کام کرتی رہی اور جب تک پاکستان میں دُخانی انجن چلتے رہے یہاں اینٹیں تیار ہوتی رہیں۔ لیکن بھاپ کے انجن کے ساتھ ہی اس فیکٹری کا زوال بھی شروع ہو گیا اور آخر کار یہ بند ہو گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ انگریز کی بنائی چیزیں (خصوصاً ریلوے) ہم سنبھال ہی نہیں سکے، شاید ہمیں ضرورت سے زیادہ مل گیا تھا اس لیئے ایک کے بعد ایک کئی اسٹیشن اور ٹریک بند ہوتے گئے اور ہم ریلوے کے قیمتی اثاثوں سے ہاتھ دھوتے گئے ۔
بند پڑی چیز کا جو حال ہوتا ہے وہ اس فیکٹری کا بھی ہوا اور آہستہ آہستہ کچھ بھٹیاں گِرنے لگیں۔ لوہا چونکہ بھاری تھا سو چوری نا ہو سکا لیکن کچھ ٹوٹی ہوئی بھٹیوں کو دیکھ کے مجھے لگا کہ شاید یہاں سے اینٹیں چرائی گئی ہیں۔
سوچیں اگر یہ منفرد ورثہ پاکستان کے باہر کسی بھی مہذب ملک میں ہوتا تو یہاں کیا کیا بنایا جا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔؟؟؟
ایک لائبریری و ٹک شاپ، کوئی چھوٹا سا کیفے، ریلوے کا عجائب گھر یا کم از کم کچھ ایسا، جس کے بننے سے روزانہ اسکی صفائی ہوتی رہتی اور یہ جگہ بہتر حالت میں رہتی۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔ ملکوال برکس فیکٹری
ڈفر کا جنگل:
ملکوال تحصیل کے سات ہزار ایک سو پینتیس ایکڑ (محکمہ جنگلات کے مطابق) پر پھیلے ہوئے اس ریزرو فاریسٹ کا موسم گرم مرطوب ہے جہاں زیادہ بارشیں موس سون میں ہوتی ہیں۔
اواخرِ 1800 تک یہ علاقہ اونچے نیچے خشک حاری جنگلات سے گھرا ہوا تھا جنہیں رکھ کہا جاتا تھا۔ ماحولیاتی توازن کی بحالی کے لیئے پرانے درختوں کو ہٹا کے نئے سرے سے شجرکاری کی گئی جس سے ایک گھنا جنگل وجود میں آیا۔
ڈفر کا یہ جنگل اب متنوع قسم کے پودوں کا گھر ہے جن میں زیادہ تعداد شہتوت اور شیشم کے پودوں کی ہے لیکن دیگر انواع جیسے سفیدہ، چنار، بکائن، کیکر اور یہاں تک کہ بانس کے تجرباتی باغات بھی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پودوں کے ساتھ ساتھ یہاں پرندوں اور جانوروں کی بھی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔
اس جنگل سے حاصل ہونے والی متفرق چیزوں میں ٹمبر کی لکڑی، ریشم کا دھاگہ، پودے، شہد اور شہتوت کی ٹہنیوں سے بنی ٹوکریاں شامل ہیں۔ جنگل کے بیچ میں محکمہ جنگلات کا ایک ریسٹ ہاؤس اور بابا بیری والے کا مزار بھی واقع ہے۔
مونا ڈپو:
سرگودھا سے ملکوال براستہ ریل جاتے ہوئے راستے میں مونا نام کا ایک چھوٹا سا اسٹیشن آتا ہے جہاں ٹرین بغیر رکے آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہی مونا، برصغیر کے گھوڑوں کے سب سے بڑے فارم کا مسکن ہے۔ اس ڈپو کا نام مقامی گاؤں ''مونا سیداں'' کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ڈپو کی زمین اصل میں اس علاقے کے لوگوں کی ملکیت تھی جو 18ویں صدی کے آخر میں سرکار کو دے دی گئی تھی۔
یہ ایک ریماؤنٹ ڈپو ہے۔ ریماؤنٹ ڈپو، وہ ادارے ہوتے ہیں جو خاص طور پر فوج کے لیے گھوڑوں، گدھوں اور خچروں کی افزائش اور پرورش کے لیے بنائے گئے ہیں۔
1902 میں گھوڑوں کی افزائش کے لیئے قائم کیا جانے والا یہ ڈپو دس ہزار ایکڑ 10،000 سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس وجہ سے اسے دنیا کا سب سے بڑا چالو ریماؤنٹ ڈپو کہا جاتا ہے۔ چند سالوں بعد یہاں خچروں اور گدھوں کی افزائش بھی شروع کر دی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد پہاڑی توپ خانوں کے لیئے خچروں کی فراہمی تھی (جو یقیناً پوٹھوہار کے پہاڑوں پر سامان کی ترسیل کے کام آتے ہوں گے)۔
مونا ڈپو اپنے عربی گھوڑوں کے لیے مشہور ہے جہاں 600 سے زیادہ اعلیٰ نسل کی گھوڑیاں ہیں۔ یہ ''ورلڈ عربین ہارس آرگنائزیشن'' کا بھی رکن ہے۔
یہ جگہ اپنے دلکش مناظر کے لیے مشہور ہے، جس میں سبز گھاس کے میدان، خوبصورت درخت، اور گھڑ سواری کی اعلیٰ درجے کی سہولیات شامل ہیں تبھی یہاں کا آرمی ایکویٹیشن اسکول (گھذسواری کی تربیت دینے والا ادارہ) پاکستان آرمی سمیت سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بنگلہ دیش ، اردن ، ملائیشیا ، سری لنکا اور نیپال کے افسران اور جونیئر رینک والے اہلکاروں کو گھڑ سواری کے کھیلوں (پولو، ڈریسیج، شو جمپنگ) اور سواری کی تربیت بھی دیتا ہے۔
یہ تھا ملکوال اور گرد و نواح کا وہ تعارف جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ سیاح حضرات اس معلومات سے فائدہ اٹھا کر ملکوال کی سیر کر سکتے ہیں اور ہاں۔۔۔۔۔ ریلوے کا تاریخی ورثہ دیکھنا مت بھولیئے گا۔
تحریر و تحقیق:
ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

فوج مخالف بیانیہ رکھنے والوں کا احتساب ہوناچاہیے،ڈی جی آئی ایس پی آر
- 3 hours ago

عالمی جریدے بھی پاکستانی فنکاروں کی امن سے محبت کے پیغام کے معترف
- 6 hours ago

وزیراعظم شہبازشریف سے سابق کپتان شاہدخان آفریدی کی ملاقات
- 4 hours ago

پاکستانی عوام اپنی بہادر افواج کو قومی عزت و وقار کا اصل نگہبان سمجھتے ہیں ، صدر مملکت
- 6 hours ago

پی ایس ایل10،کراچی کنگز کا پشاور زلمی کو238رنزکاٹارگٹ
- 4 hours ago

افواج پاکستان نے اپنی قوتوں سے ہمیشہ وطن کا دفاع کیا : نواز شریف
- 6 hours ago

ڈونلڈ ٹرمپ ایک ہی وقت میں امن اور دھمکیوں کی بات کرتے ہیں ، ایرانی صدر
- 9 hours ago

پاکستانی خاتون پولیس افسر نے ورلڈ پولیس سمٹ کا بین الاقوامی ایوارڈ جیت لیا
- 8 hours ago

صدر مملکت کا گوجرانوالہ کنٹونمنٹ کا دورہ، مسلح افواج کو زبردست خراج تحسین
- 6 hours ago

علیمہ خان کی حاضری سے استثنیٰ اور بیرون ملک جانے کی درخواست خارج
- 7 hours ago

لیجنڈری اداکارہ بشریٰ انصاری کی 69 ویں سالگرہ پر بنائی گئی ویڈیو وائرل
- 6 hours ago

بھارتی خارجہ پالیسی کا جنازہ ، ارکان پارلیمنٹ کا وفد مختلف ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ
- 9 hours ago