سنگین جرائم میں ملوث افراد کو جرمنی میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ملک بدری کا عمل آئندہ بھی محفوظ اور منظم طریقے سے جاری رہے گا


جرمن حکومت نے 81 افغان شہریوں کو ملک بدر کر کے طالبان کے زیرِ کنٹرول افغانستان روانہ کر دیا۔ ان افراد کو مختلف جرائم میں ملوث ہونے پر سزا یافتہ قرار دیا گیا تھا، اور ان کے خلاف ملک بدری کے عدالتی احکامات پہلے سے موجود تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، جرمنی نے یہ اقدام امیگریشن پر سخت مؤقف اپنانے کے حکومتی فیصلے کے تحت کیا ہے۔ جرمن وزارتِ داخلہ کے مطابق، ملک بدری کا یہ عمل 18 جولائی کی صبح ایک خصوصی طیارے کے ذریعے مکمل کیا گیا۔
🇩🇪 “سنگین جرائم میں ملوث افراد کے لیے کوئی گنجائش نہیں” – وزیرِ داخلہ
جرمن وزیرِ داخلہ الیگزینڈر ڈوبرنڈٹ نے یورپی وزرائے داخلہ کے اجلاس کی میزبانی کے دوران اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ:
"سنگین جرائم میں ملوث افراد کو جرمنی میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ملک بدری کا عمل آئندہ بھی محفوظ اور منظم طریقے سے جاری رہے گا۔"
وزارتِ داخلہ کے مطابق، اس آپریشن میں قطر کی ثالثی کے ذریعے طالبان حکومت کے ساتھ بالواسطہ رابطہ برقرار رکھا گیا، جو کہ سفارتی چینل کی غیر موجودگی میں ایک اہم معاونت ثابت ہوا۔
طالبان کے بعد ملک بدری کا دوبارہ آغاز :
2021 میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد جرمنی نے ملک بدری کا عمل معطل کر دیا تھا۔ تاہم، گزشتہ سال پہلی بار اس پالیسی میں تبدیلی کی گئی، جب اس وقت کی حکومت نے 28 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل :
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جرمن حکومت کے اس اقدام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:
"افغانستان میں صورتحال بدترین ہے۔ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور تشدد روزمرہ معمول کا حصہ ہیں۔"
ایمنسٹی نے یاد دہانی کروائی کہ رواں ماہ کے آغاز میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے طالبان کے دو اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سنگین جرائم پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
امیگریشن پالیسی میں وسیع تر تبدیلی :
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے 18 جون کو ایک پریس کانفرنس میں امیگریشن پالیسی میں جامع اصلاحات کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ:
"جرمنی امیگریشن کے لیے پرکشش ملک بننا چاہتا ہے، لیکن صرف اُن افراد کے لیے جو صلاحیت، مہارت اور ضوابط پر پورا اترتے ہوں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلی حکومتوں کی پالیسیوں کے باعث مقامی انتظامیہ پر غیر ضروری بوجھ پڑا اور موجودہ حکومت سرحدی کنٹرول سخت کرنے، خاندانی حقوق میں بعض پابندیاں متعارف کروانے جیسے اقدامات سے امیگریشن کو پائیدار بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پاکستان جلد سٹیلائٹ انٹرنیٹ کا آغاز کرے گا، شزہ فاطمہ خواجہ
- 18 گھنٹے قبل

منفی درجہ حرارت اورشدید برفباری کے باعث مانسہرہ؛ ناران ویلی سیاحوں کیلئےمکمل طور پر بند
- 2 دن قبل

پاکستان سٹاک ایکسچینج کا ایک اور سنگ میل ، پہلی مرتبہ ایک لاکھ ستر ہزار پوائنٹس کی بلند ترین سطح عبور کرلی
- ایک دن قبل
عالمی دباؤ: اسرائیل کا غزہ کیلئے اردن بارڈر کھولنے کا اعلان
- ایک دن قبل

ہم دشمن کو چھپ کے نہیں للکار کر مارتے ہیں، چیف آف ڈیفینس فورسز عاصم منیر
- 20 گھنٹے قبل

برطانیہ نے پاکستانی یوٹیوبر رجب بٹ کو ملک بدر کر دیا
- 2 دن قبل
پاکستان ویمنز فٹبال ٹیم کو پہلی بار فیفا سیریز میں شامل کر لیا گیا
- ایک دن قبل

صدر مملکت نے پاکستان کے دورے پر آئے انڈونیشین صدر کو نشان پاکستان سے نواز دیا
- 2 دن قبل

روسی فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ آزمائشی پرواز کے دوران آئیوانوو ریجن میں گر کر تباہ،7 افراد جاں بحق
- 2 دن قبل
شاہ محمود قریشی اسپتال سے ڈسچارج، جیل منتقل
- ایک دن قبل

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے انڈونیشیا کے صدر کی ملاقات، دفاعی تعاون کے فروغ پر تبادلہ خیال
- 2 دن قبل

وفاقی حکومت نیب کے ذریعے کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام اور کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتی،وزیر اعظم
- 2 دن قبل











