وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے فیصل آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جلسے کرنا صوبائی حکومت کا حق ہے، لیکن دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک بیانیہ اپنانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی میں افغان شہریوں کی شمولیت 80 فیصد تک بڑھ چکی ہے، اور صوبائی حکومت اس حساس مسئلے پر مسلسل ابہام پیدا کر رہی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر دہشت گرد ہمارے بچوں اور سپاہیوں کو شہید کریں تو ان سے بات چیت کیسی؟ ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں سے بات صرف گولی کی زبان میں ہو سکتی ہے، اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ طلال چوہدری نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 13 سال سے ایک ہی جماعت کی حکومت ہے اور صوبے کو 600 ارب روپے ملے، لیکن نہ تو فورسز کو سہولتیں دی گئیں اور نہ ہی سیف سٹی، سی ٹی ڈی یا فرانزک لیب جیسے منصوبے مکمل کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے، اور خوارج اس غیر سنجیدگی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کرک میں جاری آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور فورسز نے 17 دہشت گرد ہلاک کیے اور 6 زخمی حالت میں گرفتار کیے، اور یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب وفاق اور صوبہ مل کر لڑے۔
عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ ان کا بیانیہ بھارت اور اسرائیل سے مماثلت رکھتا ہے، وہ دہشت گردوں کے لیے نرم رویہ رکھتے ہیں اور شہیدوں کے لیے ایک ٹوئٹ تک نہیں کرتے۔
طلال چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی کامیابیاں ملی ہیں جن کا سہرا وزیراعظم شہباز شریف کے سر ہے، لیکن ان کامیابیوں کے ثمرات تبھی عوام تک پہنچیں گے جب تمام صوبے اور سیاسی جماعتیں وفاق کے ساتھ تعاون کریں۔ ایشیا کپ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دینا چاہیے، بھارت سے جیت کا مزہ الگ ہوتا ہے، قوم اپنی ٹیم کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرے۔