حکومت سندھ اور پولیس کے مطابق صحافی اور اینکر پرسن امتیاز میر کے قتل کیس میں ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے چار مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کارروائی کراچی پولیس اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کی مشترکہ کوششوں سے عمل میں آئی۔
واضح رہے کہ امتیاز میر گزشتہ ماہ اپنے بھائی کی گاڑی میں گھر جا رہے تھے کہ نیشنل ہائی وے پر دو موٹر سائیکلوں پر سوار چھ حملہ آوروں نے ان کی گاڑی پر گولیاں برسا دیں، جس کے نتیجے میں وہ ہسپتال منتقل ہونے کے بعد دم توڑ گئے تھے۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزمان کالعدم زینبیون بریگیڈ کی ذیلی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور بیرونِ ملک سے ہدایات حاصل کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امتیاز میر نے ایک انٹرویو دیا تھا جس میں اسرائیل کے حق میں گفتگو کی تھی، اور ممکنہ طور پر یہی قتل کی وجہ بنی۔
ملزمان کی گرفتاری کے دوران حملے میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بھی برآمد کر لی گئی ہے۔ وزیر داخلہ کے مطابق مرکزی ملزم پڑوسی ملک میں مقیم ہے، جو پاکستان میں فنڈنگ کرکے انتشار پھیلا رہا ہے۔
امتیاز میر کے بھائی ریاض علی نے مقدمہ درج کرایا تھا، جس میں ایک شخص اور اس کے بیٹوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے میں 34 (مشترکہ نیت) اور 324 (اقدامِ قتل) کے تحت دفعات شامل ہیں۔
دولتِ مشترکہ ہیومن رائٹس انیشیٹیو کی رپورٹ کے مطابق 2006 سے 2023 کے دوران پاکستان میں 87 صحافی قتل ہوئے، جن میں سے صرف دو کیسز حل ہوئے ہیں۔
یہ گرفتاری امتیاز میر کے قتل کیس میں ایک اہم پیش رفت شمار کی جا رہی ہے۔





.jpg&w=3840&q=75)
























.webp&w=3840&q=75)