ویب ڈیسک : اردوکے شہرہ آفاق اور نامور ترقی پسند شاعر احمد فراز کی آج تیرہویں برسی منائی جارہی ہے ۔


اردوکے شہرہ آفاق اور نامور شاعر احمد فراز نے12جنوری1931 کوفارسی کے ممتاز شاعر سید محمد شاہ کے گھر آنکھ کھولی، شاعری انہیں ورثے میں ملی اور ان کے والد سید محمد شاہ کا شمار ممتاز شعرا میں ہوتا تھا۔ انہوں نے تعلیم اسلامیہ ہائی سکول کوہاٹ، ایڈورڈز کالج اور پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔ انہوں نے تین زبانوں اردو، فارسی اور انگریزی میں ایم اے کیا۔ دوران تعلیم ترقی پسند افکار اور تحریک سے متاثر ہوئے اور پھر ترقی پسندی کا دامن کبھی نہ چھوڑا ۔شاعری سے لگاؤ تھا اور 1960ء کی دہائی میں وہ زیرتعلیم ہی تھے جب ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ شائع ہوا۔ اس کے بعد شہرت کی سیڑھی پر رکھا گیا قدم بڑھتا ہی گیا۔ شاعری میں رومانوی کے ساتھ ساتھ انقلابی رنگ کی وجہ سے وہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں میں بھی بہت مقبول ہو گئے۔ احمد فراز نے اپنے کیرئیر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے بطور سکرپٹ رائٹر کیا اور اس کے بعد پشاور یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔ اس کے علاوہ آپ پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔ تاہم شاعری آپ کی اصل پہچان بنی۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
احمد فراز کی مزاحمتی اور انقلابی شاعری تاثر، نغمگی اورہنر میں رومانوی کے ہم پلہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے والی سرکار کو ان کی شاعری ناگوار گزری تو انہیں گرفتار کر لیا۔ حساس طبیعت شاعر نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔ احمد فراز جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں کچھ عرصہ مختلف مغربی ممالک میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی مشہور نظم ’’محاصرہ‘‘ لکھی۔ ملک میں سول حکومت قائم ہونے کے بعدآپ ایک اہم عہدے پر متمکن ہوئے۔ بہت سے نامور گلوکاروں نے ان کی شاعری کو چار چاند لگائے۔ مہدی حسن ، میڈم نور جہاں، لتا منگیشکر اور آنجہانی جگجیت سنگھ نے اپنی آواز سے سینچا اور خوب پذیرائی حاصل کی۔
احمد فراز کی شاعری نے فلموں میں بھی جگہ پائی جبکہ انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا جن میں چھ غیرملکی ایوارڈز ہیں۔ انہیں ملنے والے اعزازات میں آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ (انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، ٹاٹا ایوارڈ جمشید نگر (انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا کمال فن ایوارڈ، شامل ہیں۔ 2004میں انہیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا جسے انہوں نے مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی بنیاد پر 2006 میں واپس کر دیا۔
احمد فراز نے اپنی زندگی میں کل تیرہ مجموعے لکھے۔جن میں میرے خواب ریزہ ریزہ، تنہا تنہا، شب خون، بے آواز گلی کوچوں میں، نابیناشہر میں آئینہ ،اے عشق جنوں پیشہ، درد آشوب، جاناں جاناں، پس انداز موسم، غزل بہانہ کروں، بودلک، سب آوازیں میری ہیں اور نایافت شامل ہیں۔ان کی شاعری کے تراجم مختلف غیر ملکی زبانوں میں ہوئے۔ اردو غزل کایہ سنہری باب 25اگست 2008 کو ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا آپ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

خیبرپختونخوا: پی ٹی آئی کی کابینہ پر مشاورت، نئے اور پرانے چہروں کی واپسی متوقع
- 11 گھنٹے قبل

سلطان آف جوہر ہاکی کپ: پاکستان اور بھارت کی جونیئر ٹیموں کا مثبت رویہ
- 12 گھنٹے قبل

غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا، جنگ بندی کے باوجود امداد پر پابندی برقرار
- 12 گھنٹے قبل
ملک بھر میں بجلی 8 پیسے فی یونٹ مہنگی
- 12 گھنٹے قبل

ڈھاکا: گارمنٹ فیکٹری اور کیمیکل گودام میں آتشزدگی ، 16 افراد ہلاک
- 12 گھنٹے قبل

فیفا غزہ میں فٹبال سہولیات کی بحالی میں بھرپور کردار ادا کرے گا، صدر جیانی انفنتینو
- 12 گھنٹے قبل

ٹی ایل پی رہنما سعد رضوی کے گھر سے 14 کروڑ سے زائد کی رقم اور زیورات برآمد
- 11 گھنٹے قبل

گورنر خیبرپختونخوا نے نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے حلف لینے پر آمادگی ظاہر کر دی
- 16 گھنٹے قبل

ٹی ایل پی احتجاج پر جعلی خبریں پھیلانے والوں کی فہرستیں تیار، حکومت کا کریک ڈاؤن شروع
- 15 گھنٹے قبل

افغان قیادت مسائل کا پُرامن حل چاہتی ہے، جنگ نہیں: مولانا فضل الرحمٰن
- 15 گھنٹے قبل
.jpg&w=3840&q=75)
سوشل میڈیا کا ایک گھنٹہ استعمال بچوں کی تعلیمی قابلیت متاثر کر سکتا ہے، تحقیق
- 11 گھنٹے قبل

ملالہ یوسفزئی کا انکشاف: ویڈ نشے کے استعمال سے طالبان حملہ یاد آگیا
- 12 گھنٹے قبل