ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے ، لیکن ارشد شریف اور بہت سے ان جیسے صحافیوں کو رجیم چینج کا بیانیہ فیڈ کیا گیا ، شہباز گل نے فوج میں بغاوت پر اکسانے کا بیان دیا ، اے آر وائی چینل نے پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف جھوٹے اورسازشی بیانیے کو فروغ دیا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ لفظ نیوٹرل کو گالی بنادیا گیا ، ہمارے شہدا کا مذاق بنایا گیا،ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں، لیکن ہم غدار سازشی یا قاتل نہیں ہوسکتے ، سائفر کا بہانہ بنا کر افواج پاکستان کی تضحیک کی گئی ، غیر آئینی کام سے انکار کرنے پر میر جعفر اور میر صادق کے القاب دیے گئے۔
ترجمان پاک فوج جنرل بابر افتخار نے کہا کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے اس بنیاد پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ، پاکستان میں چیلنجزہیں اور رہیں گے ،ان کوکور کرنے کیلئے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں ۔ تنقید ہر ایک کا حق ہے ، مسئلہ الزام تراشی اور من گھڑت باتوں پر جاتی ہے ، ہمارے پاس ایسا کوئی فارم نہیں کے ہر ایک کی بات کا جواب دیا جا سکے، پاکستان میں چلینجز ہیں اور رہیں گے ، انکو کور کرنے کیلئے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہم بطور ادارہ کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے۔
جنرل بابر افتخارنے کہا کہ ارشد شریف صاحب بہت محنتی شخص تھے ، ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا ، انکے خاندان میں کئی غازی بھی ہیں اور شہید بھی ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ، گزشتہ سال سےاس سال ہم پربہت دباؤ ہے ، جنرل باجوہ چاہتے آخری 7 ماہ بہت اچھے سے گزارتے لیکن انہوں نے ملک کیلئے فیصلہ کیا ، مارچ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی گئی ، جسے انہوں نے مسترد کردیا ، وہ چاہتے تھے کہ ان کے جانے کے بعد ادارے کی ساکھ متنازع نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ ’کسی گروہ یا شخص‘ کے ساتھ وابستگی نہیں دکھا سکتا۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ اگر آپ کاسپہ سالار غدار ہے تو ماضی میں تعریفوں کےپل کیوں باندھے ؟ ا گر وہ غدار ہیں تو پس پردہ کیوں ملتے ہیں ، رات کی تاریکی میں ہم سے ملتے ہیں ، دن کی روشنی میں برائی کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی فوج کیخلاف بات کرتا ہے، پاکستان کا آئین اجازت نہیں دیتا ، اگر کوئی ادارے کیخلاف بات کرتا ہے ہم نے ہمیشہ حکومت سے رابطہ کیا ، خود سے گرفتاری کرنا ہمارا حق نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف قتل کی کینیا میں بھی انکوائری ہو رہی ہے اور میں کینیا کے اپنے ہم منصب سے رابطے میں ہوں ۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق شناخت کی غلطی کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا تاہم شناخت کی غلطی پر قتل کے معاملے پر ہم اور حکومت پاکستان مطمئن نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان کی جن ملاقاتوں کا کہا جا رہا ہے وہ ملاقاتیں ہوئیں اور وہ ملاقاتیں منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں ۔ بلا ضرورت سچ بھی شر ہے ، پاکستان جمہوری ملک ہے، دوستوں اور دشمنوں کا فیصلہ کرنا منتخب حکومت کا کام ہے جبکہ فوج یا ادارے کا کام خفیہ معلومات اور رائے دینا ہے ۔ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے ہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتاہے، پاکستان نفرت کی وجہ سےدو ٹکڑے ہوا۔ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ادارےکے غیر سیاسی رہنے پر بہت دن بحث ہوئی پھر یہ فیصلہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں ایک حق احتجاج کرنے کا بھی ہے، ہمیں کسی کے احتجاج، لانگ مارچ یا دھرنے پر اعتراض نہیں، جب زیادہ لوگ اکٹھے ہوں تو خطرہ ہوتاہے، ہمارافرض ہےکہ ہم سکیورٹی دیں، ہم باتیں نہیں کرتے کام کرتے ہیں۔