محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے انتہائی مطلوب افراد کی ایک اور فہرست جاری کردی
مطلوب افراد کی تعداد 135 ، جس میں ایک خاتون کا نام بھی شامل ہے، جی این این بیوروچیف پشاور کاشف الدین سید


خیبر پختونخوا کی محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے انتہائی مطلوب افراد کی ایک اور فہرست جاری کردی ہے۔ جس میں 128افراد کی گرفتاری پر انعام کا اعلان کرتے عوام سے تعاون کی اپیل بھی کی گئی ہے، مطلوب افراد جو مختلف مقامات پر بم حملوں، خود دھماکوں۔ پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں۔
جی این این بیورو چیف پشاور کاشف الدین سید کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو انتہائی مطلوب افراد کی حالیہ فہرستیں سامنے آئی ہیں ۔ ان کی تعداد 258 ہے۔ اور ان کی سروں کی جو مجموعی قیمت لگائی گئی ہے ۔ وہ کل رقم 44کروڑ 53لاکھ روپے ہے۔
پہلے مرحلے میں جو فہرست آئی، اس میں مطلوب افراد کی تعداد 135 تھی، جس میں ایک خاتون کا نام بھی شامل ہے ۔ جس کی سر کی قیمت 3لاکھ روپے مقرر ہے۔ 37 سالہ دہشت گرد قراۃ العین کا تعلق حویلیاں ایبٹ آباد سے ہے اور اس نے اسلام آباد کی جامعہ حفصہ سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ قراۃ العین کی شادی ڈیرہ اسماعیل خان کے تحصیل پروا رہائشی اقبال عرف بالی سے ہوئی ہے۔ قراۃ العین کا شوہر اقبال عرف بالی مشہور ٹارگٹ کلر تھا جو30کے قریب پولیس افسران اور اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھا۔

اقبال عرف بالی کھیرہ ولد اللہ وسایا سکنہ چاہ خان والا تحصیل پروآکو ساتھی سمیت 4مئی 2023ء کو فتح موڑ کے قریب فائرنگ کرکے مارا گیا تھا۔اس فائرنگ کے نتیجے میں ڈی ایس پی عابد اقبال زخمی ہوئے تھے اقبال عرف بالی کھیارہ کے سر کی قیمت 1کروڑ5لاکھ روپے مقرر تھی۔ اقبال عرف بالی کی اہلیہ قرۃ العین کو اس سے قبل پولیس گرفتار بھی کر چکی ہے۔ تاہم بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔
اس حوالے سے معروف صحافی اور دہشت گردی کے واقعات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار سید فخر کاکا خیل کا کہنا ہے کہ قرۃ العین کی کچھ عرصہ قبل موت واقع ہوچکی ہے اور وہ طبعی موت مری ہے۔ سی ٹی ڈی کی لسٹ پرانی ہے۔ جسے اپ ڈیٹڈ ہونا چاہیئے۔ ماضی میں فیڈرل انویسٹی گیٹیو ایجنسی(ایف آئی اے) ہر سال ایک ریڈ بک شائع کرتی تھی جس میں دہشت گردوں کے نام اور تصاویر شامل ہوتے تھے۔ تاہم انسداد دہشت گردی کے ادارہ کے قیام کے بعد اب زیادہ تر کارروائیاں سی ٹی ڈی کرتی ہے۔
انتہائی مطلوب افراد کی اس لسٹ کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تعداد سوات سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ محکمہ انسداد دہشت گردی کی جاری دستاویزات کے مطابق سکیورٹی فورسزاور وامی مقامات پر حملوں میں ملوث ریاست کو مطلوب شدت پسندوں میں سوات سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد51ہے جو اس وقت مختلف کالعدم تنظیموں کیساتھ وابستہ ہیں.
دوسرے نمبر ڈیرہ اسماعیل خان سے48 شدت پسند ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہے جن میں زیادہ تر نے افغانستا ن میں پناہ لی ہوئی ہے۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے 32اور مردان سے تعلق رکھنے والے21شدت پسند بھی ملک دشمن عناصر کے ساتھ شامل ہیں جن کی سرگرمیوں سے متعلق سی ٹی ڈی نے تمام معلوما ت اکٹھی کر لی ہیں۔ دستاویزات کے مطابق لکی مروت سے15،بونیر سے14،بنوں سے14، پشاور سے12، چارسدہ سے6، نوشہرہ سے5، کرک سے 3،کوہاٹ سے6، شمالی وزیرستان سے5، خیبر سے 7،ایبٹ آباد سے2، افغانستان سے3، ہری پور سے ایک، ملک آباد سے 3، احمد خیل سے ایک، اٹک سے ایک، کوہستان سے ایک، مانسہرہ سے ایک، باجوڑ سے ایک اوراوکاڑہ سے بھی ایک شدت پسند سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا کو انتہائی مطلوب شدت پسندوں کی فہرست میں شامل ہے۔
فہرست میں کسی شدت پسند کے سر کی قیمت سب سے کم 2لاکھ روپے اور سب سے زیادہ ایک کروڑ روپے رکھی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے حالیہ اقدامات کے پس پشت عوامل کیا ہیں اس حوالے سے سابق آٰئی جی پولیس خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ کا کہنا ہے گزشتہ سال کے نسبت اس سال دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔ اگست اور ستمبر کے مہینوں کے دوران اس میں مزید شدت آگئی ہے۔اس لئے سیکیورٹی اداروں نے بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اس سے قبل سیز فائر اور مذاکرات کی پالیسی بھی اختیار کی گئی تھی جو ناکام ہوگئی ہے۔
سید اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں نے کاؤنٹر آفینسز تیز کر دی ہیں۔ اور ہائی پروفائل عسکریت پسندوں کو حراست میں لے کر کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں عوامی دباؤ کی وجہ سے بھی یہ احساس بڑھ گیا ہے کہ عوام توقع رکھتے ہیں کہ ریاستی ادارے ان کی جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری یقینی بنائے۔
مطلوب افراد کی گرفتاری پر انعامات یا ان کے سروں کی قیمت مقرر کرنے کے حوالے سے سابق پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ اس سے سیکیورٹی اہلکاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اسی طرح اداروں کے مخبر بھی فعال کر دئے جاتے ہیں.
سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان نے زیادہ تعداد سامنے آنے کے حوالے سے سید اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں ماضی کے افغان جہاد، اور کشمیر میں لڑنے والے تنظیموں کی سرگرمیاں ذیادہ رہی ہیں۔ اس وقت لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں تھیں جن کے تربیت یافتہ افراد اب ٹی ٹی پی ،داعش اور دولت خراسان کا حصہ بن چکے ہیں۔
سید فخرکاکا خیل کہتے ہیں کہ سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان عسکریت پسندوں کے گڑھ رہے ہیں۔ سوات میں ملا فضل اللہ اور مولانا صوفی محمد کے پیروکاروں کی کثرت رہی ہے۔ جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان جنوبی وزیر ستان سے قربت کے باعث عسکریت پسندوں کی آماج گاہ ہے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخواسہیل خان آفریدی 2 روزہ دورے پر لاہور پہنچ گئے
- 17 hours ago

احتجاج میں عسکری قیادت کودھمکیوں کا معاملہ،پاکستان کا برطانیہ کےقائم مقام ہائی کمشنر کوڈیمارش جاری
- 19 hours ago

سندھ حکومت نے بینظیر بھٹو کی برسی پر عام تعطیل کا اعلان کر دیا،نوٹیفکیشن جاری
- 19 hours ago

صوبائی حکومت کا بسنت کے موقع پرلاہور میں فری بسیں اور رکشے چلانے کا اعلان
- 20 hours ago

ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک رہنے کا امکان، محکمہ موسمیات
- 20 hours ago

شمالی اسرائیل میں چاقو بردار شخص کا حملہ ، 2 یہودی ہلاک ، 2 زخمی
- 18 hours ago

لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، شہریوں کے پاسپورٹ کو غیر فعال کرنے کا اختیار کالعدم
- 21 hours ago
.jpg&w=3840&q=75)
مہنگا سونا مزید مہنگا، قیمت ایک بار پھر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
- a day ago

شہباز شریف سے یو اے ای صدرکی ملاقات:امن، استحکام ،پائیدار ترقی اور دوطرفہ تعاون مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
- 16 hours ago

کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال: ملائیشیا کے سابق وزیراعظم کو 15 سال قید کی سزا
- 16 hours ago

سیکیورٹی فورسز کی کوہلو میں کامیاب آپریشن، بھارتی حمایت یافتہ 5 دہشت گرد جہنم واصل
- 16 hours ago

محمود الرشید کو 33 سال، یاسمین راشد، سرفراز چیمہ اور اعجاز چوہدری کودس،دس سال قید کی سزا،تحریری فیصلہ جاری
- a day ago









