جی این این سوشل

علاقائی

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں ٹریفک رسپانس یونٹ لانچ کر دیا

مریم نواز نے لاہور میں ٹریفک کی روانی بہتر بنانے کیلئے ڈیڈ لائن مقرر ،ٹریفک رہنمائی کیلئے نصب سکرینیں بھی بحال کرنے کا حکم دے دیا

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں ٹریفک رسپانس یونٹ لانچ کر دیا
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں ٹریفک رسپانس یونٹ لانچ کر دیا

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں ٹریفک رسپانس یونٹ لانچ کر دیا۔

مریم نواز نے لاہور میں ٹریفک کی روانی بہتر بنانے کیلئے ڈیڈ لائن مقرر ،ٹریفک رہنمائی کیلئے نصب سکرینیں بھی بحال کرنے کا حکم دے دیا۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ مریم نواز نے ٹریفک رسپانس یونٹ بائیک کا معائنہ کیا اور وارڈن سے بات چیت ، ٹریننگ اور دیگر اُمور بارے دریافت کیا، انہوں  نے ٹریفک جام کی صورت میں پبلک ایڈریس کے ذریعے میسج کا بھی مشاہدہ کیا۔

ٹریفک رسپانس یونٹ کی لانچنگ کے بعد وزیراعلیٰ مریم نوازکی زیر صدارت ٹریفک مینجمنٹ پر خصوصی اجلاس منعقد ہوا، وزیراعلیٰ نے لاہور میں ٹریفک کی روانی بہتر بنانے کیلئے ڈیڈ لائن مقرر کردی، اجلاس میں ٹریفک کی روانی میں حائل ریڑھیاں ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا،وزیراعلیٰ مریم نواز نے ریڑھیوں کے لئے متبادل جگہ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے لین لائن ڈسپلن ہر صورت یقینی بنانے اور رکشہ اور موٹر بائیک کو لین کی پابندی کیلئے آگاہی مہم چلانے کی بھی ہدایت کی، اجلاس کے دوران لاہور میں انٹیلی جنس ٹریفک سگنل مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ کا جائزہ لیا گیا جبکہ سڑکوں پر تجاوزات کے خاتمے کے لئے مؤثر اور پائیدار پلاننگ کی ہدایت کی گئی۔

اجلاس میںسی ٹی اوعمارہ اظہر نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ خصوصی ٹریفک رسپانس یونٹ 15 کال پر ٹریفک جام والے ایریا میں پہنچے گا، 50ہیوی بائیک اور100 وارڈنز پر مشتمل سپیشل یونٹ ٹریفک کلیئر کرنے کےلئے فوری کارروائی کرے گا، ٹریفک رسپانس یونٹ کو ایک ماہ کے لئے سپیشل ٹریننگ کرائی گئی ہے۔

پاکستان

آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس،علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا

نظر ثانی کیس کی سماعت کرنے والا بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کے تحت تشکیل نہیں دیا گیا، وکیل عمران خان

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

آرٹیکل 63 اے نظر ثانی  کیس،علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے وکیل علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 (اے) نظر ثانی کیس کی سماعت کرنے والا بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کے تحت تشکیل نہیں دیا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے مطابق تین رکنی کمیٹی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج اور چیف جسٹس پاکستان کے نامزد کردہ جج پر مشتمل ہو گی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت بینچز کی تشکیل کے لیے تین آزاد ججز کو فیصلہ سازی کی ذمہ داری دی گئی، تین ججز کی اجتماعی دانش کے بعد ہی بینچ کی تشکیل اور مقدمات کی سماعت کی جا سکتی ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 23 ستمبر کو جسٹس منصور علی شاہ نے تین رکنی کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی، جسٹس منصور علی شاہ کی عدم موجودگی کے بعد چیف جسٹس اور ان کے نامزدکردہ جج نے نظرثانی درخواست مذکورہ بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 2 ججز کے فیصلے کو تین رکنی کمیٹی کا فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ حقیقت ہے کہ کمیٹی اجلاس میں 3 ممبران کی بجائے 2 نے شرکت کی۔پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت نامکمل کمیٹی مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے اور بینچز تشکیل نہیں دے سکتی، 2جج موجودہ نظرثانی درخواست بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کے مجاز نہیں۔

درخواست میں مزید مؤقف اپنایا گیا ہے کہ موجودہ بینچ نظرثانی درخواست کی سماعت کرنے کا اہل نہیں، 23 ستمبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے نامزد کردہ جج نے نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا، کمیٹی کے مذکورہ دونوں ممبران نے خود کو بھی اس بینچ میں شامل کیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں چیف جسٹس اور جسٹس امین الدین کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے اس لیے دونوں جج خود کو بینچ سے الگ کر لیں۔

واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر تشکیل کردہ بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی تھی، جسٹس منیب کے پیش نہ ہونے پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پرنظرثانی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پہلے سپریم کورٹ بار کے وکیل تھے، اٹارنی جنرل اس وجہ سے کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پرنظرثانی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پرنظرثانی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی، جسٹس منیب اختربینچ کا حصہ نہیں بنے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح پرنظرثانی کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں چاررکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس منیب اختربینچ میں موجود نہیں تھے۔

نظرثانی درخواست سپریم کورٹ بارکی جانب سے دائر کی گئی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے دوران سماعت خط پڑھ کرکہا کہ جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب اخترنے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے، خط کے مطابق جسٹس منیب اختر فی الوقت بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ جسٹس منیب اخترکہتے ہیں ان کے خط کو سماعت سے معذرت نہ سمجھا جائے، جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ بینچ کا حصہ بنیں، ابھی بینچ اٹھنے لگا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پہلے سپریم کورٹ بار کے وکیل تھے، اٹارنی جنرل اس وجہ سے کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایسے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے، جسٹس منیب کا خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا، مناسب ہوتا جسٹس منیب اختر بینچ میں آکر اپنی رائے دیتے، میں نے اختلافی رائے کو ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب نے آج معمول کے مقدمات کی سماعت کی ہے، اگرجسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ نہ بنے تو ججز کمیٹی معاملے کا جائزہ لے گی، بنچ سے الگ ہونا ہوتوعدالت میں آ کر بتایا جاتا ہے، جسٹس منیب اخترکومنانے کی کوشش کرتے ہیں، جسٹس منیب راضی نہ ہوئے تو کل نیا بنچ سماعت کرے گا۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نظرثانی کیس دو سال سے زاید عرصہ سے زیرالتوا ہے، 63 اے کا مقدمہ بڑا اہم ہے، جج کا مقدمہ سننے سے انکار عدالت میں ہوتا ہے، جسٹس منیب اخترکی رائے کا احترام ہے۔

صدرسپریم کورٹ بارنے کہا کہ خواہش اور دعا ہے کہ جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ بنیں۔

بیرسٹرعلی ظفر نے بھی بینچ کی تشکیل پراعتراض کر دیا، انھوں نے کہا کہ قانون کے مطابق تین ججز نے بیٹھ کر بینچ بنانے ہوتے ہیں، دوججز بیٹھ کر بینچ تشکیل نہیں دے سکتے۔ اس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کسی جج کو بینچ یا کمیٹی کا حصہ بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

بیرسٹرعلی ظفرنے مؤقف اپنا کہ جب کمیٹی کی تشکیل درست نہ ہو تو فل کورٹ کو معاملہ دیکھنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ کیا قانون میں فل کورٹ کا ذکرہے؟

بیرسٹرعلی ظفرنے جواب دیا کہ بحرانی کیفیت میں فل کورٹ ہی مسئلے کا حل ہے جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بحرانی کیفیت تب ہوتی جب چار رکنی بینچ سماعت کررہا ہوتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس منیب اخترنے خط کیا فائل میں رکھنے کا لکھا ہے، میرے حساب سے ججز کے خطوط فائل کا حصہ نہیں ہوتے، شفافیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس منیب کو بینچ کا حصہ بنایا۔ اکثریتی فیصلہ دینے والے دو ججز ریٹائر ہوچکے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ پانچ رکنی بینچ میں جسٹس منیب اخترنہیں آئے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اورجسٹس منظرعالم کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

جسٹس منیب اخترکا خط

جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں لکھا میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، ایک بار بینچ بن چکا ہو  تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے بینچ تشکیل دیا ہے، کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے، میرے خط کو نظر ثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر سے کمی کر دی گئی

وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جا رہا ہے، نئی قیمتوں کا اطلاق یکم اکتوبر 2024 (آج رات 12 بجے) سے ہوگا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر سے کمی کر دی گئی

حکومت پاکستان کی جانب سے عوام کو ریلیف کا سلسلہ جاری ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر سے کمی کر دی گئی۔

تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں 2.07 روپے فی لیٹر اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3.40 روپے فی لیٹر کمی کر دی گئی ۔

لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 1.03 روپے فی لیٹر جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 3.57 روپے فی لیٹر کمی کی گئی پیٹرول کی نئی قیمت249.10 روپے فی لیٹر سے کم ہو کر 247.03 روپے فی لیٹر، ڈیزل کی نئی قیمت 249.69 روپے فی لیٹر سے کم ہو کر 246.29 روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت 158.47 روپے فی لیٹر سے کم ہو کر 154.90 روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 141.93 روپے فی لیٹر سے کم ہو کر 140.90 روپے فی لیٹر ہو گئی۔

خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جا رہا ہے، نئی قیمتوں کا اطلاق یکم اکتوبر 2024 (آج رات 12 بجے) سے ہوگا۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll