پاکستان
مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ حقیقت کو دیکھنا نہیں چاہتی، جسٹس اطہر من اللہ
الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، عدالت
سپریم کورٹ میں مخصوصی نشستوں سے معتلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے۔ جبری گمشدگیاں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سب کو پتا ہے کون کروا رہا ہے۔ سپریم کورٹ حقیقت کو دیکھا نہیں چاہتی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دریافت کیا کہ عدالت نے کچھ سوالات پوچھے، ابھی دلائل دوں یا جواب الجواب میں؟
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چھوٹے دلائل ہیں تو ابھی دے دیں، وکیل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں چیئرمین حامد رضا کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے، سنی اتحاد کونسل کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزادامیدوار انتخابات لڑے، جمعیت علمائے اسلام (ف) میں بھی اقلیتوں کو ممبر شپ نہیں دی جاتی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ہوا میں بات کی، ایسے بیان نہیں دے سکتے، آپ دستاویزات دیں، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کردےگا۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کیے ہوتے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔
وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی عدالت میں پیش کر دیے، چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دیں۔
مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیاگیا، کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی، 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی، الیکشن کمیشن کنفرم کرےگا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔
جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے حامد رضا نے سنی اتحاد کی جانب سے کاغذات نامزدگی نہیں جمع کروائی؟ اس پر سنی اتحاد کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیا گیا، سنی اتحاد کا نشان گھوڑا ہے، جسٹس منیب اختر نے مزید استفسار کیا کہ حامد رضا کو گھوڑے کا نشان کیوں نہیں ملا؟ وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے زبردستی ٹاور کا نشان حامد رضا کو دیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ دستاویزات کیوں جمع نہیں کروا رہے؟ ہم سوال ہی نہیں پوچھتے آپ سے پھر، ایسے نہیں چلےگا۔
بعد ازاں جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل نے بتایا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے، سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا تو اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت معطل ہوگئی، انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے والے ہی بعد میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔
بعد ازاں وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حیران کن بات ہے کہ سلمان اکرم راجا اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائی کورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال آرٹیکل 51 کی تشریح کا ہے، الیکشن ایکٹ سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفاف طریقہ کار سے نشستوں کے لیے لسٹ دینی ہوتی، سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع نہیں کرائی گئی، جمع کروائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کردے گا۔
اس پر وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیا۔
وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی، جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں، آزادامیدوار تین دنوں کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوں تو مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وابستگی کے لیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ فی الوقت صاحبزادہ حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا؟ الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔
مخدوم علی خان نے ریمارکس دیے کہ اپیلوں میں یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔
وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ متناسب نمائندگی کا اصول جنرل سیٹوں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) سمیت دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی گئیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے الگ اصول اپنایا گیا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان آزاد ہوکر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، پی ٹی آئی کے دو ارکان نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ ہمیں آزاد ڈکلیئر کیا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں، آج آئین کی پاسداری نہیں ہو رہی، ہم نے بطورسپریم کورٹ سرریت میں دبا لیے ہیں، لاپتا افراد کے کیسز ہیں، بنیادی حقوق کی پامالیاں ہیں، یہ سب سیاسی مقدمات نہیں انسانی حقوق کا معاملہ ہے، ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا، میری نظرمیں آج بھی سب سے اہم درخواست اس عدالت میں 8 فروری الیکشن میں دھاندلی کی ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں؟ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار ظاہر کردیا؟ اہم سوال ہی یہ ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کسی امیدوار کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ نوٹیفیکیشن کے تین روز بعد اگر وہ کوئی اور جماعت میں شامل ہوجائے۔
جسٹس جمال مدوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کہہ سکتے کہ امیدوار آزاد ہیں یا کسی پارٹی سے ہیں، الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے، جسٹس منیب اختر نے بتایا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، عدالت کے سامنے کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں،جو کیس ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے برے بھی، جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا، دنیا کو کیا معلوم، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو ریکارڈ میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔
پاکستان
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف ایک اور درخواست دائر
سپریم کورٹ نے آئینی درخواست کو ڈائری نمبر بھی الاٹ کردیا
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان ایک اور درخواست میں دائر کی گئی ہے۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بچھر کی جانب سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔ سپریم کورٹ نے آئینی درخواست کو ڈائری نمبر بھی الاٹ کردیا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کا اختیار پارلیمان کے پاس بھی نہیں۔ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ بنیادی حقوق کو ختم یا کم نہیں کیا جا سکتا، اس لیے عدلیہ کی آزادی سے متصادم ترمیم کالعدم قرار دی جائے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تشکیل نو پانے والے جوڈیشل کمیشن کو اجلاس منعقد کرنے سے روکا جائے۔ درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو فریق بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ صدر مملکت اور وزیراعظم کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
قبل ازیں 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کے لیے 2 سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا، دونوں سینئر ججز نے اسی ہفتے چھبیسویں ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ کر دیا۔
واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے حال ہی میں آئین میں 26ویں ترمیم کرتے ہوئے آئینی معاملات سننے کے لیے آئینی بینچ تشکیل دینے کی منظوری دی ہے جبکہ ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی تبدیل کیا گیا ہے۔
تفریح
ماہرہ خان نے ہمایوں سعید کے ساتھ اپنی آنے والی فلم کے بارے میں کیا کہا؟
ماہرہ خان نے لندن میں ہونے والی ایک تقریب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہمایوں سعید کے ساتھ اپنی فلم کی کچھ تفصیلات بھی بتائیں
سپر اسٹار ماہرہ خان نے اداکار ہمایوں سعید کے ساتھ اپنی آنے والی فلم سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کردیا ۔
تفصیلات کے مطابق ماہرہ خان ان دنوں برطانوی دارالحکومت لندن میں موجود ہیں، جہاں ان کی اور ہمایوں سعید کی آنے والی فلم کی شوٹنگ بھی جاری ہے۔
ماہرہ خان نے لندن میں ہونے والی ایک تقریب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہمایوں سعید کے ساتھ اپنی فلم کی کچھ تفصیلات بھی بتائیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اور ہمایوں سعید آنے والی فلم ’لو گرو‘ (Love Guru) کی شوٹنگ میں مصروف ہیں اور اس کی ہدایات ندیم بیگ دے رہے ہیں ، انہوں نے فلم کی کہانی سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی، تاہم نام سے عندیہ ملتا ہے کہ اس کی کہانی رومانوی کامیڈی ہوگی۔
ماہرہ خان نے یہ بھی بتایا کہ ان کی فلم ’لو گرو‘ کو عید الفطر پر ریلیز کیے جانے کا امکان ہے اور گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اس کی شوٹنگ لندن میں جاری ہے۔
ان سے قبل ہمایوں سعید بتا چکے ہیں کہ وہ ماہرہ خان کے ساتھ فلم میں دکھائی دیں گے، انہوں نے ستمبر 2023 میں بتایا تھا کہ اداکارہ کی شادی کی وجہ سے فلم کی شوٹنگ تاخیر سے شروع کی جائے گی۔
View this post on Instagram
’لو گرو‘ سے قبل دونوں 2015 کی رومانوی فلم ’بن روئے‘ میں ایک ساتھ کام کر چکے ہیں۔
مذکورہ فلم کے ذریعے ہمایوں سعید اور ماہرہ خان ایک دہائی بعد ایک ساتھ کام کرتے دکھائی دیں گے۔
’بن روئے‘ میں دونوں کی جوڑی کو سراہا گیا تھا، دونوں اداکاروں کی مذکورہ فلم کے علاوہ بھی دیگر فلمیں اور ڈرامے شوٹنگ کے مراحل میں ہیں ۔
پاکستان
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس، 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل
آئینی بینچ کے سربراہ کیلئے جسٹس امین الدین کا نام فائنل کر لیا گیا
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت جوڈیشل کمیشن کا آج پہلا اجلاس ہوا ہے، جس میں 26 ویں ترمیم کی روشنی میں آئینی بینچوں میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا اور 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔
جوڈیشل کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس امین الدین نے شرکت کی۔اجلاس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان، وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ، نمائندہ پاکستان بار کونسل اختر حسین بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ (ن) کے شیخ آفتاب احمد، پی ٹی آئی کے عمر ایوب اور شبلی فراز بھی شرکت کریں گے جبکہ اجلاس میں خاتون ممبر روشن خورشید بھی شریک تھے۔
ایجنڈے کے مطابق اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے سیکرٹریٹ کے قیام پر بات ہوئی جبکہ سپریم کورٹ میں آئینی بینچوں کی تشکیل کے لیے ججز کی نامزدگی پر بھی غور کیا گیا۔
7 رکنی آئینی بینچ تشکیل کا فیصلہ سات پانچ کے تناسب سے ہوا ہے۔ آئینی بینچ سربراہ جسٹس امین الدین ہوں گے، جسٹس امین الدین اور جسٹس عائشہ ملک پنجاب سے آئینی بینچ میں شامل ہوں گے۔
اس کے علاوہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان بلوچستان کے آئینی بینچ کا حصہ ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی سندھ سے آئینی بینچ کا حصہ ہیں۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی خبیرپختونخوا بینچ میں شامل ہیں۔
آئینی بینچز کی تشکیل کے بعد آئینی بینچ کا سب سے سینئر جج جوڈیشل کمیشن کا رکن بن جائے گا، اگر آئینی بینچ کا سینئر ترین جج پہلے سے کمیشن کا ممبر ہوا تو اس کے بعد کا سینئر جج رکن بن جائے گا، یوں 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جوڈیشل کمیشن 13 ارکان پر مشتمل ہو جائے گا۔
-
پاکستان 2 گھنٹے پہلے
جوڈیشل کمیشن اجلاس: جسٹس امین الدین خان آئینی بینچز کے سربراہ مقرر
-
پاکستان ایک دن پہلے
پاک بحریہ کی جانب سے بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ
-
تجارت 5 گھنٹے پہلے
مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں معمولی کمی
-
پاکستان ایک دن پہلے
میرا سامان گاڑی میں ہے، جب کہیں گے جیل جانے کو تیار ہوں، بشریٰ بی بی کمرہ عدالت میں آبدیدہ
-
پاکستان ایک دن پہلے
جماعت اسلامی نے آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی
-
تجارت ایک دن پہلے
عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی فی بیرل قیمت میں کمی ، پاکستان میں بھی قیمتوں میں کمی متوقع
-
تجارت ایک دن پہلے
سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ہو گیا
-
پاکستان 2 دن پہلے
پی آئی اے کی تباہی کی ذمہ دار گذشتہ حکومت ہے ، نواز شریف