Advertisement
علاقائی

پاکستان میں تنگ پٹڑی کی تاریخ ،ملک کے طول و عرض میں بچھائے جانے والےریل ٹریکس کی کہانی

ضلع جہلم میں واقع چلیسہ پاکستان کا ایک خوبصورت جنکشن ہے جو اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ رقبے میں ملک کا سب سے چھوٹا جنکشن ہے،عظیم شاہ بخاری

GNN Web Desk
شائع شدہ 13 hours ago پر May 3rd 2025, 2:21 pm
ویب ڈیسک کے ذریعے
پاکستان میں تنگ پٹڑی کی تاریخ ،ملک کے طول و عرض میں بچھائے جانے والےریل ٹریکس کی کہانی

دوسری قسط

2) ٹرانس انڈس ریلوے لائن (چھوٹی ریل):

''ماڑی انڈس ریلوے'' کے نام سے مشہور یہ ٹریک اس خطے کا اولین نیرو گیج (دو فٹ چھ انچ) ٹریک تھا جسے 1913 میں دریائے سندھ کے پار اہم ترین اور حساس عسکری علاقوں تک رسائی کی غرض سے بچھایا گیا تھا۔ اسے ابتدائی طور پہ داؤد خیل (ضلع میانوالی) سے لکی مروت (اس وقت ضلع بنوں)، 92 کلومیٹر تک بچھایا گیا تھا۔  


چھوٹی ریل دریائے سندھ کے شرقی کنارے پر موجود ماڑی انڈس کے فوجی ڈپو سے شروع ہوتی اور دریا پار کر کے کالا باغ اور عیسیٰ خیل سے ہوتے ہوئے لکی مروت تک جا پہنچتی۔ اس کی افادیت کو بھانپتے ہوئے گورے نے جلد ہی اسے بنوں اور ٹانک کی چھاؤنیوں تک پہنچا دیا۔


ٹانک اور بنوں سے صرف فوجی لائنوں کو ہی وزیرستان کے قلعوں میں سامان لے جانے کی اجازت تھی۔ ان قلعوں کے دروازے کھلتے، پوری ٹرین کو لپیٹ میں لیتے اور پھر بند ہو جاتے۔
اس ٹریک پہ چلنے والی ٹرین کو چار بوگیاں لگائی جاتی تھیں اور اس کی رفتار انتہائی سست ہوتی تھی۔ چونکہ اس وقت کسی ڈبے میں بھی بیت الخلا نہیں بنایا گیا تھا سو کچھ دیدہ دلیر مسافر ٹرین سے اترتے، پٹڑی کے اطراف میں ہلکے ہو کر دوبارہ ٹرین میں سوار ہو جاتے تھے۔ اسی طرح مسافر اسٹیشنوں سے پانی اور کھانے پینے کا دیگر سامان بھی لے کر واپس ریل میں آ بیٹھتے تھے۔ 
لکی مروت کا قلعہ نما ریلوے اسٹیشن قدرے بہتر حالت میں آج بھی موجود ہے جسے پاکستان ریلوے چاہے تو ایک چھوٹے سے تاریخی عجائب گھر میں بدل سکتی ہے۔ لیکن ریلوے ایسا کیوں چاہے گی۔۔۔؟ یہ گھاٹے کا سودا جو ہے۔  


 پختونخواہ کی طرف یہ چھوٹی ریل بنوں، اباخیل، نورنگ سرائے، لکی مروت جنکشن، شہباز خیل ہالٹ، پیزو اور ٹانک ریلوے اسٹیشن سے گزرتی تھی جسے 1995 میں بند کر دیا گیا اور اب اس کا ٹریک ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا

3) چلیسہ – ڈنڈوت لائٹ ریلوے:
 دس کلومیٹر لمبی ''ڈنڈوٹ لائٹ ریلوے''، 610 ملی میٹر (دو فیٹ) کی تنگ گیج کی پٹڑی پر مشتمل تھی جو 1905 میں ڈنڈوٹ ریلوے اسٹیشن سے چلیسا جنکشن ریلوے اسٹیشن تک چالو کی گئی۔ کچھ عرصے بعد اسے براڈ گیج میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اسے خاص کھیوڑہ کی کانوں سے نمک کی ترسیل کے لیئے بچھایا گیا تھا۔ محض دس کلومیٹر لمبا یہ ٹریک 1996 میں بند کر دیا گیا تھا لیکن پھر مرمت کے بعد چلیسہ سے کھیوڑہ تک صرف مال گاڑیوں کے لیئے کھول دیا گیا۔ 
 یہ ٹریک چلیسہ جنکشن سے ہوتا ہوا سوڈیاں گجر، کھیوڑہ اور ڈنڈوٹ تک جاتا ہے۔ 
ضلع جہلم میں واقع چلیسہ پاکستان کا ایک خوبصورت جنکشن ہے جو اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ رقبے میں ملک کا سب سے چھوٹا جنکشن ہے۔ یہاں سے اب کوئی مسافر ٹرین میں سوار نہیں ہوتا کیونکہ یہاں سے گزرنے والی پنڈ دادن خان شٹل ٹرین بھی اب یہاں نہیں رکتی۔  
اسی لائن کی بدولت مشہور معدنیاتی ذخائر کے حامل شہر جیسے ڈنڈوٹ، کھیوڑہ اور غریبوال بھی ریلوے کے نظام سے منسلک ہوئے جس سے نمک، جپسم اور سیمنٹ کی ترسیل آسان ہو گئی۔ اب یہاں صرف کوئلے سے بھری ٹرین چلتی ہے جو آئی سی آئی فیکٹری تک جاتی ہے۔

4) ماڑی انڈس - لکی مروت برانچ لائن:
92 کلومیٹر لمبی یہ ٹرانس انڈس ریلوے لائن ویسے تو ضلع میانوالی کے داؤد خیل جنکشن سے پختونخواہ کے ضلع لکی مروت تک جاتی تھی لیکن چونکہ داؤد خیل جنکشن سے ماڑی انڈس تک کا ٹریک براڈ گیج ہے سو ہم آگے کے ٹریک کا ذکر کریں گے۔ ماڑی سے چھوٹی ریل کالا باغ کا پل پار کر کے کالاباغ اسٹیشن پہنچتی تھی۔ 
اِس پُل کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جب خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع لکی مروت،  ٹانک اور بنوں کو ریلوے لائن کے ذریعے پنجاب کے علاقوں سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو کالاباغ کے مقام پر ایک پُل کی ضرورت محسوس کی گئی جس پر سے ریل گزاری جا سکے۔ 
نارتھ ویسٹ ریلوے کے افسر ڈبلیو-ڈی کروکشینک کی 1929 میں مرتب شدہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ  اس پُل کے لیئے 1888 سے سروے شروع کر دیئے گئے۔ جبکہ 1919 سے 1924 تک تمام انتظامات مکمل کر لیئے گئے۔

آخر کار 1927 میں اس منصوبے کی منظوری دے کر کام شروع کر دیا گیا۔ یہ پل صرف ریل کے گزرنے کے لیئے ڈیزائن کیا گیا تھا جس پر پیدل چلنے والوں کے لیئے کوئی انتظام نہ تھا۔ اِس نے سندھ کے مشرق میں چوڑے گیج کی لائن کومغرب میں واقع 2 فٹ 6 انچ کی تنگ لائن سے منسلک کرنا تھا۔ پل کا بنیادی مقصد ریل کو لاہور سے آگے بنوں اور کوہاٹ سے لے کر وزیرستان تک پہنچانا تھا تاکہ برطانوی افواج کو رسد مہیا کی جا سکے۔ 
 مگر ہماری بدقسمتی کہ 1990 میں ریل کے نظام پر اسی پل کے مقام پر ''پُل اسٹاپ'' لگا دیا گیا یعنی ماڑی سٹیشن جو عین اس پل کے مشرقی حصے پر واقع ہے وہاں تک ریل کا سفر محدود ہوگیا۔ اس پل کو ٹھیک اس جگہ  بنایا گیا ہے جہاں سے دریائے سندھ پہاڑیوں سے نکل کر میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ 1929 کے سیلاب کے بعد پل کا ڈیزائن بدلا گیا اور اسے ماڑی انڈس کی طرف سے خشکی پر اور لمبا کر دیا گیا۔ 
 ماڑی اور کالاباغ کو ملانے والا یہ پل ایوب خان کے دور تک پختونخواہ اور پنجاب کی سرحد پر تھا مگر بعد میں بنوں کی ایک تحصیل عیسیٰ خیل کو میانوالی کے ساتھ ملا دیا گیا اور یہ صوبہ پنجاب کی جھولی میں آ گیا۔ 
جو ٹریک ماڑی سے لکی مروت تک بچھایا گیا تھا اس کی چوڑاٸی صرف اڑھاٸی فٹ تھی اور اس پل کی تعمیر بھی ٹریک کے مطابق ہی کی گٸ تھی۔  1995 تک یہاں سے مسافر ٹرین لکی مروت اور بنوں تک جاتی رہی جسے بعد ازاں مستقل طور پر بند کر دیا گیا۔ 
عیسیٰ خیل سے آگے درہ تنگ کے مقام پر دریائے کرم پر ایک خوبصورت پل بنایا گیا تھا جس سے کچھ آگے پختونخواہ کا بارڈر شروع ہو جاتا ہے۔ 2018 میں جب میں یہاں گیا تو یہ پُل پہاڑوں کے بیچ قدرے بہتر حالت میں موجود تھا اب نجانے اس کا کیا حشر ہوا ہو گا۔ 
داؤد خیل سے ماڑی انڈس تک کا دس کلومیٹر ٹریک اب بھی فعال ہے جبکہ اس سے آگے کا تمام نیرو گیج ٹریک اکھاڑ دیا گیا ہے۔ اس برانچ لائن پر داؤد خیل جنکشن، ماڑی انڈس، کالاباغ، کمر مشانی، تراگ، عیسیٰ خیل، ارسالا خان اور لکی مروت جنکشن کے اسٹیشن آتے تھے۔ 2019 میں جب کالاباغ کا اسٹیشن ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں وہاں پہنچا تو دل درد سے پھٹ گیا۔ ایک بند پڑی عمارت جس کا رنگ اڑ چکا تھا لیکن اس کے ماتھے پر ہلکے رنگ سے لکھا کالاباغ اب بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ اس اسٹیشن کا علاقہ بچوں کے کھیلنے کا میدان بن چکا ہے لیکن تنگ گیج کی پٹڑی نے کہیں کہیں اپنا وجود برقرار رکھا ہے۔ 

5) ژوب ویلی ریلوے:
یوں تو بلوچستان کی ہر لائن اور اسٹیشن دلچسپ اور عجیب ہے لیکن ژوب وادی ریلوے لائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر یہ آج بھی چل رہی ہوتی تو بلاشبہ کسی عجوبے سے کم نہ ہوتی۔ 
762 ملی میٹر (یعنی 2 فٹ 6 انچ) چوڑائی کے ساتھ یہ پاکستان کا طویل ترین نیرو گیج نظام تھا۔ موجودہ شمالی بلوچستان کے اضلاع ژوب، قلعہ عبداللہ اور پشین کو کوئٹہ سے ملانے والی ژوب ویلی ریلوے 298 کلومیٹر تک پھیلی تھی جس پہ بوستان، خانائی، خانوزئی، زرغون، چورمیاں، کان مہتر زئی، مسلم باغ، قلعہ عبداللہ، آلوزئی، شمزئی، مسافر پور اور ژوب کے اسٹیشن واقع تھے۔ یہ اس خطے کا سب سے طویل نیرو گیج ٹریک تھا جو جسے 1985 میں بند کر دیا۔ 2008 تک اسے مکمل طور پہ اکھاڑ دیا گیا تھا البتہ کہیں کہیں کچھ متروک شدہ اسٹیشن دیکھے جا سکتے ہیں۔ 


یہ پاکستان کے ان چند ریلوے ٹریکس میں سے تھا جہاں ندی نالے، وادیاں ، پہاڑ اور برف باری دیکھی جا سکتی تھی۔ 

اس ٹریک کے بارے میں مصنف رضا علی عابدی اپنی کتاب ریل کہانی میں لکھتے ہیں کہ ''کوئٹہ کے شمال میں بوستان سے ژوب تک تقریبا" 296 کلومیٹر لمبی یہ لائن صحیح سلامت ہوتی تو ریلوے کے عجائبات عالم میں شمار ہوتی۔

دنیا میں ڈھائی فٹ چوڑی یہ سب سے لمبی لائن تھی۔ اس کے راستے میں کان مہتر زئی کا سٹیشن آتا تھا جو سمندر کی سطح سے 7221 فٹ اونچائی پر ہے اور یہ نارتھ ویسٹرن ریلوے کا سب سے اونچا اسٹیشن تھا۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے 499 اَپ سہ پہر کو بوستان سے چلتی تھی اور رات بھر پہاڑوں، دریاؤں اور وادیوں کا سفر طے کر کے اگلی دوپہر سے ذرا پہلے فورٹ سنڈیمن پہنچتی۔  پھر وہاں سے 500 ڈاؤن شام پانچ بجے کے تھوڑی دیر بعد روانہ ہوتی اور اگلی دوپہر بوستان پہنچتی۔ کبھی کبھی برفانی طوفان آ جاتے تو گاڑی راستے میں پھنس جاتی اور ٹرین کا سارا پانی جم جاتا۔

جاڑوں میں ڈبے گرم رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا صرف ریلوے کے افسر اپنے ڈبوں میں تیل کے چولہے جلاتے تھے۔ 1970 میں اس لائن پر اتنی زیادہ برف گری کہ اس کی مثال نہیں ملتی اس وقت بوستان اور ژوب کے درمیان ہفتے میں صرف ایک مسافر گاڑی چلا کرتی تھی۔
برف باری کے دوران ایک ٹرین چلی جا رہی تھی جو کان مہتر زئی کے قریب برف میں دھنس گئی۔  ڈرائیور اور فائرمین نے لاکھ چاہا کہ گاڑی کو نکال لے جائیں مگر بے سود۔ اخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے اور مدد کا انتظار کرنے لگے۔ اب تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسٹیشن ماسٹروں نے تار بھیجنے کے لیے اپنے قدیم آلات پر کس طرح جھنجھلا کر اپنے سر پٹخے ہوں گے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ امداد کا پیغام کوئٹہ یا چمن پہنچ سکا یا نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ امداد نہ پہنچ سکی۔
 برف میں دسی ہوئی ٹرین وہیں کھڑی رہی۔ مسافر نکل کر کسی طرح سڑک تک پہنچے اور جیسے بھی بنا اِدھر اُدھر چلے گئے۔ سنا ہے کہ بوستان سے ایک امدادی انجن چلا تھا وہ بھی کہیں برف میں دھنس کر رہ گیا۔ کہتے ہیں کہ آسمان کو چھونے والی یہ ریلوے لائن کئی روز بعد کھلی تھی۔


 پھر یہ ہوا کہ ماہ مئی 1985 میں ہفتہ وار گاڑی ژوب سے بوستان پہنچی۔ اسے دھویا گیا اور سنوارا گیا کیونکہ اگلے ہفتے اسے واپس جانا تھا مگر وہ اگلا ہفتہ پھر کبھی نہیں آیا۔ بظاہر چھوٹی سی مگر انجینئری کی یہ شاہکار ریلوے لائن اجڑ کر رہ گئی۔ یا یوں کہیئے کہ اسے اجڑنے کے لیے قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا کہتے ہیں کہ آج کے جدید زمانے میں کوئی مصر کے اہرام دوبارہ بنانا چاہے، نہیں بنا سکتا۔ بالکل وہی حال اس بے یار و مددگار پڑی ہوئی ریلوے لائن کا ہے۔ اب شاید کوئی اس میں نئی روح پھونک نہ سکے۔ نہ ہوتی تو رنج بھی نہ ہوتا۔ تھی، اور اسے مر جانے دیا گیا۔ کتنا بڑا خسارہ ہوا، کتنا بڑا خسارہ۔


 یہ لائن ہندو باغ سے معدنیات لانے کے لیے ڈالی گئی تھی بعد میں کسی کو اس سے دلچسپی نہیں رہی غالبا اسے ٹھیک ٹھاک رکھنے پر بھاری خرچا آنے لگا، فالتو پرزے ملنے بند ہو گئے، علاقے کے لوگوں نے ٹکٹ خریدنے کی زحمت ترک کر دی لہذا اس پوری لائن کو زنگ کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ اب اس کے پل گر چکے ہیں پٹریوں کے نیچے سے مٹی بہہ گئی ہے اور خود پٹڑیاں نشیبوں میں جھول رہی ہیں (اب مکمل اکھاڑ لی گئی ہیں)۔''

پہلی قسط پڑھنے کے لیے نیچے دئیے گئے لنک کر کلک کریں۔

https://gnnhd.tv/urdu/news/45565

جاری ہے۔۔۔۔

تحریر و تحقیق 

ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

Advertisement
پی ایس ایل10،اسلام آباد یونائیٹڈ کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکیخلاف بیٹنگ جاری 

پی ایس ایل10،اسلام آباد یونائیٹڈ کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکیخلاف بیٹنگ جاری 

  • 7 hours ago
وزیر اعظم شہبازشریف سے ترک سفیر کی ملاقات،پاک بھارت کشیدگی پر تبادلہ خیال

وزیر اعظم شہبازشریف سے ترک سفیر کی ملاقات،پاک بھارت کشیدگی پر تبادلہ خیال

  • 12 hours ago
بھارت کا محاذ آرائی کے لئے نیا جھوٹا بیانیہ اور من گھڑت پروپیگنڈا بے نقاب

بھارت کا محاذ آرائی کے لئے نیا جھوٹا بیانیہ اور من گھڑت پروپیگنڈا بے نقاب

  • 6 hours ago
یونیسکو کے تعاون سے   صحافت کے عالمی دن پر صحافیوں کیلئے فیلوشپ کا اعلان

یونیسکو کے تعاون سے صحافت کے عالمی دن پر صحافیوں کیلئے فیلوشپ کا اعلان

  • 8 hours ago
 فلم انڈسٹری کے نامور مصنف محمد کمال پاشا طویل علالت کے انتقال کرگئے

 فلم انڈسٹری کے نامور مصنف محمد کمال پاشا طویل علالت کے انتقال کرگئے

  • 12 hours ago
سوئٹزرلینڈ  کا بھی پہلگام واقعے کی تحقیقات میں تعاون کی خواہش کا اظہار

سوئٹزرلینڈ کا بھی پہلگام واقعے کی تحقیقات میں تعاون کی خواہش کا اظہار

  • 9 hours ago
عالمی و مقامی مارکیٹوں میں سونا مسلسل دوسرے روز سستا،فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟

عالمی و مقامی مارکیٹوں میں سونا مسلسل دوسرے روز سستا،فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟

  • 10 hours ago
ڈی پی او جہلم کی زیر صدارت ڈی ایس پی پیزکی میٹنگ ، اردرل روم کا بھی انعقاد

ڈی پی او جہلم کی زیر صدارت ڈی ایس پی پیزکی میٹنگ ، اردرل روم کا بھی انعقاد

  • 8 hours ago
پاک بھارت کشیدگی کے باعث وفاقی حکومت کا قومی قیادت کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ

پاک بھارت کشیدگی کے باعث وفاقی حکومت کا قومی قیادت کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ

  • 6 hours ago
بھارت نے پاکستانی بحری جہازوں کے اپنی سمندری حدود سے گزرنے پر پابندی عائد کردی

بھارت نے پاکستانی بحری جہازوں کے اپنی سمندری حدود سے گزرنے پر پابندی عائد کردی

  • 10 hours ago
پاکستان نے 65 سالوں میں اپنا دوسرا گرم ترین اپریل رواں سال گزارا

پاکستان نے 65 سالوں میں اپنا دوسرا گرم ترین اپریل رواں سال گزارا

  • 9 hours ago
وزیر خزانہ  کا  اسٹینڈرڈ اینڈ پُورز گلوبل ریٹنگ ایجنسی سے پاکستان کی ریٹنگز کو بہتر بنانے کا مطالبہ

وزیر خزانہ کا اسٹینڈرڈ اینڈ پُورز گلوبل ریٹنگ ایجنسی سے پاکستان کی ریٹنگز کو بہتر بنانے کا مطالبہ

  • 8 hours ago
Advertisement