Advertisement
علاقائی

کیمبل پور سے اٹک تک، ایک سفر کی دلچسپ داستان۔۔۔

 1885 میں بنایا جانے والا اٹک خورد کا اسٹیشن، برطانوی طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے جو اسٹیشن سے زیادہ کسی برطانوی ڈیوک کا محل یا مہمان خانہ لگتا ہے۔

GNN Web Desk
شائع شدہ 9 hours ago پر Jun 29th 2025, 5:56 pm
ویب ڈیسک کے ذریعے
کیمبل پور سے  اٹک تک، ایک سفر کی دلچسپ داستان۔۔۔

ضلع اٹک کے ایک سفر کی دلچسپ داستان۔۔۔۔۔        
دوسرا حصہ

شمشان گھاٹ:
خیبر پختونخواہ میں داخل ہوتے ہی دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ایک پرانی عمارت نظر آئے گی۔ یہ پرانا شمشان گھاٹ ہے جہاں ہندو اپنے مردے جلایا کرتے تھے۔ اب عرصے سے یہ ویران پڑا ہے۔  

خیرآباد ریلوے اسٹیشن:
پختونخواہ کے ضلع نوشہرہ میں داخل ہوئے تو خیر آباد کُنڈ شہر نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ چھوٹا سا شہر تعمیراتی پتھر اور گرینائیٹ کی بہت بڑی منڈی ہے۔ 
تاریخ بتاتی ہے کہ جب مغل شہنشاہ اکبر خیر خیریت سے تند و تیز دریائے سندھ پار کر کے اس جگہ اترا تو اس کے منہ سے ''خیر آباد'' کے الفاظ نکلے۔ تب سے اس جگہ کا نام خیر آباد رکھ دیا گیا کہ بادشاہ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بھی تو قیمتی ہوتے تھے۔ 
ہماری پہلی منزل اس کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ خیر آباد کُنڈ کا ریلوے اسٹیشن قلعہ بند ہے اس لیئے اس کا کوئی مرکزی دروازہ نہیں۔ سو گھومتے گھماتے ہم نے راستہ تلاش کیا اور اس کے پلیٹ فارم کے ذریعے اندر داخل ہوئے۔ 


تصاویر اتار رہے تھے کہ اسٹیشن ماسٹر صاحب آئے اور سلام دعا کے بعد اسٹیشن کے بارے بتانے لگے۔ اٹک خورد اور جہانگیرہ روڈ اسٹیشن کے بیچ واقع خیر آباد کنڈ کا ریلوے اسٹیشن برطانوی نو آبادیاتی دور میں بنایا گیا تھا جہاں اب چند مال گاڑٰوں کے علاوہ کوئی مسافر ٹرین نہیں رکتی۔ یہ اسٹیشن چونکہ دریا کنارے حساس جگہ واقع ہے سو اسے ایک قلعہ بند ریلوے اسٹیشن کے طور پہ تعمیر کیا گیا تھا۔


اس اسٹیشن کے قریب کچھ خوبصورت سرنگیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہم نے یہاں رحمان بابا ایکسپریس ڈاؤن، کی کراسنگ کو فلمایا اور صوابی کے اسٹیشن ماسٹر صاحب سے اجازت لے کر اگلی منزل کی جانب چل دیئے۔  

کابُل سندھ سنگم :
دریائے سندھ پار کریں تو خیرآباد کا شہر آپ کا استقبال کرتا ہے جہاں کچھ اندر کی طرف افغانستان کے کہساروں اور پختونخواہ کے میدانوں سے بہتا ہوا دریائے کابل آ کر کیلاش پربت کے دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔ یہ جگہ سڑک کے بالکل کنارے واقع ہے جہاں کابل کا گدلا اور سندھ کا شفاف پانی مل کے بھی نا ملتے نظر آتا ہے یعنی یہاں دریا تو ملتے ہیں لیکن کچھ راستے تک ان کا پانی نہیں ملتا۔
اسی کے قریب وہ جگہ ہے جہاں سے دریائے سندھ میں سے سونا ملنے کی خبریں میڈیا پہ چلتی نظر آئی تھیں جو درحقیقت درست ہے کہ وہاں کئی کرینیں بیک وقت کام کرتی نظر آئیں۔ خیر آباد جائیں تو کابل کنارے بیٹھ کر کابلی پلاؤ اور چپلی کباب کھانا مت بھولیئے گا۔

اٹک خورد پُل:
پاکستان ریلوے کا یہ خوبصورت پل دریائے سندھ پر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے بیچ واقع ہے جہاں ٹرین ایک صوبے سے دوسرے میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے ایک کنارے پر خیر آباد ضلع نوشہرہ کی پہاڑیاں جبکہ دوسرے پر اٹک خورد کا خوبصورت اور خوابناک سا ریلوے اسٹیشن واقع ہے۔


جیسے ہی انگریز سرکار نے موجودہ پنجاب و خیبرپختونخواہ  کی سرحد کے آس پاس کے علاقوں کو اپنے ساتھ ملایا، تواٹک میں دریائے سندھ کو پار کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔ اٹک کے مقام پر کراسنگ کو فوجی حکمت عملی کی وجہ سے شروع سے ہی بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔ 1853 میں، کرنل کروملین نے دو ڈیزائن تجویز کیے، دونوں میں ہی دریائے سندھ کو عبور کرنے کے لیے معلق پلوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ ڈیزائن منظور نہ ہو سکا لیکن برطانویوں نے سردیوں کے لیے کشتیوں کا ایک بہتر پل، گرمیوں کے لیے فیری بوٹس اور ڈاک کے لیے ہلکی کشتیاں فراہم کر دیں۔
1859 میں کرنل رابرٹسن کی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے سرکار انگلشیہ نے اس جگہ ایک سرنگ بنانے کی منظوری دی لیکن پانی کی لیکیج اور مشینیی حادثوں سمیت دیگر مسائل بڑھتے چلے گئے۔
اب تک برطانوی حکومت 59,300 روپے خرچ کر چکی تھی جو اصل تخمینہ سے کہیں زیادہ تھے۔ سرنگ کی تعمیر اس وقت تک روک دیی گئی جب تک کہ تمام مسائل کا سدباب نہ کر لیا جائے۔
جب دریائے سندھ کی تہہ میں بننے والی اس سرنگ پر کام روکا گیا تو بورنگ کے دونوں سروں کے درمیان صرف 258 فٹ کا فاصلہ بچ گیا تھا۔ یہ تاریخ کا ایک حیرت انگیز باب ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس منصوبے کے ترک کر دینے کے بعد اگلی دو دہائیوں تک یہاں کوئی کراسنگ نا بن سکی یہاں تک کہ دوسری افغان جنگ شروع ہوئی اور ریلوے لائن کو پشاور تک پہنچانے کا حکم نامہ آ گیا۔
اٹک پل کو اصل میں سر گلڈ فورڈ مولس ورتھ نے ڈیزائن کیا تھا جو سری لنکا ریلوے کے پہلے جنرل مینیجر بھی تھے، جسے اس وقت سیلون ریلوے کہا جاتا تھا۔ اس آہنی ڈھانچے کو مسٹر جانسن اور سر فرانس او کالگہن نے ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا۔  
  یہاں دریا کے بیچ میں ایک بہت بڑی چٹان کو مرکز کے گھاٹ کی بنیاد بنایا گیا جبکہ باقی تمام بنیادیں پانی سے اوپر تعمیر کی گئیں۔ یہ پل لوہے کے پانچ حصوں پرمشتمل تھا، تین 257 اور دو 312 فٹ لمبے۔ اس کے دونوں طرف قلعہ نما داخلی دروازے تعمیر کیئے گئے تھے۔ یہ دروازے پہلے رات ہوتے ہی بند کر دیئے جاتے تھے اور انہیں تالہ لگا دیا جاتا تھا لیکن ایوب خان کے دور سے یہ بند نہیں کیئے گئے۔  
اس پل کو مئی 1883 میں ٹریفک کے لیئے کھولا گیا تھا۔ اس کی دوبارہ مرمت 1925 سے 1929 کے دوران کی گئی تھی۔ پل کی تعمیرنو ایک مشکل کام تھا کہ اسے ٹرینوں کے گزرنے کے درمیانی وقفے میں بنایا جاتا تھا جو زیادہ سے زیادہ بلاتعطلْ تین گھنٹے اور عام طور پر صرف ایک گھنٹہ ہوتا تھا۔
 دوبارہ تعمیر شدہ پل 30 اگست 1929 کو کھولا گیا جس پر سے ایک ہی براڈ گیج لائن گزرتی ہے۔  

اٹک خورد ریلوے اسٹیشن:
پُل کے قلعہ نما دروازوں کے اس پار اٹک خورد کا ریلوے اسٹیشن ہمارا منتظر تھا۔
آپ سب اس بات سے واقف تو ہوں گے کہ پاکستان میں تقریباً تمام ریلوے لائنیں جو دریائے سندھ کے غربی جانب بچھائی گئی تھیں، ان کا مقصد خالصتاً فوجی اور دفاعی تھا۔  یہی وجہ ہے کہ دریائے سندھ کے مغرب میں تقریباً تمام سرنگوں اور پلوں پر بُرجوں کے ساتھ قلعہ بند دروازے دیکھے جا سکتے ہیں۔ 


مثال کے طور پر سکھر کا لینس ڈاؤن پل ، کھوجک ٹنل، درہ بولان کی تقریباً تمام سرنگیں، سبی تا ہرنائی روٹ پر تقریباً تمام پل اور اٹک پل۔ یہاں تک کہ لاہور ریلوے سٹیشن کو بھی ایک دفاعی اثاثہ کے طور پر محفوظ رکھنے کے لیئے بُرج بنائے گئے تھے۔
اٹک خورد ضلع اٹک کا ایک قصبہ ہے جو اٹک شہر سے الگ ہے (کئی لوگ اسے اٹک سمجھتے ہیں)۔ خورد ایک فارسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے چھوٹا، یعنی یہ اٹک خورد، چھوٹا اٹک ہے۔ اسی کا مترادف لفظ کلاں ہے جو بڑے علاقوں کے لیئے استعمال ہوتا ہے جیسے چکوال کا بُچل کلاں اور بُچل خورد۔ جب ایک جیسے نام کے دو علاقے قریب قریب واقع ہوں تو ان کی پہچان کورد اور کلاں سے کی جاتی تھی۔


 1885 میں بنایا جانے والا اٹک خورد کا اسٹیشن، برطانوی طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے جو اسٹیشن سے زیادہ کسی برطانوی ڈیوک کا محل یا مہمان خانہ لگتا ہے۔ یہ اسٹیشن، دریائے سندھ، اٹک پل اور قلعہ اٹک سے گھرا ہوا ہے اور پاکستان کے خوبصورت ٹرین اسٹیشنوں میں سے ایک ہے۔ یہ اسٹیشن میرا بھی پسندیدہ ہے کہ یہاں کا منظر کسی خوابیدہ جگہ جیسا لگتا ہے۔ ایک طرف پٹڑی کا خم ہے تو دوسری طرف پل، سامنے پہاڑیاں ہیں تو پیچھے دریا۔۔۔۔ اس جگہ تو ٹرینوں کا میلہ لگنا چاہیئے تھا لیکن سواریاں انتہائی کم ہونے کی وجہ سے یہاں کسی ٹرین کا سٹاپ نہیں ہے۔  
 
راول پنڈی اور پشاور کے بیچ چلنے والی تمام ٹرینیں یہاں سے گزرتی ہیں لیکن رکتی صرف ایک ہے، سفاری ٹرین جو راولپنڈی سے اٹک خورد کے لیئے 2024 سے دوبارہ چلائی گئی ہے۔ یہ سفاری ٹرین ہر اتوار راولپنڈٰی اسٹیشن سے صبح سوا آٹھ چلتی ہے اور گولڑہ شریف، حسن ابدال، اٹک، اٹک خورد سے ہوتے ہوئے شام پانچ بجے واپس پہنچتی ہے۔ اس سفر میں سیاحوں کو مختلف مقامات اور میوزیم دکھانے کے علاوہ چائے اور دوپہر کا کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے سیاح اس کی بکنگ موبائل ایپ سے کر سکتے ہیں۔


 
اٹک خورد کے اسٹیشن میں ایک حصے کو گولڑہ اسٹیشن کی طرز پر عجائب گھر کی شکل دی گئی ہے جہاں ریلوے انجنوں کے ماڈؒل، دفتری سامان، لیمپس اور دیگر آلات نمائش کے لیئے رکھے گئے ہیں۔ قریب ہی ماضی میں استعمال ہونے والی دو مسافر بوگیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
آس پاس پہاڑ، دریائے سندھ اور قلعہ نما برجیوں والا پُل اس سٹیشن کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔  
ہم یہاں شام تک رُکے اور رحمان بابا ایکسپریس کے گزرنے کے بعد اس اسٹیشن کو الوداع کہا اور آگے بڑھ گئے۔

کارتوس مانومنٹ:
اگلی منزل ہماری یہ کارتوس مانومنٹ تھا جسے ہم واپسی کے لیئے چھوڑ آئے تھے۔
پُل کی طرف جاتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے ایک چبوترے پر مجھے  ایک کارتوس بنا نظر آیا جسے ہم نے واپسی پہ جا کر دیکھا تو یہ پٹھان رجمنٹ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیئے بنائی گئی ایک یادگار تھی۔


کارتوس یادگار دریائے سندھ کے کنارے اٹک ریلوے پل اور اٹک قلعے کے بیچ میں واقع ہے۔ یہاں ایک چبوترے پر بڑا کارتوس بنایا گیا ہے جس کے چاروں طرف مختلف تختیاں لگی ہیں۔ یہ تختیاں اردو، انگریزی ہندی اور پشتو زبان میں ہیں جن پر یہ الفاظ کندہ ہیں؛ 

  یہ یادگار، صاحبان و سرداران و عہدیداران و سپاھیان
پلٹن نمبر 40 پٹھان
جو جنگ میں مارے گئے اور بالخصوص 
بہ اعزاز
ان اشخاص کے جنہوں نے جنگِ عظیم میں اپنی جانیں نثار کیں۔
یہ نشان ان کے رفیقوں نے جنگ ایپرس کی چوتھی سالگرہ کے دن  
بتاریخ 26 اپریل 1919ء نصب کیا

TO THE MEMORY
 OF ALL RANKS BRITISH AND INDIAN OF THE 
40 TH ΡΑΤΗANS 
WHO HAVE FALLEN IN ACTION AND PARTICULARLY
IN HONOUR OF 
THOSE WHO CAVE THEIR LIVES IN THE GREAT WAR OF 
1914-1948.
THIS MONUMENT WAS RAISED BY THEIR COMRADES 
ON THE FOURTH ANNIVERSARY OF 
YPRES DAY 26 APRIL 1919.

ان کے علاوہ یہاں نیچے بھی کچھ ھتختیاں نصب ہیں جب پر دو تلواروں و ڈھال کے نشان کے ساتھ 40 پٹھان اور ایک پر شہدائے سولہ پنجاب رجمنٹ کے نام، ان کے رینک، جاءے شہادت اور تاریخ کے ساتھ درج ہیں۔

 ایک تختی پر انگریزی میں لکھا ہے ؛
 
REDESIGNATED
16 TH BN(PATHAN)
THE PUNJAB REGIMENT
ON 14 MAY, 1956.

ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ؛
THIS TABLET WAS ADDED IN 1947 
IN MEMORY OF
ALL RANKS WHO GAVE THEIR LIVES OR WHO DIED IN CAPTIVITY IN THE SECOND WORLD WAR AND ALSO OF THE 5TH BN (PATHANS) 14TH PUNJAB REGIMENT 
WHICH WAS SURRENDERED WITH THE GARRISON OF SINGAPORE 
ON 15TH FEBRUARY 1942 AND WAS NOT SUBSEQUENTLY RE-RAISED

یہ سب تختیاں دیکھ لینے کے بعد ہم نے سامنے واقع سرنگ کا دورہ کیا جس کے ماتھے پر اس کا نام ''راجہ ہودی'' اور سنِ تعمیر 1883 جگمگا رہا تھا۔ اس خوبصورت بل کھاتی سرنگ سے گزر کے ٹریک خیر آباد اسٹیشن پہنچتی ہے۔ 
یہ ہمارے اس سفر کی آخری منزل تھی سو اس کے بعد ہم نے بائیک کو کک لگائی اور راولپنڈی کی جانب منہ کر کے دوڑ لگا دی۔

پہلی قسط پڑھنے کے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

https://gnnhd.tv/urdu/news/47231

ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری

نوٹ:یہ تحریر اور تحقیق کالم نگار کی ذاتی رائے ہے ادارے  کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Advertisement
 ایرانی آرمی چیف کافیلڈ مارشل عاصم منیر سے ٹیلی فونک رابطہ، جنگ میں پاکستانی حمایت پر اظہار تشکر

 ایرانی آرمی چیف کافیلڈ مارشل عاصم منیر سے ٹیلی فونک رابطہ، جنگ میں پاکستانی حمایت پر اظہار تشکر

  • 3 hours ago
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا ترک ہم منصب سے رابطہ،علاقائی پیشرفت پر تبادلہ خیال

وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا ترک ہم منصب سے رابطہ،علاقائی پیشرفت پر تبادلہ خیال

  • 8 hours ago
این ڈی ایم نے آج سے 5 جولائی تک ملک بھر مزید بارشوں اور سیلاب کا الرٹ جاری کردیا

این ڈی ایم نے آج سے 5 جولائی تک ملک بھر مزید بارشوں اور سیلاب کا الرٹ جاری کردیا

  • 7 hours ago
عوام کیلئے اچھی خبر، کراچی سمیت ملک بھر کیلئے بجلی سستی ہونے کا امکان

عوام کیلئے اچھی خبر، کراچی سمیت ملک بھر کیلئے بجلی سستی ہونے کا امکان

  • 6 hours ago
خیبرپختونخوا  سمیت ملک بھر  میں شدید بارشوں اور سیلاب سے 45 افرادجاں بحق ،متعدد زخمی

خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب سے 45 افرادجاں بحق ،متعدد زخمی

  • 6 hours ago
چین نے پاکستان کا 3ارب40کروڑ ڈالر کا قرض رول اوور کردیا،زرمبادلہ کی تعداد میں اضافہ

چین نے پاکستان کا 3ارب40کروڑ ڈالر کا قرض رول اوور کردیا،زرمبادلہ کی تعداد میں اضافہ

  • 9 hours ago
کوئٹہ: مسلح ملزمان کی گاڑی پر فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق

کوئٹہ: مسلح ملزمان کی گاڑی پر فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق

  • 5 hours ago
 کراچی: ہاکس بے  کے قریب سمندر میں نہاتے ہوئے 2 افراد ڈوب کر جاں بحق

 کراچی: ہاکس بے  کے قریب سمندر میں نہاتے ہوئے 2 افراد ڈوب کر جاں بحق

  • 5 hours ago
افریقی ملک تنزانیہ میں دو بسوں میں تصادم، آگ لگنے سے 38 افراد جھلس کر ہلاک

افریقی ملک تنزانیہ میں دو بسوں میں تصادم، آگ لگنے سے 38 افراد جھلس کر ہلاک

  • 3 hours ago
روس کا یوکرین پر ڈرونز اور میزائلوں سے بڑا فضائی حملہ،ایک یوکرینی ایف 16 طیارہ  تباہ

روس کا یوکرین پر ڈرونز اور میزائلوں سے بڑا فضائی حملہ،ایک یوکرینی ایف 16 طیارہ تباہ

  • 8 hours ago
لاہور: آندھی کے دوران بل بورڈ گرنے سے موٹرسائیکل سوار جاں بحق، اہلیہ اور بچہ زخمی

لاہور: آندھی کے دوران بل بورڈ گرنے سے موٹرسائیکل سوار جاں بحق، اہلیہ اور بچہ زخمی

  • 6 hours ago
اوین جیل پر اسرائیلی حملے میں عملے سمیت 71 افراد شہید ہوئے ،ایران

اوین جیل پر اسرائیلی حملے میں عملے سمیت 71 افراد شہید ہوئے ،ایران

  • 8 hours ago
Advertisement