شالا مار باغ ،مغلیہ فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار جسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے
انگریز دور میں اس باغ کی عظمتِ رفتہ کو بحال رکھا گیا، گورنر پنجاب اور اعلی افسران وقتاً فوقتاً اس جگہ کا دورہ کرتے رہتے تھے۔

ہوسٹل میں اپنے کمرے میں بیٹھا کام میں مصروف تھا کہ اسی دوران دوپہر تین بجے کے قریب دوست کی کال آئی کہ احسان کدھر ہو آ جاو انارکلی سے کھانا کھاتے اورکہیں گھومنے چلتے، میں نے بولا کہ ٹھیک ہے میں ایک کام میں مصروف ہوں وہ کر کے آتا۔
خیر کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ گیا اس سے مل کر گپ شپ اور چائے سے لطف اندوز ہوئیں اسی دوران ایک اور دوست کو میسج کیا کہ آ جاو رومانوی موسم میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے،خیر کچھ دیر بعد وہ دوست بھی آ گیا چائے سے فری ہو کر مجھے کہتا کہ احسان بھائی آج شالا مار باغ نہ چلیں؟ میں نے بھی فوراً ہاں کر دی کہ چلو چلتے ہیں۔
خیر ہم نے اُسی وقت شالامار باغ کی طرف رخت سفر باندھا،راستے میں ایک جگہ ناکے پرٹریفک پولس والے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ لوگوں کو استقبالیہ(چالان ) دے رہے تھے۔ پیچھے سے ایک لاہوری نوجوان بائیک کی تیز اسپیڈ کیے جا رہا تھا کہ وارڈن نے اس کو روک لیا اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اوپر والی سائیڈ سے ہو کر ان کو ماموں بنا کر بھاگنا مناسب سمجھا۔
دس منٹ میں ہم شالا مار باغ پہنچ چکے تھے۔ٹکٹ لے کر جیسے ہی اندر داخل ہوئے اس کے وسیع و عریض رقبے کو دیکھ کر ہمارے چودہ طبق دن کی روشنی میں مزید روشن ہو گئے۔
میں اپنے دوست عبد اللہ سے کہہ رہا تھا یار یہ اتنا بڑا ہے اس میں کم از کم دو تین یونیورسٹیاں بنائی جا سکتی ہے۔لیکن پھر خیال آیا کہ مغلوں سے یونیورسٹیوں کی امید رکھنا ایسے ہے جیسے کنجوس دوست سے پارٹی کی امید لگانا۔
اسی دوران ہم یہ سوچ رہے تھے کہ کاش مغل بادشاہ تعلیم اورعقل کی طرف بھی توجہ دیتے تو شاید برطانیہ کے ہاتھوں اپنا اقتدار نہ گنواتے،لیکن افسوس کہ انہوں نے اپنی توجہ عیش و عشرت اور حرم کو بڑھانے میں ہی رکھی۔
سو واپس آتے ہیں شالا مار باغ کی طرف اور اس کی تعمیر سے لے کر موجودہ حالت تک مختصرتبصرہ کرتے ہیں۔
تاریخ
شالا مار باغ کو پانچویں مغل بادشاہ شہاب الدین شاہجہاں نے 1641۔1642 میں تعمیر کروایا جو کہ چالیس ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ ہاں ہاں یہ وہی شہاب الدین ہے جس نے اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کے لیے آگرہ میں عظیم الشان تاج محل بنوایا۔ اور وہ تاج محل آج بھی ہر عاشق اور اس کی محبوبہ کے دل میں چبھتا ہے۔
اس کی تعمیر کے پیچھے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ جب مغل بادشاہ شاہجہان نے لاہور میں دربار لگایا تواُس وقت کے نامور ماہر تعمیرات اور انجینئرعلی مردان خان نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ ایک ایسے شخص کو جانتا ہے جو نہر بنانے میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔ شاہ جہاں نے خوش ہو کر حکم دیا کہ دریائے راوی سے ایک نہر نکال کر لاہور کے پاس سے گزاری جائے۔
شاہ جہان نے یہ نہر تیار کرنے کے لیے دو لاکھ روپے دیئے۔ ایک سال کے بعد جب شاہ جہاں دوبارہ لاہور آیا تو نہر مکمل ہو چکی تھی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس نہر کے کنارے ایک وسیع و عریض اور بہت خوبصورت باغ تعمیر کیا جائے۔
فن تعمیر(ڈیزائن)
باغ ایک مستطیل شکل میں ہے اور اس کے اردگرد اینٹوں کی ایک اونچی دیوار ہے۔ شمال سے جنوب کی طرف لمبائی 658 میٹر اور مشرق سے مغرب کی طرف چوڑائی 258 میٹر ہے۔ باغ 3 حصوں میں بٹا ہوا ہے اور تینوں کی بلندی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ایک حصہ دوسرے سے 4.5 میٹر تک بلند ہے۔
باغ میں داخل ہونے کیلئے دو بڑے دروازے ہیں۔ جبکہ دو کونوں میں مینار ہیں۔ شالامار باغ کے تین حصے ہیں۔ تینوں خطے الگ الگ باغ ہیں۔ ان کے نام فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں۔ نیچے اترنے کیلئے خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔
باغ کے تینوں حصوں میں درجنوں فوارے لگے ہوئے ہیں۔ یہ فوارے باغ میں گرمی کم کرنے کیلئے لگائے گئے تھے۔ سنگ مرمر کی خوبصورت بارہ دریاں بنائی گئی ہیں۔ پانی اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے تو دلکش نظارہ پیدا ہوتا ہے۔
باغ کے لیے درخت اور پودے قندھار اور کابل سے منگوائے گئے تھے۔باغ کی تعمیر کے لیے روایتی باریک سرخ اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے۔
شالا مار باغ میں خواب گاہ، شاہی حمام، مرکزی آرام گاہ، بارہ دریاں اور دیوانِ خاص و عام ہیں۔ شاہی حمام کے تین حصے ہیں ایک حصے میں دو فوارے اور دوسرے حصے میں حوض تھا۔ اس حوض میں گرم اور ٹھنڈا دونوں طرح کا پانی لایا جاتا تھا۔ سنگ مرمر سے بنی خوبصورت بارہ دریوں میں بیٹھ کر شاہجہاں اپنی محبوب بیوی کے ساتھ برسات کانظارہ کیا کرتا تھا۔ چراغ رکھنے کیلئے سنگ مرمر کے کئی طاقچے بنوائے گئے تھے۔
تخمینہ
اس باغ کی تعمیر کے لیے شاہجہاں نے اس وقت چھ لاکھ کے قریب خطیر رقم خرچ کی جو کہ آج کے دور میں بہت بڑی رقم بنتی ہے۔
شالامار باغ انگریز دور میں
1849ء میں معاہد ہ امرتسر کے تحت پنجاب کا کنٹرول سکھوں کے ہاتھ سے انگریزوں کے پاس چلا گیا۔ انگریز دور میں اس باغ کی عظمتِ رفتہ کو بحال رکھا گیا،گورنر پنجاب اور اعلی افسران وقتاً فوقتاً اس جگہ کا دورہ کرتے رہتے تھے۔
1876ء میں شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم جو اس وقت پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد سلطنت تھے برصغیر کی سیاحت کے سلسلے میں لاہور آئے تو ان کے اعزاز میں پنجاب کے گورنر نے شالا مار باغ میں رات کے وقت ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا۔ جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد شالا مار باغ
1950 میں جب شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے پاکستان کا دورہ کیا تو حکومت پاکستان نے شالامار باغ کو خوب سجایا۔ اِس موقع پر شالیمار باغ کا حُسن اپنے عروج پر تھا۔ اسی طرح برطانیہ کی ملکہ الزبتھ، تُرکی کے سابق صدر جلال بابا، چین کے وزیرِ اعظم چو این لائی، انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر احمد سوئیکارنو،امریکہ کے سابق صدر جان ایف کینیڈی، ان کی اہلیہ جیکی کینیڈی، سعودی عرب کے سابق فرمانروا شاہ سعود بن عبد العزیز اور چین کے سابق صدر لیو ستاؤچی بھی پاکستان تشریف لائے تو اِن سب کا شالا مار باغ میں شاندار استقبال کیا گیا۔
اِن میں سے ہر ایک سربراہِ مملکت نے شالا مار باغ کی خوبصورتی اور لاہور کے شہریوں کی مہمان نواز کو خوب سراہا۔
یونیسکو
1981ء میں یونیسکو نے شالامار باغ کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ اس کا شمار دنیا کے خوبصورت اور عظیم الشان باغوں میں ہوتا ہے۔
شالا مار باغ کی شاہی حیثیت برسوں پہلے کی ختم ہو چکی تھی لیکن اس کو عوامی سیرگاہ کی حیثیت لازوال ہے۔ باغ کی سیر کرنے کے لیے لوگ دور دراز سے آتے ہیں۔ بہار کے شروع میں یہاں میلہ چراغاں بھی لگا کرتا تھا جو پنجاب کا سب سے بڑا میلہ خیال کیا جاتا ہے۔ اب یہ میلہ باغ کے باہر لگتا ہے۔ یہ باغ مغل بادشاہوں کی عظمت کی منہ بولتی یاد گار ہے۔
شالا مار باغ اپنی خوبصورتی اور قدرتی حسن کی وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔اورنج لائن میٹرو ٹرین کی تعمیر کے بعد بیرون شہروں سے آئے لوگوں کے لیے یہاں کا سفر کرنا قدرے آسان ہو گیا ہے،دوران سفر میٹرو ٹرین سے باغ کو نظارہ بہت دلکش لگتا ہے۔
اگر آپ کو موسم بہار میں لاہور آنے کا موقع ملے تو آپ شالامار باغ کے حسن کے ساتھ میلہ چراغاں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
باغ میں سیاحوں کی رونق قائم رکھنے کے لیے والڈ سٹی اتھارٹی لاہور اور صوبائی محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے یہاں مختلف موقعوں پر خصوصی ایونٹ منعقد کیے جاتے ہیں جس میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔
تحریر و تحقیق : احسان اللہ اسحاق
نوٹ یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے اورتحقیق پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

پاکستان کا 78واں جشن آزادی قوم کو مبارک،ملک کے مختلف شہروں میں آتشبازی کا شاندار مظاہرہ
- 2 گھنٹے قبل

پاکستانی کھلاڑیوں کی تائیکوانڈو میں تاریخ ساز کامیابی، مجموعی طور پر 16 تمغے جیت لیے
- 8 گھنٹے قبل

معرکۂ حق اور یومِ آزادی کے موقع پر آئی ایس پی آر کا نیا ملی نغمہ "پاکستان ہمیشہ زندہ باد" جاری
- 8 گھنٹے قبل

اسلام آبادمیں یومِ آزادی اور معرکہ حق کی مرکزی تقریب ،سول وعسکری قیادت کی شرکت
- 4 گھنٹے قبل

لیجنڈری بالی وڈاداکارہ 88 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں
- 5 گھنٹے قبل

ای سی سی اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز کی زمین پر انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کی منظوری
- 6 گھنٹے قبل

عالمی ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مزید بہتر کردی ،وزیر اعظم کا اظہارِ اطمینان
- 8 گھنٹے قبل

پیٹرولیم ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور،اسمگلنگ پر 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا
- 6 گھنٹے قبل

معرکہ حق نے ثابت کیا ہم اپنے ملک کا صحیح دفاع کررہے ہیں، ہماری ایٹمی قوت کسی جارحیت کی عکاس نہیں،شہباز شریف
- 2 گھنٹے قبل

فورسز کسی بھی شخص کو 3ماہ تک حراست میں رکھنےکی مجاز ہونگی، انسداد دہشتگردی ترمیمی منظور
- 6 گھنٹے قبل

بھارتی ریاست راجستھان میں یاتریوں کی گاڑی کھڑے ٹرک سے ٹکرا گئی، 7 بچوں سمیت 11 افراد جاں بحق
- 5 گھنٹے قبل

اٹلی کے قریب تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی،20 افراد جاں بحق،درجنوں لاپتہ
- 6 گھنٹے قبل