امریکا میں ایک بار پھر شٹ ڈاؤن کا خدشہ ، حکومتی اداروں اور عام شہریوں کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟
امریکی تاریخ کا سب سے لمبا شٹ ڈاؤن 2018-19 میں ٹرمپ کے پہلے دور میں ہوا تھا جو 35 دن جاری رہا

امریکا میں ایک بار پھر شٹ ڈاؤن کا خدشہ بڑھ گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حکومتی فنڈنگ سے متعلق بل امریکی سینیٹ سے منظور نہ کرایا جاسکا جس کی وجہ سے امریکا میں شٹ ڈاؤن کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ حکومتی فنڈنگ سے متعلق بل ڈیموکریٹ پہلے ہی سینیٹ میں بل مسترد کرچکے ہیں۔
امریکا میں اس سے پہلے سب سے طویل شٹ ڈاؤن 35 دن تک جاری رہ چکا ہے اور یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ہوا تھا۔
واضح رہے کہ گورنمنٹ شٹ ڈاؤن اس وقت ہوتا ہے جب امریکی حکومت اپنے اخراجات کے لیے نیا بجٹ منظور نہ ہونے پر بہت سے محکمے بند کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے یعنی وہ سرکاری ادارے جو ”ضروری“ نہیں سمجھے جاتے، ان کا کام رک جاتا ہے۔ اس کا اثر کئی چیزوں پر پڑتا ہے جیسے سوشل سیکورٹی کے کام، ہوائی سفر میں سہولت، اور نیشنل پارکس تک رسائی وغیرہ۔
امریکا میں ہر سال حکومت کے اخراجات کے لیے کانگریس بجٹ پاس کرتی ہے اور پھر صدر اس پر دستخط کرتے ہیں۔ اگر سیاسی اختلافات کی وجہ سے بجٹ پاس نہ ہو سکے تو اداروں کے پاس اخراجات کے لیے پیسے نہیں ہوتے اور انہیں بند کرنا پڑتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہزاروں سرکاری ملازمین کام پر نہیں آتے اور انہیں تنخواہیں بھی نہیں ملتیں، جب تک کہ بجٹ کا مسئلہ حل نہ ہو جائے۔
امریکی حکومت کے زیادہ تر محکموں کو چلانے کے لیے 1.7 ٹریلین ڈالر کے فنڈ کی ضرورت ہے، لیکن ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز اس پر متفق نہیں ہو سکے۔ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ عوام کے لیے ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کی مدت بڑھائی جائے، جبکہ ریپبلکنز اس اضافے کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ علیحدہ حل کیا جائے۔ جب سینیٹ نے عارضی اخراجات کا بل مسترد کر دیا تو حکومت کے اداروں کے پاس فنڈز ختم ہو گئے اور شٹ ڈاؤن شروع ہو گیا۔
شٹ ڈاؤن سے کون کون سے ادارے متاثر ہوں گے؟
اس شٹ ڈاؤن سے براہِ راست 7.5 لاکھ وفاقی ملازمین متاثر ہوں گے جنہیں عارضی طور پر گھر بھیج دیا جائے گا اور اس کا روزانہ نقصان تقریباً 400 ملین ڈالر ہوگا۔ فوجی اہلکار اور ایئر ٹریفک کنٹرولرز اپنی ڈیوٹی پر تو رہیں گے لیکن تنخواہیں نہیں ملیں گی۔ ایف بی آئی، ڈی ای اے اور بارڈر سیکیورٹی ادارے بھی کام جاری رکھیں گے لیکن فنڈز کے مسائل کا سامنا ہوگا۔
اس کے علاوہ سوشل سکیورٹی، میڈی کیئر اور میڈیکیڈ کی ادائیگیاں جاری رہیں گی، مگر عملے میں کٹوتیاں ہوں گی۔ فوڈ ایڈ پروگرام (SNAP اور WIC) وقتی طور پر فنڈز کے تحت چلتے رہیں گے۔ڈاک کی ترسیل متاثر نہیں ہوگی کیونکہ یو ایس پوسٹل سروس کانگریس کے بجٹ پر انحصار نہیں کرتی۔عدالتیں محدود عرصے تک چل سکیں گی لیکن طویل شٹ ڈاؤن کی صورت میں ان کا نظام بھی رک سکتا ہے۔چھوٹے کاروبار کے لیے قرضے اور سہولتیں روک دی جائیں گی۔
اہم معاشی اعداد و شمار جیسے روزگار اور جی ڈی پی رپورٹس کی اشاعت معطل ہو جائے گی۔
یہ شٹ ڈاؤن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے براہِ راست جڑا ہے۔ ٹرمپ نے پہلے ہی وفاقی حکومت کے سائز کو کم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور کہا ہے کہ شٹ ڈاؤن ان کے لیے مزید ملازمتوں اور پروگرامز میں کٹوتی کا راستہ ہموار کرے گا۔ ان کے بجٹ ڈائریکٹر رسل ووٹ نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر شٹ ڈاؤن طویل ہوا تو مستقل برطرفیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ امریکی عوام کے ہیلتھ کیئر کے بغیر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ سینیٹ ڈیموکریٹک لیڈر چک شومر کہتے ہیں کہ ’وہ (ٹرمپ) ہمیں دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘ دوسری جانب ریپبلکن رہنما جان تھون نے کہا کہ یہ سب سیاسی کھیل ہے اور شٹ ڈاؤن کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔
اس بحران نے عالمی منڈیوں کو بھی ہلا دیا ہے۔ وال اسٹریٹ فیوچرز نیچے گر گئے، سونے کی قیمت ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی اور ایشیائی مارکیٹس میں بھی غیر یقینی صورتحال دیکھنے کو ملی۔ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ امریکی حکومت کے اعداد و شمار میں تاخیر اور ملازمتوں کے ضیاع سے عالمی معیشت پر دباؤ بڑھے گا۔
رائٹرز کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول اور پارٹیوں کی شدت پسندی کو دیکھتے ہوئے یہ شٹ ڈاؤن ماضی کے مقابلے میں زیادہ طویل ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی تاریخ کا سب سے لمبا شٹ ڈاؤن 2018-19 میں ٹرمپ کے پہلے دور میں ہوا تھا جو 35 دن جاری رہا۔
شٹ ڈاؤن سے امریکی عوام کی زندگی پر کیا اثر مرتب ہو گا؟
عام امریکی شہریوں کو ایئرپورٹس پر سیکورٹی اور پروازوں میں تاخیر کا سامنا ہوگا۔ہزاروں سرکاری ملازمین بغیر تنخواہ کے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوں گے۔ہیلتھ کیئر اور سماجی سہولتوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی۔ معیشت میں بے یقینی بڑھنے سے مہنگائی اور روزگار کے مواقع مزید دباؤ میں آ سکتے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب امریکا 37.5 ٹریلین ڈالر کے ریکارڈ قرض تلے دبا ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس اور وائٹ ہاؤس نے جلد کوئی معاہدہ نہ کیا تو یہ بحران نہ صرف امریکی عوام بلکہ عالمی معیشت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک دن کے اضافے کے بعد سونا پھر ہزاروں روپے سستا، فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟
- ایک دن قبل

بلوچستان : کالعدم تنظیم کے کمانڈر سمیت 100 علیحدگی پسندوں نے ہتھیار ڈال دیے
- ایک دن قبل

محسن نقوی برطانیہ پہنچ گئے، چند پاکستانیوں کی حوالگی کے معاملے پر برطانوی حکام سے بات چیت متوقع
- 18 گھنٹے قبل

ایشیائی ترقیاتی بینک نےپاکستان کیلئے 38 کروڑ 10 لاکھ ڈالر قرض کی منظوری دے دی
- ایک دن قبل

اولمپیئن ایتھلیٹ عبدالرشید دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے
- ایک دن قبل

علی ظفر نے اپنی چوتھی اسٹیڈیو البم “روشنِی” کی پہلی جھلک جاری کر دی،20 دسمبرکو ریلیز ہو گی
- 18 گھنٹے قبل

بائنانس سینئر لیڈرشپ کا پاکستان کا دورہ، حکومت کا ڈیجیٹل اثاثہ جات کے ضابطوں کے لیے مضبوط عزم کا اعادہ
- ایک دن قبل
پاکستان میں جاسوسی کے لیے اسرائیلی سافٹ ویئر استعمال ہورہا ہے،ایمنسٹی انٹرنیشنل
- ایک دن قبل

اسلام آباڈ سکوٹی حادثہ:جج کے بیٹے کی گاڑی سے جاں بحق 2 لڑکیوں کے خاندانوں نے ملزم کو معاف کردیا
- 20 گھنٹے قبل

9 مئی فسادات :پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد
- ایک دن قبل

پریٹوریا میں ہاسٹل پر مسلح افراد کا حملہ،فائرنگ سے 11 افراد جاں بحق، متعدد زخمی
- ایک دن قبل

ڈیرہ بگٹی: سیکیورٹی فورسز کا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن، 5بھارتی اسپانسرڈ خارجی جہنم واصل
- 21 گھنٹے قبل












.jpg&w=3840&q=75)