پاک فوج کے بہادر سپہ سالار
پاک فوج کی کمان کرنا کیوں کہ ایک اعزاز کی بات ہے اب یہ اعزاز جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد کس کو سونپا جاتا ہے یہ وزیراعظم کا اختیار ہے۔


پاکستان میں ایک جانب صدارتی نظام کا شور ہے کہ کچھ حضرات کہہ رہے ہیں کہ اگر پارلیمانی جمہوریت نہیں چلتی تو صدارتی جمہوریت نافذ کر کے دیکھ لیں تو دوسری جانب معیشت کا برا حال ہے جبکہ حکومتی وزرا ء مشیر کہہ رہے ہیں کہ معیشت تو اتنی تیزی سے کبھی بڑھی ہی نہیں تھی جنتی عمران خان کے اقتدار کے تیسرے سال میں کلانچیں بھر رہی ہے جبکہ عام صارف کہہ رہا ہے کہ اگر حکومتی نمائندگان کی باتوں پر اعتبار کریں تو پھر اتنی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کا اثر ان کی جیب پر کیوں نہیں پڑ رہا وہ کیوں نہیں بھاری ہو رہیں اس میں سے پیسے کیوں ہتھیلی میں سے ریت کی مانند پھسلتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی عوام نے تبدیلی کی آس پر عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس پہنچایا اب وہ تاریخ میں کیسے وزیراعظم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے اس کا فیصلہ تو جلد ہو جائے گا لیکن 2022 کو بھی تبدیلی کا سال قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس سال پاکستان کی افواج کی کمان بھی تبدیل ہونی ہے جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد نومبر میں ریٹائرڈ ہو جائیں گے (اگر وزیراعظم عمران خان جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید توسیع نہیں دیتے یا وہ نہیں لیتے تو پھر عمران خان کسی سینئر جرنیل میں سے ایک کو آرمی چیف اور ایک کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی تعینات کریں گے) ۔
ہمارے دوست اور محقق ماجد صدیق نظامی نے اس حوالے سے بڑی تحقیق کی ہے کہ اگر جنرل باجوہ 29نومبر 2022کے بعد مزید کمان نہیں کرتے تو پھر پاکستان کی بہادر افواج کا سپہ سالار کون ہو گا۔ یہ ایک ایسا منصب ہے جس کی خواہش پاک فوج کے ہر افسر کے دل میں جاگیزں ہوتی کہ ایک دن وہ اس منصب پر بیٹھ کر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فوج کی کمان کرے گا۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں جس طرح تحریک انصاف نے الیکشن 2018کو اپنی جیت کی بنا پر تبدیلی کا سال قرار دیا تھا تو2022بھی پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی کا سال ثابت ہو سکتا ہے جب پاکستان کی بہادر افواج کی کمان جنرل قمر باجوہ سے ہوتی ہوئی پاکستان فوج کے کسی دوسرے جنرل کے ہاتھ میں جائے گی۔ اس وقت پاکستان فوج میں دو فور سٹار جرنیل ہیں ایک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں تو دوسرے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا ہیں۔ جنرل ندیم رضا سندھ رجمٹ سے تعلق رکھتے ہیں تو سپہ سالار قمر جاوید باوجوہ بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان دونوں کے بعد سینئر ترین جرنیل چکوال سے تعلق رکھنے والے سندھ رجمنٹ کے راولپنڈی کے کورکمانڈر جنرل ساحر شمشاد مرزا ہیں (اگرچہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کے علاوہ بھی سات جرنیل اور ہیں جو ان سے سینئر ہیں لیکن وہ جنرل باجوہ کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی ستمبر 2022 میں ریٹائرڈ ہو جائیں گے)۔جنرل ساحر شمشاد مرزا کور کمانڈر راولپنڈی بننے سے قبل جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل سٹاف جیسے اہم عہدے پر اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں (یاد دہانی کراتا چلوں کہ سندھ رجمنٹ سے تعلق رکھنا والا کوئی بھی جرنیل آج تک پاک فوج کا سپہ سالار نہیں بنا) ۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا کے بعد سینارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس ہیں جو اس وقت جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل سٹاف کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور اس سے قبل راولپنڈی کور کی کمانڈ بھی کر چکے ہیں اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سابق پرسنل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے بلوچ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود راجہ اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر ہیں اور اس سے قبل کور کمانڈر پشاور کی زمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔چکوال سے تعلق رکھنے والے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور موجودہ کور کمانڈر پشاور بلوچ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سینارٹی لسٹ میں اس وقت چوتھے نمبر پر موجودہیں۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا کے علاوہ چار سینئر ترین جنرلز میں سے تین کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے ۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ بھی بلوچ رجمنٹ سے ہیں اور سابق آرمی چیفس جنرل آغا یحییٰ خان، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کا تعلق بھی بلوچ رجمنٹ سے تھا . سینارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر اس وقت آرٹلری رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر، چھٹے پر فرنٹئیر فورس کے کور کمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل چراغ حیدر بلوچ اور ساتویں نمبر پر موجودہ آئی ایس ائی چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم شیخ ہیں ۔ عموماََ رخصت ہونے والا سپہ سالار سینئر جنرلز کی لسٹ وزیراعظم کو فراہم کرتے ہیں اور وزیراعظم اپنی صوابدید پر ان میں کسی ایک کو سپہ سالار کے منصب پر فائض کرتے ہیں۔پاکستان میں سب سے جونیئر جرنیل کو آرمی چیف بنانے کا واقعہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا جب سینارٹی لسٹ میں ساتویں نمبر مو موجود جنرل ضیا ء الحق کو آرمی چیف بنایا گیا اور ان کے بعد جنرل عبد الوحید کاکڑ کوصدر غلام اسحاق خان نے سینارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر ہونے کے باوجو دآرمی چیف کی ذمہ داریاں سونیں۔ پاک فوج کی کمان کرنا کیوں کہ ایک اعزاز کی بات ہے اب یہ اعزاز جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد کس کو سونپا جاتا ہے یہ وزیراعظم کا اختیار ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ وہ سینئر ترین جنرل کو آرمی چیف کی ذمہ داریاں سونپ کر روایت کوبرقرار رکھتے ہیں یا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کسی جونیئر جنرل کو اس اہم منصب کے قابل سمجھتے ہیں۔
نوٹ : تحریر لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے ، ادارہ کا لکھاری کی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔