پاکستان
ٹیکنالوجی تخریب یا تعمیر!
ٹیکنالوجی کے ایک جانب جہاں بہت سے فوائد ہیں تو وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں۔ٹیکنالوجی نے جہاں علاج معالجے کی سہولتوں کو آسان بنایا ہے تو لوگوں کو مریض بھی بنا رہا ہے۔

ٹیکنالوجی جہاں فاصلے سمیٹ رہی ہیں وہیں پاس بیٹھے لوگوں کو بھی ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔ٹیکنالوجی جہاں لوگوں کی مشکلات آسان کرنے کا باعث بن رہی ہے تو وہیں ٹیکنالوجی لوگوں کو مزید الجھنوں میں بھی ڈال رہی ہے۔ٹیکنالوجی جہاں لوگوں کی غربت کو دور کرنے کا باعث ہے وہیں لوگوں میں غربت بڑھانے کا بھی باعث بن رہی ہے۔ ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کی زندگی میں عیش و عشرت بھر دی ہے وہیں انسان اس عیش و عشرت کیلئے اپنا سکون بھی برباد کرنے پر تلا ہو اہے۔ میرے دوست معروف سپورٹس رپورٹر انس سعید کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی نے دنیا میں غریب اور امیر کے درمیا ن فرق کو بڑھا دیا ہے ۔ لوگ اب اپنی زندگیوں کو سہل بنانے کیلئے امرا ء کی پیروی کرتے ہیں جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زمانہ قدیم میں غریب اور امیر کے درمیان اتنا فرق نہ تھا جو ٹیکنالوجی کی دوڑ نے بڑھا کر اسے زمین و آسمان کے برابر کر دیا ہے ۔ قدیم زمانے میں امیروں کے گھر بڑے ہوتے ہوں گے جیسے آج کل بھی کوٹھی اور بنگلے ہوتے ہیں لیکن اس دور میں امیر اور غریب ایک ہی ٹیکنالوجی سے مکان بناتے ہوں گے ، صرف مکان کے چھوٹے بڑے ہونے کا فرق ہو گا کیوں اس دور میں اسے سی، فریج، جنریٹر، دیگر پر تعیش سامان جو ٹیکنالوجی کا مرہون منت ہے وہ نہیں تھا اس لئے امیر اور غریب کے درمیان اتنا فرق بھی نہیں تھا کیوں کہ دونوں ہی ان چیزوں سے ایک جیسے محروم تھے ۔ اگر امیر شخص کے پاس سواری کیلئے دس بیس گھوڑے یا اونٹ ہوتے ہوں گے تو غریب شخص سواری کیلئے چلو ایک لاغر گدھے سے کام چلا لیتا ہو گا یا زیادہ سے زیادہ پیدل ہی زندگی بسر کر لیتا ہو گا ۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق صرف مقدار کا ہی ہوتا ہو گا لیکن آج کے زمانے میں یہ فرق مقدار سے بڑھ کر چیزوں کے معیار اور برانڈز تک جا پہنچا ہے جس نے غربت میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے۔ اگر کسی کے پاس گاڑی ہے تو موٹر سائیکل والا وہ گاڑی حاصل کرنے کی دوڑ میں ہے اور گاڑی اور موٹر سائیکل کے درمیان جو قیمتوں کا تفاوت ہے وہ دونوں کی غربت اور امارت کو بڑھا رہا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس عام برانڈ کی گاڑی ہے تو اس کامقابلہ لگژری برانڈ کی گاڑی والوں سے کہ وہ اپنے آپ کو لگژری گاڑی کے مالک سے خود کو غریب سمجھتا ہے۔اسی طرح اب امارت کے اظہار کیلئے لوگ جہاز تک خریدتے ہیں جب کہ زمانہ قدیم میں امرا کو یہ سہولت میسر نہ تھی کہ وہ فضاؤں میں اڑ کر غریبوں کا تمسخر اڑائیں۔
ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب دولت چند ہاتھوں میں سمت گئی ہے ملٹی نیشنل کمپنیاں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پوری دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ایک کمپنی اگر جرمنی کے کسی گاؤں میں بیٹھ کر گاڑی بنا رہی ہے پاکستان کے ایک دور دراز کے گاؤں دیہات میں بسا شخص ٹیکنالوجی کی بدولت اس گاڑی کے متعلق آگاہ ہے اور چاہتا ہے کہ جرمن گاڑی کا وہ برانڈ ضرور لے۔اسی طرح موبائل فون کو لے لیں جس نے دنیا کو سمیٹ دیا ہے جس کا بنیادی کام ہی لوگوں کے درمیان رابطوں کو سہل بنانا ہے یعنی اگر ایک ہزار موبائل والا بھی کال سنواتا ہے اور ایک لاکھ والا موبائل فون بھی وہی کام کرتا ہے لیکن دونوں کی قیمتوں اور اس میں موجود ٹیکنالوجی سے بھرپور ایپس نے اسے جدید بنا دیا ہے اور یہی چیز غربت اور امارت میں فرق کو بڑھا رہی ہے ۔ کمپیوٹر، لیپ ٹاپس، جدید گاڑیاں، ہوائی جہاز، برانڈڈ جوتیاں، برانڈڈ کپڑے، رہنے کیلئے الگ گھر امیر غریب کے محلوں میں فرق یہ سب چیزیں اب مل کر غربت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں اور اس میں بنیادی کردار ٹیکنالوجی کا ہے۔ ذرا مزید گہرائی میں چلے جائیں تو گھروں کو ٹھنڈے کرنے کیلئے چلر اے سی پنکھے، گھروں کی سجاوٹ میں انٹریر ذیزانئر کا کردار، علاج معالجے کیلئے امیروں کی دسترس میں موجود جدید ہسپتال یہ سب ٹیکنالوجی کا کمال ہے جس نے امیر کوامیر تر اور غریب کو مزید غریب کر دیا ہے ۔انس سعید کا ماننا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ غریب آدمی آج بھی کسی امیر آدمی سے اچھا کھانا کھاتا ہو گا کیوں کہ امیر کو دولت کے ساتھ مزید پریشانیوں کے باعث ہو سکتا ہے پرہیزی کھانا کھانا پڑتا ہو لیکن غریب بے چارہ بیمار بھی ہو تو نہ تو وہ پرہیزی کھانا کھا سکتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنی سکت ہی نہیں ہوتی کہ باقی گھر سے الگ کھانا کھا لے اس لئے اسے اسی کھانے پر گزاراہ کرنا پڑتا ہے جو گھر میں صحت مند افراد کھا رہے ہوتے ہیں۔اصل فرق جو معاشرے کی غربت میں اضافے کا باعث ہے وہ ٹیکنالوجی ہے جو نت نئی ایجادات کی بدولت اور پھر ان ایجادات میں مزید جدت احساس کمتری پیدا کر رہی ہے اور یہ احساس کمتری غربت کو ختم کرنے کی بجائے اس میں مزید اضا فے کا باعث بن رہی ہے ۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم ٹیکنالوجی کو یکسر مسترد کر دیں اور زمانہ قدیم کی زندگی گزارنا شروع کر دیں، گھوڑے یا گدھے یا اونٹ پر سواری کریں، موبائل فون کی سہولت سے یکسر انکار کر دیں، علاج کیلئے حکیم کے پاس جائیں اور جدید ایلو پیتھی طریقہ علاج کو ماننے سے انکار کر دیں، دفتری کاموں کیلئے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپس کو ہٹا کر رجسٹر پر آ جائیں یہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں لیکن اصل چیز ہے غربت اور غریب کیلئے اس ٹیکنالوجی میں سہولتیں پیدا کی جائیں تا کہ وہ احساس کمتری کی بجائے ٹیکنالوجی میں آگے بڑھیں اور معاشرے کی بہتری کیلئے اپنا تعمیری کردار ادا کریں بقول شاعر
تخریب کے پردے میں ہی تعمیر ہے ساقی
شیشہ کوئی پگھلا ہے تو پیمانہ بنا ہے
نوٹ : تحریر لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے ، ادارہ کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔
پاکستان
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے کتنا کوٹہ مختص کیا گیا
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اگلے سال پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 9 کھرب 50 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

اسلام آباد: نئے مالی سال کا بجٹ 14 ہزار 460 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اگلے سال پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 9 کھرب 50 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے 2 کھرب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 11 کھرب 50 ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہوگا۔
پاکستان
لیپ ٹاپ اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے لیے موجودہ اخراجات کی مد میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

اسلام آباد: نئے مالی سال کا بجٹ 14 ہزار 460 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاق اس کی ترویج میں اپنا بھر پور حصہ ڈالتا ہے، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے لیے موجودہ اخراجات کی مد میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ (Pakistan Endowment Fund) کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
یہ فنڈز میرٹ کی بنیاد پر ہائی اسکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا، اس فنڈ کے قیام کا مقصد ہے کہ کوئی بھی ہونہار طالبعلم وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہو۔
لیپ ٹاپ اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔
کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہیں بجٹ میں اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
تفریح
صحافیوں اور فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صحافیوں و فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد: نئے مالی سال کا بجٹ 14 ہزار 460 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صحافیوں و فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ اقلیتوں، اسپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کے لیے فنڈز اس کے علاوہ ہیں۔ پنشن کے مستقبل کے اخراجات کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔
-
علاقائی ایک دن پہلے
سینئر وکلاء نے وزیر اعظم کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی
-
تجارت 6 گھنٹے پہلے
ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت میں اضافہ
-
تجارت 2 دن پہلے
ملک میں فی تولہ سونے کی قیمت میں مسلسل کمی کا سلسل جاری
-
تجارت 2 دن پہلے
اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت میں کمی
-
علاقائی ایک دن پہلے
پرویز الہٰی کی ق لیگ میں واپسی سے متعلق عائشہ گلا لئی کا انکشاف
-
پاکستان 2 دن پہلے
موبائل فونز کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس مزید نہ بڑھانے کا فیصلہ
-
علاقائی 2 دن پہلے
جہانگیر ترین میری پارٹی کا نام چرا رہا ہے ، چودھری جہانزیب
-
تجارت 2 دن پہلے
پاکستان سٹیٹ آئل کی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں 11 ماہ کے دوران 28 فیصد کمی