سپریم کورٹ میں جمعرات کوتحریک عدم اعتماد پرڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اسپیکرکی رولنگ غلط ہے


سپریم کورٹ میں جمعرات کو تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہے اور یہ سامنے آچکا ہے،اب آگے کیا ہونا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے۔عدالت نے اسپیکر کی رولنگ کیخلاف فیصلہ محفوظ کرلیا۔ فیصلہ آج شام 7:30 بجے سنایا جائے گا۔
ازخود نوٹس کیس کے بینچ کے دیگر ججز میں اعجاز الاحسن،جسٹس مظہر عالم،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ بدھ کی رات لاہور کےنجی ہوٹل میں تمام رکن اسمبلی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنا دیا، سابق گورنرآج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لینگے۔
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے ریمارکس دئیے کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟
مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ممبران اسمبلی کہاں جائیں جب اسمبلی کو تالے لگا دیے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ دیکھے گی، خود فریقین آپس میں بیٹھ کرمعاملہ حل کریں، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔
عدالت نے شہباز شریف کو روسٹم پر بلا لیا
صدر ن لیگ شہبازشریف کا کہنا ہے کہ عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے، عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا، اسپیکرکی رولنگ کالعدم ہوتو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہو جائے گی۔ رولنگ ختم ہونےپرتحریک عدم اعتماد بحال ہوجائےگی۔
شہبازشریف کا کہنا تھا کہ ملک بھر نے اپوزیشن اتحاد کو تسلیم کیا، اپوزیشن خدمت کیلئےتیارہے،آپ کوفرق نظرآئےگا۔ پارلیمنٹ کا عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے، جو بلنڈر ہوئے انکی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا، ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا، عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، مطمئن ضمیرکے ساتھ قبر میں جاؤں گا۔ آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، عوام بھوکی ہوتوملک کوقائدکاپاکستان کیسےکہیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا، سری لنکا میں بجلی اور دیگرسہولیات کیلئے بھی پیسہ نہیں بچا، ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے، آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے۔ قومی مفاد اور عملی ممکنات دیکھ کر ہی آگے چلیں گے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل شہبازشریف سے سوال کیا کہ اپوزیشن پہلےدن سےالیکشن کرانا چاہتی تھی، آج آپ کوالیکشن میں جانے سے کیا مسئلہ ہے؟ جس پر شہبازشریف کا کہنا تھا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔
ن لیگ کے وکیل محدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا، اسلام آباد:عدالت سیاسی تقاریر پرنہ جائے،20 سال سے ہر حکومت حکومت اتحادی ہی بنی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے جواب دیا کہ سرپرائزپر اپنا فیصلہ واضح کرچکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، رولنگ کوختم کرکےدیکھیں گےآگےکیسےچلناہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کاالیکشن کامطالبہ پوراہورہاہےتوہونےدیں، جنہوں نےعمران خان کوپلٹاہےوہ شہبازشریف کوبخشیں گے؟ سب چاہتےہیں اراکین اسمبلی کےنہیں عوام کےمنتخب وزیراعظم بنیں۔
صدر مملکت کے وکیل کے دلائل :
صدرمملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر سےجسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟۔ بیرسٹرعلی ظفرنے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔
جسٹس مظہرعالم نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اور اسے تحفظ حاصل ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو داد رسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟ علی ظفرنےجواب دیا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔
صدرمملکت کے وکیل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدم اعتماد پراگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کےالیکشن اورعدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ جیسے پارلیمنٹ عدلیہ میں مداخلت نہیں کرسکتی ویسے ہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟
علی ظفرنےکہا کہ وفاقی حکومت کی تشکیل اوراسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس تھے کہ عدم اعتماد پراگرووٹنگ ہوجاتی تومعلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا۔ علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کےالیکشن اورعدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔
صدرمملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے خلاف آئین قرار دیا تھا،جونیجو کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے،اس لئےعوام فیصلہ کرے گی۔
اس پر جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے ریمارکس دئیے کہ جونیجو دورمیں صرف اسمبلی تحلیل ہوئی تھی اورکچھ نہیں ہوا تھا۔
علی ظفر نے بتایا کہ عدالت نے انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس پرجسٹس مظہرعالم نے کہا کہ موجودہ کیس میں اسمبلی تحلیل سے پہلےعدم اعتماد پر رولنگ ہے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے اورالیکشن کا اعلان ہوگیا ہے،اب عدالت مداخلت نہ کرے، عدالت کئی مقدمات میں قرار دے چکی ہے کہ الیکشن میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
وزیر اعظم کے وکیل کے دلائل :
وزیر اعطم کے وکیل امتیازصدیقی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے اجتناب کرتی رہی ہے۔
انھوں نے حوالے دیا کہ چوہدری فضل الہی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا گیا تھا اور تشدد کیا گیا،عدالت نے اس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی تھی۔
وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دئیے کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پراعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکرنےاپنے ذہن کے مطابق جو بہترسمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس دئیے کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی، عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔
امتیازصدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔جسٹس منیب اخترنےریمارکس دئے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں،عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنزکی پابند نہیں۔
امتیازصدیقی نے وضاحت دی کہ ڈپٹی اسپیکرنےنیشنل سکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا،نیشنل سکیورٹی کمیٹی پرکوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کوکب بریفنگ ملی تھی؟اس پر وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی ڈپٹی اسپیکرکوبریفنگ کا علم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو معلوم نہیں تو اس پر بات نہ کریں۔
عدالت کووزیراعظم نے وکیل نے بتایا کہ جب وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد خارج ہونے کا علم ہوا توانھوں نے اسمبلی تحلیل کردی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسپیکرنےتحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی توایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کرسکتا تھا،وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔
امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگربدنیت ہوتا تو اپنی حکومت ختم نہ کرتا، وزیراعظم نے کہا ہے کہ انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے۔
آئینی بحران سے متعلق چیف جسٹس کےریمارکس
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ واضح کریں کہ ملک میں کوئی آئینی بحران ہے تو کیسے ہے؟ آئینی بحران کہاں ہے، عدالت کوتوکہیں بحران نظر نہیں آرہا ہے،وزیراعظم آئین کےمطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ نگران وزیراعظم کے تقررکا عمل بھی جاری ہے،اس سب میں بحران کہاں ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہورہا ہے۔
اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل کے دلائل :
نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ آئین بہت سے معاملات پر خاموش ہے، جہاں آئین خاموش ہوتا ہیں وہاں رولز بنائے جاتے ہیں۔
دوران سماعت اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے مندرجات عدالت کے سامنے پیش کر دیے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمانی کمیٹی کے منٹس تو ہیں لیکن اس میں شرکاءکون کون تھے؟ قومی سلامتی کمیٹی میں بریفنگ کس نے دی؟ جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے پارلیمانی کمیٹی میں بریفنگ دی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ وزیرخارجہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں موجود تھے یا نہیں؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں نہیں تھے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملک کا وزیر خارجہ ہے اور اہم اجلاس میں موجود نہیں جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ اجلاس کے منٹس میں معید یوسف کا نام بھی نہیں ہے۔
نعیم بخاری نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونےکے بعد اسمبلی میں وقفہ سوالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نےکہاکوئی سوال نہیں پوچھنے، صرف ووٹنگ کرائیں، اس شورشرابےمیں ڈپٹی اسپیکر نےاجلاس ملتوی کر دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈکے مطابق قومی سلامتی اجلاس میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کوبریفنگ دینے والوں کےنام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزیر خارجہ کوپیغام آیا،کیا انہیں اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ 31مارچ کو نوٹس ہوا، اسی دن اجلاس بھی بلایا گیا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں کیا ہوا، کون تھا،کون نہیں، یہ اٹارنی جنرل کو بتانا ہے، 7 مارچ کو ہمارے سفیرکو ایک اجلاس کے لیے بلایا جاتا ہے، ہمارے سفیرکو بتایا جاتا ہے عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کیا جائے گا۔
جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ 7 مارچ کو سفیرکوکہاگیا، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر لیوگرانٹ ہوئی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا،عدالت کسی کی وفاداری پرسوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہوئی، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفننگ دی گئی،قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پرتیار ہوں۔
انھوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے،اگر اسپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے،جوطریقہ کار آئین میں درج نہیں وہاں اسمبلی رولز کا اطلاق ہوگا،تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20فیصد یعنی 68 ارکان کا ہونا ضروری نہیں۔
اٹارنی جنرل کے دلائل :
اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ اگر68 ارکان تحریک عدم اعتماد منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہوگا؟۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تووزیراعظم فارغ ہوجائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے،تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے، تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں3 سے 7 دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، 7 دن میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے۔
جسٹس منیب اخترنے کہا کہ قومی اسمبلی میں 20 فیصد ممبران نے جب تحریک عدم اعتماد پیش کردی تھی توبحث کرانا چاہئے تھی،وزیراعظم کو سب پتا ہوتا ہے، وہ جاتے اورممبران سے پوچھتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اگرفواد چوہدری عدم اعتماد پر 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہوسکتی تھی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہوسکتی تھی،تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس کے ریماکس :
چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک منظورکرنے کی اسپیکر نے رولنگ دےدی توبات ختم ہوگئی،اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسپیکرکی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا تو کیس ختم ہوگیا، 3اپریل کو بھی وہی اسپیکر تھا اور اسی کی رولنگ تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہے،اس پرآپ کوسننا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ اسمبلی تحلیل اوراسپیکررولنگ میں کتنے ٹائم کا فرق ہے،آپ کہتے ہیں کہ انتخابات ہی واحد حل ہے، کوئی اور حل کیوں نہیں تھا؟عدالت چاہتی ہےکہ پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی اپوزیشن لیڈروزیراعظم نہیں بنتا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کئی ممالک میں بنتے ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر جب وزیراعظم بنے تو کام نہیں چلتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی رکن اسمبلی کوعدالتی فیصلے کے بغیر غدار نہیں کہا جا سکتا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دئیےہوئے کہا کہ اسپیکرکی رولنگ غلط ہےاور یہ سامنے آچکا ہے،اب آگے کیا ہونا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے،قومی مفاد اورعملی ممکنات دیکھ کر ہی آگے چلیں گے۔

بلوچستان حکومت کا گوادر سے خلیجی ممالک تک فیری سروس شروع کرنے پرغور
- 3 گھنٹے قبل

پاک افغان سرحد پر خوارج کی دراندازی کی کوشش ،پانچ مبینہ خودکش حملہ آور گرفتار
- ایک گھنٹہ قبل

مودی سرکار کے دور اقتدار میں بھارتی فوج میں چھپے جنسی درندے بے نقاب
- 4 گھنٹے قبل

پنجاب میں 25 جون سے اب تک بارشوں سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری
- 2 گھنٹے قبل

پنجاب میں آج مزید بارش کی پیشگوئی،اسلام آباد، راولپنڈی،لاہور سمیت دیگر شہروں میں موسلادھار بارش کا امکان
- 5 گھنٹے قبل

لاہور چڑیا گھر کی انتظامیہ کا شہریوں کے لیے تفریحی سہولتوں پر 50 فیصد ڈسکاؤنٹ کا اعلان
- 10 منٹ قبل

معروف یوٹیوبر رجب بٹ حالیہ تنازع کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے
- 4 گھنٹے قبل

اقدام قتل کا مقدمہ : بشری ٰ بی بی کے بیٹے موسی مانیکا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل
- چند سیکنڈ قبل

ٹڈاپ میگا کرپشن اسکینڈل میں یوسف رضا گیلانی تمام مقدمات سے بری
- 2 گھنٹے قبل

مستونگ: قومی شاہراہ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے افسر کی گاڑی پر فائرنگ، ایک اہلکار شہید
- 11 منٹ قبل

یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ کا لاہور گیریژن کا تعلیمی اور معلوماتی دورہ
- 20 منٹ قبل

اسرائیلی فضائی حملے میں مزید 22 فلسطینی شہید،کیتھولک چرچ پر بھی بمباری
- 4 گھنٹے قبل