- Home
- News
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار، پرویز الٰہی آج ہی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھائیں گے
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر پنجاب آج ساڑھے 11 بجے تک نئے وزیراعلیٰ سے حلف لیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کالعدم قرار دے دی، گورنر پنجاب کو نئے وزیر اعلیٰ سے آج رات ساڑھے 11 بجے تک حلف لینے کا حکم، اگر گورنر حلف نہیں لے سکتے تو صدر پاکستان پرویز الٰہی سے حلف لیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے 11 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ لکھا ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے، حمزہ شہباز وزیراعلیٰ نہیں رہے، چیف سیکریٹری پرویز الہٰی کا بطور وزیراعلیٰ نوٹیفکیشن جاری کریں، حمزہ شہباز نے جو حلف اٹھایا وہ بھی غیر آئینی ہے، جو کابینہ بنائی گئی وہ بھی غیر قانونی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حمزہ شہباز فوری طور پر اپنا آفس خالی کریں، گورنر پنجاب آج ساڑھے 11 بجے تک نئے وزیراعلیٰ سے حلف لیں، حمزہ شہباز نے جو بھی قانونی کام کیے وہ برقرار رہیں گے، اس آرڈر کی کاپی گورنر، ڈپٹی اسپیکر اور چیف سیکریٹری کو ارسال کریں، اگر گورنر حلف نہیں لیتے تو پھرصدر مملکت نئے وزیر اعلیٰ سے حلف لیں گے۔
ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس سمیت جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے، عدالت نے کیس کی سماعت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو پہلے 5 بجکر 45 منٹس پر سنایا جانا تھا جو کہ تاخیر کا شکار ہوا۔
دوران سماعت آج صبح چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربے جیسا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، اس سوال کے جواب کے لیے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
سماعت کے آغاز میں ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے، فل کورٹ سے متعلق فیصلے پر نظرثانی دائر کریں گے۔
اس موقع پر فاروق نائیک کی جانب سے بھی عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، اس کے بعد عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔
دورانِ سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دیے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اصل سوال تھا کہ اراکین کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کے لیے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گورننس اور بحران کے حل کے لیے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف انحراف کرنے والے کے نتیجے کا تھا۔
چیف جسٹس نے علی ظفر کے وکیل سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پارلیمانی پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ علییظفر نے کہا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ْ
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی، جماعت کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کوبتایا جاتا ہے جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے باربار اپنی رائے تبدیل کرنے سے اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، میں اپنی رائے تب ہی بدلوں گا جب ٹھوس وجوہات دی جائیں گی، کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہوسکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمانی پارٹی ڈائریکشنزپرمعاونت درکارہے، قانونی سوالات پرمعاونت کریں یا پھرہم اس بینچ سےالگ ہوجائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کوعبادت کا درجہ دیتا ہوں، میرے دائیں بیٹھے حضرات نے اتفاق رائے سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا ہے، شکرہے کہ اتنی گریس باقی ہے کہ عدالتی کارروائی سننے کے لیے بیٹھے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا جس کے بعد سماعت پھر شروع ہوئی تو علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ارکان کےخلاف ایکشن پارٹی سربراہ لے گا، پارٹی سربراہ منحرف ارکان کےخلاف ڈکلیئریشن بھیجتا ہے۔
جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ واضح ہے اگرکسی ممبرکوپارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دینا تو استعفیٰ دے کر دوبارہ آجائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اختیارات پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں، کوئی شبہ نہیں پارٹی سربراہ کا اہم کردارہے تاہم ووٹنگ کیلئے ہدایات پارلیمانی پارٹی ہیڈ دیتا ہے۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا ممکنہ شیڈول کیا ہو گا؟
- 5 گھنٹے قبل
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اثرات، گوگل نے ایک دفعہ پھر ہزاروں ملازمیں کو نوکری سے نکال دیا
- 2 گھنٹے قبل
9 مئی واقعات کے ماسٹر مائنڈ بانی پی ٹی آئی کو کیفر کردار تک پہنچا کر جشن منائیں گے،عطا تارڑ
- 3 گھنٹے قبل
مسلسل دو روز کمی کے بعد سونے کی قیمت میں ایک دفعہ پھر اضافہ
- 5 گھنٹے قبل
مداراس رجسٹریشن بل: حکومت نے اتحاد تنظیم المدارس دینیہ کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے
- 4 گھنٹے قبل
سال کا سب سے مختصر دن اور طویل رات کوکونسی ہے؟
- 4 گھنٹے قبل