بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی تحریک: جمائما اور بیٹوں کی پاکستان آمد کا امکان
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو دو سال کے دوران جیلوں، احتجاجی کالز اور اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کے سوا کچھ خاص حاصل نہیں ہوا


اسلام آباد: بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ممکنہ احتجاجی تحریک کی قیادت کے لیے اپنے بیٹوں، سلیمان اور قاسم خان، کو پاکستان بلانے کے اعلان کے بعد ان کی سابق اہلیہ جمائما خان بھی منظرِ عام پر آ گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وہ بھی اپنے بیٹوں کے ہمراہ پاکستان آنے پر غور کر رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں جمائما خان نے دعویٰ کیا کہ قاسم اور سلیمان کو اپنے والد سے فون پر بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب سیاست نہیں بلکہ ذاتی انتقام ہے۔ جمائما نے الزام عائد کیا کہ اگر ان کے بیٹے عمران خان سے ملاقات کی کوشش کرتے ہیں تو حکومت انہیں گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
تاہم حکومتی ذرائع نے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی سرکاری اہلکار کی جانب سے ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی جس کا حوالہ جمائما دے رہی ہیں۔ ماضی میں عدالتی احکامات کے تحت عمران خان کو اپنے بیٹوں سے ٹیلیفون پر گفتگو کی اجازت ملتی رہی ہے۔
تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جمائما کا ردعمل وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کے ایک متنازع بیان کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر عمران کے بیٹے احتجاج میں شریک ہوئے تو برطانوی ایمبیسی کو ہی انہیں چھڑانا پڑے گا۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی قیادت میں داخلی تقسیم بھی واضح ہے۔ ایک جانب عمران خان نے مذاکرات کی تمام کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے 5 اگست سے ملک گیر احتجاجی تحریک کی کال دے دی ہے، جب کہ پارٹی کے کچھ رہنما—بشمول شاہ محمود قریشی—سمجھتے ہیں کہ اب مفاہمت اور سیاسی عمل ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ علیمہ خان نے بھی تصدیق کی ہے کہ عمران کے بیٹے امریکہ سے پاکستان آ کر تحریک کی قیادت کریں گے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو دو سال کے دوران جیلوں، احتجاجی کالز اور اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کے سوا کچھ خاص حاصل نہیں ہوا، بلکہ اس پالیسی نے پارٹی کو کمزور ہی کیا ہے۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران عمران خان کی جانب سے دی گئی تمام احتجاجی کالز بے اثر ثابت ہوئیں، جس سے عوامی ردعمل پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
تحریک انصاف کے ’’کوٹ لکھپت گروپ‘‘ کا خیال ہے کہ خان صاحب جیل میں حقیقتوں سے کٹ چکے ہیں اور ان سے ملاقات کرنے والے افراد انہیں زمینی حقائق سے دور رکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق خان صاحب کو اپنی ٹیم پر اعتماد کرنا چاہیے اور قیادت کا تقاضا صرف سخت بیانات یا نعرے بازی نہیں، بلکہ تدبر، مشاورت اور لچک بھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ 5 اگست سے شروع ہونے والی نئی احتجاجی تحریک کوئی نیا موڑ لا پائے گی یا یہ بھی ماضی کی طرح صرف ایک جذباتی لہر بن کر رہ جائے گی؟ اگر گزشتہ دو سال میں یہ حکمت عملی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی، تو اس بار اس میں کیا مختلف ہو گا جو فیصلہ سازوں پر اثر ڈالے گا؟

فلم ’نیلوفر‘میں رونے والے وائرل کلپ پر تنقیدکے حوالےسے ماہرہ خان کا ردعمل آگیا
- 11 گھنٹے قبل

اولمپک ریکارڈ ہولڈر ارشد ندیم نے مسلسل دوسری بار نیشنل گیمز میں گولڈ میڈل جیت لیا
- 13 گھنٹے قبل
سال 2025 میں پاکستان میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ کیا سرچ کیا گیا؟
- 11 گھنٹے قبل

تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان ایک بار پھرسرحدی جھڑپیں شروع،کشیدگی میں اضافے کا خدشہ
- 12 گھنٹے قبل

لندن میں پی ایس ایل کا کامیاب روڈ شو ، دنیا کی نمبر ون لیگ بنانا چاہتے ہیں، چئیرمین پی سی بی
- 12 گھنٹے قبل

جنوبی وزیرستان: سرکاری اسپتال میں سہولیات نہ ہونے پر 7 سالہ بچی انتقال کرگئی
- 12 گھنٹے قبل

برطانوی عدالت نے یو ٹیوبر عادل راجہ کو سزا سنا دی ،بریگیڈیئر ریٹائرڈ راشد نصیر سے معافی مانگنے کا حکم
- 8 گھنٹے قبل

قومی اہمیت کے اہم منصوبوں کی شفافیت کے ساتھ بر وقت تکمیل ہماری ترجیح ہے،وزیر اعظم
- 9 گھنٹے قبل

سونے کی قیمت میں ایک بار پھر نمایاں اضافہ، فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟
- 13 گھنٹے قبل

پنجاب حکومت اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان مذاکرات کامیاب ، جرمانے بھی معطل
- 12 گھنٹے قبل

وزیر دفاع سے ازبک سفیر کی ملاقات،دفاع سمیت باہمی مفاد کے شعبوں میں تعاون کا اعادہ
- 10 گھنٹے قبل

بھارت کسی خود فریبی یا گمان کا شکار نہ رہے، اگلی بار جواب اس سے بھی برق رفتار اور شدید ہو گا،فیلڈ مارشل
- 13 گھنٹے قبل










