جی این این سوشل

پاکستان

ملک میں جلد فائیو جی کا آغاز کردیں گے : فواد چوہدری 

رواں سال پاکستان کی ویب سائٹس پر دس لاکھ سائبر حملے ہوئے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ملک میں جلد فائیو جی کا آغاز کردیں گے : فواد چوہدری 
ملک میں جلد فائیو جی کا آغاز کردیں گے : فواد چوہدری 

وفاقی وزیراطلاعات ونشریات  فوادچوہدری نےاسلام آباد میں کابینہ اجلاس کے بعد   پریس کانفرنس کرتے ہوئے  کہا ہے  کہ پاکستان میں اگلےسال تک  فائیوجی ٹیکنالوجی کا آغاز کردیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں  10فیصداضافے کی سمری مسترد کر دی گئی ہے، ارکان پارلیمنٹ کو10فیصد ایڈہاک الاؤنس نہیں ملےگا ۔وفاقی وزیر نے  کہا کہ  تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنےکافیصلہ کفایت شعاری مہم کاحصہ ہے۔ 

پاکستان سے برطانیہ جانے والوں کیلئے خوشخبری آگئی

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ 14 اگست کو ایف بی آر کی ویب سائٹ کی ہیکنگ کی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں جس میں انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ تر ایف بی آر کا ڈیٹا محفوظ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک ڈیٹا پروٹیکشن کمپنی کی خدمات حاصل کر رہی ہے جو ایف بی آر کے ڈیٹا کی سیکیورٹی کو بہتر بنائیں گے۔

فواد چوہدری نے  مزید بتایا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر امین الحق نے کابینہ کو بتایا ہے کہ رواں سال پاکستان کی ویب سائٹس پر دس لاکھ سائبر حملے ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل بین الاقوامی اخبار نے رپورٹ کیا تھا کہ بھارت نے اسرائیلی کمپنی کے ساتھ مل کر پاکستان کے اہم موبائل فونز کے واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک کرنے کی کوشش کی تھی۔

وفاقی وزیر نے فوجداری نظام میں اصلاحات کے حوالے سے بات کرتے  ہوئے کہا کہ اس حوالے سے وزارت قانون کی جانب سے اجلاس میں تفصیلی بریفنگ دی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ کرمنل اصلاحات آئندہ دو سالوں میں بہت اہم حیثیت رکھیں گی۔اس میں ٹرائلز میں تاخیر، انصاف میں تاخیر، ایف آئی آر کے اندراج وغیرہ جیسے معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے، اب یہ کابینہ کمیٹی برائے قانون میں اس پر بحث کیا جائے گا اور پھر اسے نافذ کردیا جائے گا۔

حکومت کا اشیائے ضروریہ پر  کیش سبسڈی دینے کا فیصلہ

وفاقی وزیراطلاعات فوادچوہدری نے کہا کہ  ٹیلی کام سیکٹر میں ترقی سے متعلق امور پر بات ہوئی ہے دوردرازعلاقوں میں مواصلاتی نظام رائج کرناوزیراعظم کاعزم ہے ۔ 

انہوں نے بتایاکہ کابینہ اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کی گئی ہے جبکہ کابینہ کمیٹی برائےنجکاری کےفیصلےمیں ترمیم کی اجازت دیدی ہے  ۔ 

 

پاکستان

الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن پر لگائے اعتراضات نہیں بتائے گئے، بیرسٹر گوہر

 الیکشن کمیشن کی پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات پر اعتراضات کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن پر لگائے اعتراضات نہیں بتائے گئے، بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے لگائے اعتراضات نہیں بتائے گئے۔

چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، بیرسٹرگوہر الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہوئے، بیرسٹرگوہر علی نے مؤقف اپنایا کہ ہم نے 9 مارچ کو انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیلات جمع کرائی تھیں، ہمیں اعتراضات نہیں بتائے گئے۔

 بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ اعترضات بتائے جائیں تو جواب جمع کرا دیں گے، الیکشن کمیشن نے دلائل سننے کے بعد اعتراضات کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ 24 اپریل کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے نئے انٹرا پارٹی انتخابات پر بھی اعتراضات عائد کرتے ہوئے اسے 30 اپریل کے لیے نوٹس جاری کردیا تھا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، جسٹس مسرت ہلالی

جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، جسٹس مسرت ہلالی

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے چھ ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام دستیاب ججز کیس سنیں گے، جسٹس یحییٰ آفریدی بینچ سے الگ ہو گئے، فل کوٹ کے لئے 2 ججز دستیاب نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس بننےکےبعد فل کورٹ بنائی، پارلیمنٹ کاشکرگزارہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے، اب معاملہ یہ ہے آگے کیسے بڑھاجائے اگر کوئی تجاویزہیں توسامنے لائیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جو نکات بتائے گئے ہیں ان پر آئین کے مطابق ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟۔ کیا آپ نے ہائیکورٹ کی بھیجی گئی تجاویز پڑھیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی میں نے تجاویز نہیں پڑھیں۔ چیف جسٹس ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کی بھیجی گئی تجاویز کو سراہنا چاہئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہیں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آ رہی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائی کورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ ہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز اسحٰق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے، کوئی جواب نہیں ہوگا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائیکورٹ ججز اٹھا رہے ہیں، انہوں نے منصور اعوان کو ہدایت دی کہ آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی گئی چیزوں پر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کیلئے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ میں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، ماتحت عدلیہ بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں، کیا یہ مداخلت نہیں؟

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشاں کی گئیں، ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018 میں ہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں، جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ بنچ کے دو ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا، ہم نے نوٹس لیا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہوگا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب ہائی کورٹ خود کیوں نہیں کرتے، سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں، ہائی کورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے، ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے تجاویز لکھتے وقت بڑی جرات دکھائی ہے، یہ اس مقدمے اور اس سوموٹو کیس کے ثمرات ہیں۔

جسٹس منصور علی کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے فون رکھ کر بات کرو یہ کس قسم کا کلچر ہے؟ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے مجھے کوئی نوٹ کر رہا ہے اس کمرے میں ڈیوائس لگی ہے یہ کیوں ہوتا ہے، کیا ایسا ہونا چاہیے؟ کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہیے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، چیف جسٹس نے بتایا کہ میں 5 سال ایک ماہ بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، معلوم ہے کتنی مداخلت ہوتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میرے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں وزیراعظم کے ماتحت ہوتی ہیں، انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے، آئین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کی ساکھ بھی برقرار رکھنی ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے، ملک کے محافظ ہیں، یہ ہمارے سپاہی ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف کس کس نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہیں، چار سال سے زائد عرصے تک نظر ثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئی، کوئی وضاحت ہے کہ کیوں تقریباً پانچ سال سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی؟ کیا اس کیلئے بھی ایگزیکٹو ذمہ دار ہے؟۔

جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، دنیا کو کیا نہیں پتہ تھا کہ اس وقت پاکستان کو چلا کون رہا تھا؟ مگر شاید آپ لوگوں نے انہیں بچانا تھا یا شاید نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری ذات پر انگلی نا اٹھائیں، میں نے لکھ کر دیا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے پیچھے تھے، یہ معاملہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا گیا، میری اہلیہ نے بھی پولیس سٹیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا، جب لوگ پٹری سے ہٹ جائیں تو پھر قانون سازی کی ضرورت پڑ جاتی ہے، حکومت آخر کب قانون سازی کرے گی؟

چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی دوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کس قانون کے تحت وجود میں آئے ہیں اور اگر مداخلت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے پچھلی سماعت پر کہا کہ 2017-2018 میں سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی، اس وقت حکومت میں کون تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ حکومت بے بس تھی؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں کچھ کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے، جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دیئے جاتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دباؤ کبھی بھی نہیں ہوگا اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے، سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں، کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا؟

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ملوث ہو اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی ایکشن لیں، جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ وہ ریفرنس ہمارے پاس ہی آتے ہیں، ہمارے پاس میکانزم ہے، ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ آپ نے تین ہائی کورٹس کی تجاویز پڑھیں، کسی نے نہیں کہا کہ مداخلت نہیں ہو رہی، اس کا مطلب ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

دوران عدت نکاح کیس، خاور مانیکا کی عدم اعتماد اور کیس دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست مسترد

آئندہ سماعت پر دلائل نہ دیے گئے تو کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا،

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

دوران عدت نکاح کیس، خاور مانیکا کی عدم اعتماد اور کیس دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست مسترد

دوران عدت نکاح کیس، خاور مانیکا کی جج پر عدم اعتماد کی درخواست مسترد کر دی گئی، عدالت نے بشریٰ بی بی کے پہلے شوہر کی کیس ٹرانسفر کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

عدت میں نکاح کیس میں سزا کے خلاف بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر سماعت سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے کی۔

دوران سماعت شکایت کنندہ خاور مانیکا عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور جج شاہ رخ ارجمند پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کیس کسی اور عدالت منتقل کرنے کی درخواست کر دی۔

جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کیسے سوچ لیا کہ عدالت کسی کی ہمدردی میں چلے گی، میری پوری زندگی میں یہ پہلا کیس ہے کہ کوئی مجھ پر عدم اعتماد کررہا ہے۔

اس پر خاور مانیکا نے کہا کہ ٹرائل کی سماعتوں میں یکم جنوری کا نکاح نامہ سامنے آیا ہے جبکہ اس سے قبل یکم جنوری کے نکاح سے انکار کیا جاتا رہا۔

جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکیس دیے کہ آپ نے اور میں نے قبر میں جانا ہے ، میری حد تک آپ بتا دیں کہ کیا مسئلہ ہے۔

خاورمانیکا نےکہا کہ پورے خاندان میں مشہور ہے کہ جج صاحب ملزمان کو بری کردیں گے۔ جس پر پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ ایک جملے پر کیس ٹرانسفر کرنے کا کہنا توہین عدالت میں آتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس بابر ستار نے عدم اعتماد کی درخواست پر جرمانہ عائد کیا ہے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی وکلا اور خاور مانیکا کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

بعدازاں جج شاہ رخ ارجمند نے عدم اعتماد کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے خاور مانیکا کی عدم اعتماد اور کیس دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر سماعت 8 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر دلائل نہ دیے گئے تو کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll