جی این این سوشل

پاکستان

افغانستان: کل اور آج

پر شائع ہوا

کی طرف سے

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہی ہوا جس کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا لیکن یہ سب کچھ جس تیز رفتاری سے ہوا یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپریل میں اعلان کیا کہ یکم مئی سے امریکی افواج کا انخلا شروع ہو گا جو نائن الیون کی 20ویں برسی یعنی ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اس بات پر بحث شروع ہو گئی کہ کیا افغان افواج اتنی صلاحیت رکھتی ہیں کہ طالبان کی طرف سے کسی ممکنہ جارحیت اور لڑائی کی صورت میں ان کو روکا جا سکے۔ امریکی دفاعی حکام، انٹیلی جنس رپورٹس‘ دفاعی تجزیہ کار اور سکیورٹی امور کے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

صدر جو بائیڈن کے اعلان کے بعد طالبان نے مئی میں ہی افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنی پیش قدمی شروع کر دی تھی۔ جون میں بھی مختلف محاذوں پر لڑائی ہوئی۔ پھر2 جولائی کو امریکی افواج نے چپکے سے بگرام کا سب سے بڑا فوجی اڈا خالی کر دیا۔ اگست میں طالبان کی پیش قدمی میں انتہائی تیزی آئی اور آخر 15 اگست کے دن وہ کابل پہنچ گئے۔ اب اگر افغانستان کا نقشہ دیکھا جائے تو اس میں وادیٔ پنج شیر کے علاوہ تمام افغانستان عملاً طالبان کے پاس ہے۔ اس میں مزار شریف کا اہم شہر بھی شامل ہے جو اب طالبان کے پاس ہے۔ اس شہر کا ذکر کرنا اس لیے اہم ہے کہ طالبان کے پچھلے دورِ حکومت میں بھی یہ شہر مزاحمت کی علامت رہا اور طالبان یہاں اپنی عمل داری قائم نہیں کر پائے تھے۔ طالبان جس تیز رفتاری سے کابل تک پہنچے ہیں اور مزار شریف جیسے شہر میں بھی انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ یہ بات غور طلب ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ افغان فورسز نے طالبان کے سامنے کوئی مزاحمت کیوں نہیں کی؟ طالبان جہاں جہاں بھی آتے گئے افغان فورسز ہتھیار ڈال کر پیچھے ہٹتی رہیں۔ افغان فورسز کے اس عمل کو شروع میں کچھ احباب جنگی حکمت عملی سے تعبیر کرتے رہے۔ صدر اشرف غنی بھی شروع میں سخت بیانات داغتے رہے۔ جیسے جیسے طالبان کابل کے نزدیک آتے گئے ویسے ویسے اشرف غنی کا لہجہ بدلتا گیا‘ تاہم بات چیت پر آمادگی ظاہر کرنے میں انہوں نے بہت دیر کر دی۔ طالبان کا شروع سے مطالبہ تھا کہ اشرف غنی افغانستان کی صدارت سے مستعفی ہوں تب مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ طالبان 15 اگست اتوار کے روز جب کابل شہر کے دروازے پر پہنچے تو یہی اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے۔ روسی سفارت خانے کے مطابق اشرف غنی اپنے ساتھ ڈالروں کی شکل میں ایک خطیر رقم بھی لے کر ملک سے بھاگے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو طالبان اپنے سیاسی، جنگی اور اخلاقی موقف کی فتح قرار دیتے ہیں‘ اشرف غنی کے یوں ملک سے فرار نے بھی ان کو بظاہر ایک مضبوط پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے۔

اب واپس آتے ہیں اسی سوال کی طرف کہ افغان فورسز نے ہتھیار کیوں ڈالے‘ کہیں مزاحمت کیوں نہیں کی؟ طالبان کے کابل پہنچنے کے بعد یہ تو ثابت ہو گیا کہ افغان فورسز کی پسپائی قطعاً کسی قسم کی جنگی حکمت عملی نہیں تھی تاہم یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ ایسی فوج جسے سیاسی اور عوامی حمایت حاصل نہ ہو وہ لڑنے کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی۔ شاید افغان فورسز کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ عوامی سطح پر فوج کو کتنی پذیرائی حاصل تھی‘ اس حوالے سے حتمی طور پر شاید کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی تاہم یہ رائے ضرور دی جا سکتی ہے کہ سیاسی قیادت فوج میں اپنے شہروں کا دفاع کرنے کا جذبہ بیدار کرنے میں ناکام رہی۔ طالبان کی پیش قدمی کے ساتھ افغانستان میں موجود پاکستان مخالف حلقے اور بھارت اس صورت حال کا ملبہ پاکستان پر گرانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیان بازی اور افواہ سازی کا بازار گرم رہا۔ پاکستان کو خواہ مخواہ ایک ایسے تنازع میں ملوث دکھایا گیا جس میں اس کا کردار ایک ذمہ دار ہمسائے کی حیثیت سے بڑھ کر کچھ اور نہ تھا۔

آخر میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں بھی ہوئی۔ اس بیچ کچھ حلقوں کی جانب سے افغانستان کے لیے امریکی اور نیٹو کی فوجی امداد اور تربیت پر بھی سوال اٹھائے گئے تاہم افغان فورسز کو تربیت دینے والے، طالبان کے کابل پہنچنے پر کپڑے اور ہاتھ جھاڑ کر ایک طرف کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ جس تیزی سے طالبان نے افغان حکومت کا خاتمہ کیا اس پر امریکی صدر جو بائیڈن بھی حیران ہیں تاہم وہ افغانستان سے فوج کے انخلا کے اپنے فیصلے کو درست قرار دے رہے ہیں۔ اپنے پالیسی بیان میں انہوں نے دنیا پر واضح کیا کہ ''ہمیں افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر شرمندگی نہیں۔ افغان فورسز اگر لڑنا نہیں چاہتیں تو امریکی فوج ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔ تربیت اور پیسہ دے سکتے ہیں لڑائی کرنے کا جذبہ نہیں۔ اشرف غنی کو مشورہ دیا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کریں‘ وہ کہتے رہے کہ افغان فورسز لڑیں گی۔ مشکل حالات میں افغان قیادت ملک سے بھاگ گئی‘‘۔

امریکی صدر نے طالبان کو بھی خبردار کیا کہ اگر طالبان نے امریکی مفادات پرحملہ کیا تو تباہ کن جواب دیں گے۔ گوکہ امریکی صدر جو بائیڈن اپنے فیصلے پر قائم ہیں تاہم انہوں نے جس حیرانی کا ذکر کیا اس حوالے سے 8 جولائی کا ان کا بیان اہم ہے۔ جوبائیڈن کا یہ بیان طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے ساتھ ہی سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا کی زینت بنا رہا۔ اپنے اس بیان میں امریکی صدر افغان فورسز کی صلاحیتوں کے بارے میں کافی پراعتماد نظر آئے اور اس بات پر مصر تھے کہ افغان فورسز طالبان کے سامنے ڈٹ جائیں گی اور اپنے ملک کا دفاع کریں گی۔ اسی بیان میں امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ افغانستان ویتنام نہیں ہے یہاں سفارت خانے پر ہیلی کاپٹر اترنے کے منظر نہیں دہرائے جائیں گے‘ لیکن دنیا نے دیکھا کیسے تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا۔ طالبان کے کابل پہنچنے تک کے سفر میں خوش آئند بات یہ رہی کہ بڑے پیمانے پر خون ریزی نہیں ہوئی۔ امن کے منتظر افغان عوام اور ان کے نمائندوں کو اب اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ امن کی راہ پر کیسے چلنا ہے اور افغانستان میں دیرپا امن کیسے قائم کرنا ہے اس کے خدوخال ابھی مکمل واضح نہیں ہوئے۔

دوحہ سے ملا عبدالغنی برادر طالبان کی سینئر قیادت کے ساتھ افغانستان پہنچ چکے ہیں۔ افغان طالبان کے فوجی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی منظر عام پر آ گئے ہیں۔ کابل میں پریس کانفرنس میں ذبیح اللہ مجاہد نے جنگ بندی کا باضابطہ اعلان کیا۔ سابق افغان فوجیوں اور غیر ملکی افواج کے مددگاروں کو عام معافی دی۔ خواتین کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مکمل حقوق دینے کا یقین دلایا۔ نئی حکومت کیا ہو گی‘ اس پر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ مشاورت جاری ہے۔ جلد اعلان ہو گا۔ افغانستان کا پرچم کیا ہو گا اس کا فیصلہ بھی جلد ہو گا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے بین الاقوامی برادری کو یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ انہوں نے تمام سفارت خانوں، بین الاقوامی اداروں، تنظیموں اور غیر ملکیوں کو بھی سکیورٹی کا یقین دلایا۔ طالبان کے فوجی ترجمان کا بیان کافی حوصلہ افزا ہے تاہم صورت حال کیا کروٹ لیتی ہے اس کے لیے چند دن کا انتظار ضروری ہے !!

اس سے قبل یہ کالم    'روزنامہ دنیا ' میں بھی شائع ہوچکاہے ۔

پڑھنا جاری رکھیں

علاقائی

بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے باعث ایک بار پھر سنگین صورتحال

چاغی میں طوفانی بارش کے باعث سیلابی صورتحال، کئ مکان گر گئے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے باعث ایک بار پھر سنگین صورتحال، چاغی میں طوفانی بارش کے باعث سیلابی صورتحال، کئ مکان گر گئے۔

بلوچستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی، کئی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہوگیا، سیلابی ریلے سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوگئی۔

نوشکی، چاغی، تفتان میں حالیہ بارشوں نے نظام زندگی درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ تفتان چاغی میں پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔ گزشتہ رات گئے ہونے والی بارش سے تفتان نوشکی چاغی سمیت دیگر 22اضلاع کے نشیبی علاقے زیر آب آگئےْ

نوشکی میں جھیل زنگی ناوڑ کے بند میں شگاف پڑنے سے جھیل کے پانی کا اخراج شروع ہوگیا ہے، جس کی فوری طور پر بھرائی کی ضرورت ہے۔ پانی کے اخراج سے جھیل کا پانی مختلف حصوں میں کم ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔

اہل علاقہ نے مطالبہ کیا ہے کہ نوشکی ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت مشہور شگار گاہ کے پانی کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔ نوشکی کی جھیل زنگی ناوڑ کے حفاظتی بند میں شگاف پڑنے سے نشیبی آبادی کے زیر آباد آنے کا خدشہ ہے۔

بند ٹوٹنے پر نصیر آباد، جبار اور دیگر آبادیوں میں پانی داخل ہو سکتا ہے۔ اُدھر تفتان میں سیلابی ریلے سے ایک شخض کی لاش بھی برآمد ہوئی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

امریکا  میں پولینڈ اور ہالینڈ کو جدید اینٹی ریڈی ایشن کروز میزائل فروخت کرنے کا بل منظور

پولینڈ اور ہالینڈ کے ہاتھ جدید اینٹی ریڈی ایشن کروز میزائلوں کی فروخت کا بِل منظور ہو گیا ہے: امریکہ وزارت خارجہ

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

امریکانے، پولینڈ اور ہالینڈ کو جدید اینٹی ریڈی ایشن کروز میزائل (AARGM-ER) کی فروخت کی منظوری دے دی ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ  کے مطابق امریکی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پولینڈ اور ہالینڈ کے لئے جدید کروز میزائلوں کی فروخت کا بِل منظور ہو گیا ہے۔ یہ میزائل اینٹی ریڈی ایشن ہیں اور ان کی مسافت بھی سابقہ ورژن کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

بیان کے مطابق پولینڈ نے 1,2  بلین ڈالر مالیت کے 360 اینٹی ریڈار میزائلوں اور میزائل پروگرام کا اور ہالینڈ نے 700 ملین مالیت کے 265 میزائلوں کا مطالبہ کیا ہے۔دفاعی صلاحیت میں اضافے کے لئے یورپی ممالک جو میزائل خریدنا چاہتے ہیں وہ جنگی شرائط میں استعمال شدہ AGM-88 HARM اینٹی ریڈار میزائلوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ٹرانسمیشن و ڈسپیچ کمپنی کی اصلاحات و تنظیمِ نو کی اصولی منظوری

وزیراعظم نے کم آمدنی والے صارفین کو کم بجلی خرچ کرنے والے پنکھے فراہم کرنے کیلئے جامع پلان طلب کر لیا

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے ترسیلی نظام نیشنل ٹرانسمیشن و ڈسپیچ کمپنی کی اصلاحات و تنظیم نو کی اصولی منظوری دے دی۔

وزیراعظم نے اس حوالے سے سفارشات کو حتمی شکل دینے کیلئے کمیٹی قائم کرد ی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے کم آمدنی والے صارفین کی سہولت کیلئے کم بجلی خرچ کرنے والے پنکھے فراہم کرنےکیلئے جامع پلان طلب کر لیا۔

وزیرِاعظم شہباز شریف کی زیرِصدارت بجلی شعبے کی اصلاحات کے جائزے کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس کا تیسرا اور حتمی دور منعقد ہوا۔

وزیراعظم آفس میں بجلی کے شعبے کی اصلاحات کا نفاذ یقینی بنانے کیلئے سیل قائم کر دیا گیا جو پورے عمل کی کڑی نگرانی کرے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ صنعتی شعبے کو کم نرخوں پر بجلی فراہم کرنے کیلئے بھی ایک جامع لائحہ عمل پیش کیا جائے، ہر ماہ بجلی کے شعبے کی اصلاحات کے نفاذ پر جائزہ اجلاس کی خود صدارت کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی اور برآمدات بڑھانے کیلئے صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی کی فراہمی یقینی بنائیں گے، حکومتی محکموں میں مؤثر سزا اور جزا کے نظام کے بغیر اصلاحات ممکن نہیں۔اجلاس کو نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے مسائل اور اس کی اصلاحات کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔

اجلاس کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی صورتحال، نقصانات اور ان کی نجکاری و آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے بھی سفارشات پیش کی گئیں۔ اجلاس کو ٹیرف ریشنالائیزیشن، صنعتوں و گھریلو صارفین کو فراہم کی جانے والی بجلی کے نرخوں کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔

اجلاس کو مختلف تجاویز میں گھریلو صارفین کو کھانا پکانے کے علاوہ دیگر استعمال کیلئے گیس کی بجائے بجلی استعمال کرنے کے حوالے سے مختلف لائحہ عمل پیش کئے گئے۔ وزیراعظم نے بریفنگ کی تعریف کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ منظور شدہ اصلاحات کا نفاذ معینہ مدت میں یقینی بنایا جائے۔

اجلاس میں وفاقی وزراء محمد اسحاق ڈار، احد خان چیمہ، محمد اورنگزیب، عطاء اللہ تارڑ، سردار اویس خان لغاری، ڈاکٹر مصدق ملک، عبدالعلیم خان، سابق وزیرِ بجلی محمد علی، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان، ارکان قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی، انجینئر قمر الاسلام، وزیرِ اعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل، چیئرمین ایف بی آر، چیئرمین نیپرا اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll