پاکستان
خود فریبی
وزیراعظم عمران خان نے ترک ٹی وی سے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ان کی حکومت تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپس کے ساتھ افغانستان میں مذاکرات کر رہی ہے۔
مختلف گروپس ہیں جو ٹی ٹی پی بناتے ہیں۔ جی ہاں ہم ان میں سے کچھ کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا اس میں افغان طالبان بھی آپ کی مدد کر رہے ہیں؟ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں تو صرف اس حد تک وہ (افغان طالبان) مدد کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے وہ گروپس جن سے بات چیت جاری ہے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو انہیں معاف کر دیا جائے گا اور وہ عام شہریوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کو کسی قسم کے معاہدے کی امید ہے؟ اس پر وزیراعظم کا کہنا تھا 'میں پھر سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ میں فوجی حل پر یقین نہیں رکھتا، ایک سیاست دان کی حیثیت سے میں بات چیت پر یقین رکھتا ہوں‘۔ میزبان نے سوال کیا کہ اگر مذاکرات جاری ہیں تو پاکستانی سکیورٹی فورسز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ 'ہم مذاکرات کر رہے ہیں وہ ایک تازہ لہر تھی حملوں کی اور ہو سکتا ہے کہ ہم آخر میں کسی معاہدے پر نہ بھی پہنچیں لیکن ہم گفتگو کر رہے ہیں‘۔
اس سے پہلے صدر عارف علوی اور دیگر اہم حکومتی عہدیدار عام معافی کی پیشکش کرتے نظر آئے لیکن مذاکرات شروع ہونے کی خبر وزیراعظم نے ترک ٹی وی کے ذریعے قوم کو دی۔ ایک ایسا گروہ جس نے 80 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو شہید کیا، ہزاروں کو عمر بھر کے لیے معذور کیا، جس کی وجہ سے ہزاروں بچے یتیم اور بے آسرا ہوئے، ماؤں کی گود اجڑی اور سہاگنوں کو بیوگی کا دکھ جھیلنا پڑا۔ اس گروہ کے ساتھ مذاکرات اور انہیں عام معافی کی پالیسی کس نے اور کہاں تیار کی؟ عوام کا نمائندہ فورم پارلیمنٹ اس عمل سے باہر کیوں رکھا گیا؟ جن کو ہم نے شہید کہا اور برسوں ان کی یاد میں نغمات بناتے رہے کیا ان کا خون بیک جنبش قلم معاف کیا جا سکتا ہے؟ ایک وزیراعظم جو اپنے سے پہلے والوں کو آمریت کا طعنہ دینے کیلئے مغل بادشاہ کا لقب دیتا تھا، کیا وہ اب خود شہنشاہ معظم بن چکا ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب یقینا کسی حکومتی شخصیت کے پاس نہیں ہوں گے اور وہ ایسے سوالوں کا سامنا کرنا بھی پسند نہیں کریں گے، اسی لیے تو بند کمرہ اجلاسوں میں فیصلے ہوئے، پالیسی بنی اور عمل بھی شروع ہو گیا۔ لیکن انہیں یاد دلانا ضروری ہے کہ ریاست اس سے پہلے بھی قاتلوں اور دہشتگردوں کو بھٹکے ہوئے لوگ قرار دے کر قومی دھارے میں لانے کی ایسی ہی کوششیں کر چکی ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو دہشت گردی کی کارروائیوں کے باوجود خلوص نیت سے اس مشن کو لے کر آگے بڑھنا چاہا۔ مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی بھی بنائی جس میں عرفان صدیقی، رحیم اللہ یوسف زئی، رستم شاہ مہمند وغیرہ شامل تھے۔ اب عمران خان وزیراعظم پاکستان ہیں، اس ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات اور حتمی فیصلے انہوں نے کرنے ہیں۔ امن کے دشمنوں کو گولی کا جواب گولی سے دینا ہے یا ان سے بات چیت کرکے قومی دھارے میں شامل کرنا ہے، یہ فیصلہ بھی وزیراعظم کو کرنا ہے، اس عمل میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں تو زیادہ اچھا رہے گا۔ امریکا کی افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف 20 سال جاری رہنے والی جنگ ہو یا پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان سے لڑی جانے والی لڑائی، عمران خان اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں، وہ ہمیشہ ایک بات بار بار کرتے رہے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ان کے کچھ ناقدین ایسی باتوں پر انہیں ''طالبان خان‘‘ بھی کہتے رہے ہیں۔
وزیراعظم کے ٹی ٹی پی کے کچھ گروپوں سے مذاکرات کے بیان پر پیپلز پارٹی نے سخت ردعمل دیتے ہوئے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ شیری رحمان کہتی ہیں: ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق حیران کن اور تشویشناک ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں اکیلے ٹی ٹی پی کو معاف کرنے والے؟ ٹی ٹی پی اعلان کرچکی ہے کہ وہ معافی نہیں مانگے گی، حکومت پارلیمان میں وزیراعظم کے بیان کی وضاحت دے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے حکومتی مذاکرات کو خفیہ رکھنا مناسب نہیں، یہ حساس قومی معاملہ ہے، نواز دور میں مذاکرات کی منظوری پارلیمنٹ سے لی گئی تھی۔ قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور عام معافی کی پیشکش نے کئی سوالات اٹھا دئیے ہیں۔
میرے نزدیک اپوزیشن کا مطالبہ جائز ہے، اتنے اہم اور حساس معاملے پر انہیں اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا، اعتماد میں نہیں لیا تو اس کی وضاحت کی جانی چاہیے کہ مذاکرات ایک دم سے کیوں شروع ہوئے؟ سرنڈر کرنے والوں کو معافی دینے اور عام شہریوں جیسی زندگی گزارنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کب اور کہاں ہوا؟
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس پر کچھ وضاحت پیش کی۔ اپنے ایک ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان ایک آگ اور خون کے دریا سے ہوکر نکلی ہے، ہم نے ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دی ہیں، اب ضرورت ہے آگے چلنے کی، ریاست کی پالیسیاں ایک مخصوص پس منظر میں بنتی ہیں، بے شمار لوگ جو پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عہد نہیں نبھا سکے وہ یہ عہد نبھانے واپس آنا چاہتے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی میں مختلف گروہ ہیں، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کے ساتھ وفا کا عہد نبھانا چاہتے ہیں، ایک صلح جو، امن پسند اور آئین کو مان کر آگے چلنے کا پیمان کرنا چاہتے ہیں، ہمارا ماننا ہے کہ ایسے لوگوں کو ریاست کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ زندگی کے دھارے میں واپس آسکیں۔ نواز شریف بھی اپنے دور میں کالعدم تحریک طالبان میں شامل لوگوں کو ناراض اور راستے سے بھٹکا ہوا سمجھتے تھے، اسی وجہ سے مذاکرات کرکے امن کی راہ نکالنا چاہتے تھے لیکن پھر سانحہ اے پی ایس ہوا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس وقت ریاست کو سخت فیصلے کرنا پڑے۔ اب فواد چودھری نئے پس منظر میں نئی ریاستی پالیسی کا حوالہ دے رہے ہیں، امید ہے اس نئی پالیسی پر اہم سٹیک ہولڈرز کو ضرور اعتماد میں لیا جائے گا ورنہ بداعتمادی کی فضا میں ہونے والے فیصلے مستقبل میں الٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان اور اس کے نظریے سے متاثر لوگ ہمارے معاشرے کی ایک حقیقت ہیں جو کافی تلخ ہے۔ شدت پسندی ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے اس کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔ تمام شدت پسندوں کو بم گرا کر نیست و نابود نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سب کو سولی پر لٹکایا جا سکتا ہے۔ شدت پسندی سے نمٹنا ہے تو ریاستی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ معاشرے میں شدت پسندی کیوں ہے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا؟ سوچ کو بدلنے کے لیے ماحول کو بدلنا ہوگا، اپنے اور دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہوگا لیکن پڑھانا کیا ہے یہ نظریہ طے کرنا ہوگا۔
اس سے قبل یہ آرٹیکل روزنامہ دنیا میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔
دنیا
جموں کشمیر انتخابات میں بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کا جھوٹا پروپیگینڈہ بے نقاب
انڈین میڈیا سے وابستہ صحافیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ عالمی سطح پر ایک ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے بھارت جنتا پارٹی جموں کشمیر کو فتح کرنا چاہتی ہے یہ کو ئی جمہوری طریقہ نہیں ہے
بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کے صدر مملکت روندر رینا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمیں جموں کشمیر میں اکثریت ملنے جا رہی ہے ۔
انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی اورجمہوری پارٹی بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کے ذمہ دار عہدے پر فائز صدر مملکت روندر رینا نے اور پارٹی کے بڑے عہدے داروں نے جموں و کشمیر میں پہلے سے ہی وزارتیں بھی تقسیم کر رکھی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر میں الیکشن فقط ایک دکھاوے کیلئے کروائے جا رہے ہیں تا کہ عالمی میڈیا اور باقی تمام مما لک کی نظر میں بھارت کا اچھا تاثر جائے ۔
انڈین میڈیا سے وابستہ صحافیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ عالمی سطح پر ایک ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے بھارت جنتا پارٹی جموں کشمیر کو فتح کرنا چاہتی ہے یہ کو ئی جمہوری طریقہ نہیں ہے ۔
ان کا کہنا تھا بھارت جنتا پارٹی نے پہلے کی جموں کے عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے کیے تھے اور اب پھر انتخابات کی آڑ میں آ کر جھوٹے وعدے اور اس طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس بار پھر بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کی جانب سے کہا گیا کہ ہم جموں کے عوام کیلئے ہندو سی ایم لائیں گے جبکہ جمہوریت میں کسی صورت بھی ہندو ، سکھ ، عیسائی ، مسلم پارسی کا کوئی تصور نہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ جس کو بھی جموں میں اکثریت حاصل ہو خواہ وہ سکھ ہو عیسائی ہو ہندو ہو جو بھی ہو وہی لیڈر آف دا ہاؤس ہونا چاہیے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کی جانب سے الیکشن کے رزلٹس سے پہلے ہی کہا جا رہا ہے کہ ان کے آزاد امید واران سے رابطے ہیں وہ ان کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے یہ جموں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہیں جبکہ انتخابات کا رزلٹ 8 اکتوبر کو دیا جائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کا مقصد صرف جموں کے عوام کو مذہب کے نام پر دھرم کے نام پر ذات پات کے نام پر بیوقوف بنانا ہے ، انہوں نے کہا کہ سی ایم کے بننے کیلئے ایک جمہوری عمل ضروری ہے بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کو چاہیے کہ ایسے ہتھکنڈے آزمانے کے بجائے جہموری عمل پر یقین رکھے ۔
موسم
پاکستان میں ربیع الثانی 1446 ہجری کا چاند نظر آ گیا
اجلاس کے بعد رویت ہلال کمیٹی نے ملک بھر میں ربیع الثانی 1446ھ کا چاند نظر آنے کا اعلان کیا اور بتایا کہ ہفتہ پانچ اکتوبر 2024 کو ملک بھر میں یکم ربیع الثانی ہوگی
اسلام آباد: مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے ملک بھر میں ربیع الثانی 1446 ہجری کا چاند نظر آنے کا اعلان کردیا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا چیئرمین مولانا عبدالخبیر کی سربراہی میں اسلام آباد میں اجلاس ہوا جبکہ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں زونل کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے۔
چیئرمین رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے بعد وزارت مذہبی امور، حج و بین المذاہب ہم آہنگی نے ربیع الثانی 1446ھ کا چاند دکھائی دینے کی بابت باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔
اجلاس کے بعد رویت ہلال کمیٹی نے ملک بھر میں ربیع الثانی 1446ھ کا چاند نظر آنے کا اعلان کیا اور بتایا کہ ہفتہ پانچ اکتوبر 2024 کو ملک بھر میں یکم ربیع الثانی ہوگی۔
پاکستان
بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنوں کو پولیس نے ڈی چوک سے گرفتار کر لیا
پولیس نے دونوں بہنوں کو تھانہ سیکرٹریٹ منتقل کر دیا
بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بہنوں کو پولیس نے ڈی چوک سے گرفتار کر لیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے اور مختلف مقامات پر پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں میں آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری ہے۔
عمران خان کی بہن علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو ڈی چوک سےگرفتار کرلیا۔ پولیس علیمہ خان کو وین میں بٹھا کر لے گئی۔ پولیس نے دونوں بہنوں کو تھانہ سیکرٹریٹ منتقل کر دیا
-
پاکستان 20 گھنٹے پہلے
پی ٹی آئی کا احتجاج : پولیس احتجاج ناکام بنانے میں متحرک ، داخلی خارجی راستے بند
-
تجارت ایک دن پہلے
سونے کی قیمت سینکڑوں روپے کمی
-
دنیا 2 دن پہلے
اسرائیل نے حملہ کیا تو جواب میں اس کے تمام انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائیں گے، ایرانی آرمی چیف
-
تجارت 19 گھنٹے پہلے
پاکستان اور عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں ایک بار پھر بڑا اضافہ
-
پاکستان ایک دن پہلے
سربراہ مولانا فضل الرحمان کا حکومت سے آئینی ترمیمی بل کو موخر کرنے کا مطالبہ
-
پاکستان 22 گھنٹے پہلے
ڈی چوک ہماری منزل ہے، ہر صورت وہاں پہنچیں گے، علی امین گنڈا پور
-
پاکستان 2 دن پہلے
پی ٹی آئی کا احتجاج : مختلف اضلاع میں دفعہ 144 نافذ، جلسے جلسوں اور احتجاج پر پابندی
-
پاکستان 19 گھنٹے پہلے
شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کیلیے بھارتی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کریں گے