لبنان کے سرکردہ سنی مسلم سیاستدان اور سابق وزیراعظم سعد الحریری نے مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ نہ لینے اور فی الوقت ملکی سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔


مقامی میڈیا کے مطابق انہوں نے پیر کو بیروت میں واقع اپنی قیام گاہ پر پہلے سے تیار شدہ ایک بیان پڑھ کر سنایا جس کو پڑھتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
انھوں نے اپنی جماعت ’مستقبل تحریک‘ کے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی اس فیصلے پر عمل کریں اور سیاست میں اپنی شرکت معطل کر دیں۔
اپنے مقتول والد رفیق الحریری کا ذکرکرتے ہوئے تین بار کے وزیراعظم نے کہا کہ ’ان کے سیاست میں داخل ہونے کے دو مقاصد تھے: لبنان میں ایک اور خانہ جنگی کو چھڑنے سے روکنا اور لبنانیوں کو بہتر زندگی مہیا کرنا، میں پہلے مقصد میں کامیاب ہوا ہوں لیکن مجھے دوسرے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی‘۔
سعد الحریری کبھی مغرب اور خلیج عرب ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتے تھے لیکن حالیہ برسوں میں ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کو متعدد رعایتیں دینے کے بعد ان کا سیاسی تشخص خراب ہوا ہے۔
انھوں نے حزب اللہ کے جنگجوؤں کے بیروت پر قبضہ کرنے کے بعد 7 مئی 2008ء کو تشدد کے خاتمے کے معاہدوں تک پہنچنے کا حوالہ دیا۔ انھوں نے اپنے والد کے قتل کے بعد دمشق میں شام کے صدر بشارالاسد سے ملاقات کی تھی۔
انھوں نے اپنے سیاسی حریف مشیل عون کو لبنان کا صدر بنوانے کا بھی اعتراف کیا اور اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔ اس کے بعد ایک نئے انتخابی قانون پر رضامندی ظاہر کی جس کے نتیجے میں ان کی جماعت کو اہم پارلیمانی نمائندگی سے محروم ہونا پڑا تھا۔
لیکن سعدالحریری نے اپنے ان فیصلوں کا دفاع کیا ہے اور کہا کہ وہ واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے اپنے غلط کاموں کا اعتراف کیا۔ انھوں نے اکتوبر2019 میں ہونے والے ملک گیر حکومت مخالف مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں واحد شخص تھا جس نے اکتوبر انقلاب کا جواب دیا اور میں نے اپنی حکومت کا استعفا پیش کردیا تھا۔
ان کے دیرینہ سیاسی اتحادی اور دورز سیاست دان ولید جنبلاط نے ان کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں العربیہ انگلش کو بتایا کہ ’اعتدال پسندی اور آزادی کا ایک ستون کھونا تاریخ کا ایک انتہائی افسوس ناک لمحہ ہے، اس سے ایرانیوں کو لبنان میں زیادہ آزادانہ مداخلت اور ہاتھ مارنے کا موقع ملے گا‘۔
خود سعدالحریری نے بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے، ایرانی اثر و رسوخ، بین الاقوامی انتشار، قومی تقسیم، فرقہ واریت اور ریاست کے دھڑن تختہ کی صورت میں لبنان کے لیے کسی مثبت موقع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وہ گذشتہ جمعرات سے اپنی جماعت ’مستقبل تحریک‘ کے نمائندوں اور لبنان کے سینیر سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے تھے اور ان سے صلاح مشورے کے بعد پیر کو انھوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک ملک پر ایران کا اثرورسوخ ہے، اس وقت تک کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی ہے۔
سعدالحریری 2005 میں اپنے والد رفیق الحریری کے بیروت میں بم دھماکے میں قتل کے بعد تین مرتبہ لبنان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کی سیاسی قسمت نے یاوری نہیں کی ہے اور سعودی عرب کی حمایت سے محرومی سے ان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوتی چلی گئی ہے۔
حریری کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب لبنان بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ عالمی بینک نے اس کو عالمی سطح پر اب تک کی سب سے بدتر مندی قرار دیا ہے۔ ملک کی فرقہ وار اشرافیہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات میں ناکام رہی ہے، یہاں تک کہ آبادی کا بڑا حصہ غربت کا شکار ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ لبنان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر نظام حکومت رائج ہے۔ اقتدار میں حصہ داری کے نظام کے تحت ملک کا نظم ونسق چلایا جاتا ہے اور سرکاری طور پر تسلیم شدہ 18 فرقوں میں ریاستی عہدے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ملک کا وزیراعظم کوئی سنی سیاست دان ہوتا ہے۔
سعدالحریری کے بڑے حریف ایران کے حمایت یافتہ شیعہ گروپ حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں نے 2018ء میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی۔ ان کے مخالفین مئی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج میں تبدیلی کی امید رکھتے ہیں جبکہ مغربی ممالک بھی بحران زدہ لبنان میں بروقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہے ہیں۔
البتہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لبنان کی سب سے بڑی سنی تحریک کے بائیکاٹ سے انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں اور خود اہل سنت کا سیاسی منظرنامہ انتشار کا شکار ہو جائے گا۔
کارنیگی مشرق اوسط مرکز کے فیلو مہندحاجی علی نے کہا کہ ’سعدالحریری کے بائیکاٹ سے اس سارے عمل سے رگ کھینچ لی گئی ہے۔ اب ان قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوگا کہ شاید انتخابات کا انعقاد نہ ہو‘۔
وزیراعظم کی حیثیت سے حریری کا آخری دور اکتوبر2019ء میں ختم ہوا تھا۔ تب انھوں نے حکمران اشرافیہ کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، اس کے بعد لبنان پے درپے مختلف بحرانوں سے دوچار ہوا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان میں رواں سال مہنگائی میں کمی کی پیشگوئی
- 2 hours ago
آئی سی سی رینکنگ جاری ،روسٹن چیز آل راؤنڈرز سمیت کئی کھلاڑی سر فہرست
- an hour ago

ملک بھر میں موسلا دھار بارشوں نے تباہی مچا دی، ہلاکتیں 245تک جا پہنچیں
- 6 hours ago

سونے کی قیمت میں ہزاروں روپے اضافہ
- 25 minutes ago

9 مئی کیسز میں مفروز حماد اظہر والد کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے
- 4 hours ago

کراچی:نجی اسپتال میں خاتون کے ہاں بیک وقت 5 بچوں کی پیدائش
- 5 hours ago

امریکا کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت، ٹرمپ کی اوباما پر شدید تنقید
- 6 hours ago

چکن گونیا وائرس کی ایک بڑی عالمی وباء پھوٹنے کا خطرہ ، عالمی ادارہ صحت نےخبردار کر دیا
- 4 hours ago

دنیا بھر کے طاقتور ترین پاسپورٹس کی فہرست جاری، کون سا ملک پہلے نمبر پر ہے؟
- 3 hours ago

نور مقدم قتل کیس: طاہر جعفر نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا
- an hour ago

پاکستان اور بنگلا دیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹس پر ویزا فری انٹری دینے کا فیصلہ
- 2 hours ago

بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں قاسم و سلیمان کی امریکی نمائندہ رچرڈ گرینل سے ملاقات
- 34 minutes ago