جی این این سوشل

دنیا

انڈونیشیا میں 6.2 شدت کا زلزلہ،سونامی کا الرٹ جاری نہیں کیا گیا

زلزلے کے بعد سونامی کا الرٹ جاری نہیں کیا گیا

پر شائع ہوا

کی طرف سے

انڈونیشیا میں 6.2 شدت کا زلزلہ،سونامی کا الرٹ جاری نہیں کیا گیا
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

جکارتہ: انڈونیشیا کے صوبے مالوکو میں 6.2 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا ہے، تاہم زلزلے کے بعد سونامی کا الرٹ جاری نہیں کیا گیا۔

چینی خبر رساں ادارے کے مطابق ملک کی موسمیات اور جیو فزکس ایجنسی نے بتایا کہ انڈونیشیا کے صوبے مالوکو میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ۔

ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی ہے ۔ زلزے کا مرکز ضلع مالوکو تینگارا بارات سے 249 کلو میٹر شمال مغرب میں 10 کلو میٹر سمندر کی تہہ میں تھا۔

پاکستان

خیبر پختونخوا کے ہندوں ، سکھوں کے میرج ایکٹ2017 کے تحت مسائل حل نہ ہوسکے

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے  میرج ایکٹ تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

خیبر پختونخوا کے ہندوں  ،  سکھوں کے  
 میرج ایکٹ2017 کے تحت   مسائل حل نہ ہوسکے

آزادی کے 77سال بعد بھی خیبر پختونخوا کے ہندوں اور سکھوں کے دیرینہ مسائل حل نہ ہوسکے ۔ 
خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری کی دیرینہ مسائل کا حل نہ نکالا جاسکا ۔ ہندوں برادری کے شادی کے بندھن کے کچے ڈور پکے نہ ہوسکے تو میتوں کے انتم سنسکار کیلئے صوبائی دارالحکومت میں شمشان گھاٹ کا قضیہ تاحال حل طلب ہے۔ وطن عزیز کے آزادی کے 77سال گزرنے کے باوجود اقلیتی برادری کئی اہم مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئےہندوں  میرج ایکٹ2017میں تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں جس کی وجہ سے ہندوں کی اپنے مذہب کے لحاظ شادی کی  رسومات کی ادائیگی تو ہو جاتی ہے لیکن سرکاری رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں کو قانونی تحفظ نہیں ملتا اور  علیحدگی کی صورت میں خواتین کو حاص طور پر کئی مشکلات درپیش ہوتی ہے ۔
اسی حوالے سے جی این این میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہندوں کمیونٹی کے مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے   فوکل پرسن ہارون سرب دیال  کا کہنا تھا  کہ ایکٹ کو بنے 7سال اور 4 ماہ ہوگئے ہیں ، لیکن اگر رولز نہیں ہے تو اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا ۔

ایکٹ میں ہندوں کے شادی ،علیحدگی ،اموات کی صورت میں سیکسشن اور وراثت  کےلئے قوانین تو موجود ہے لیکن رولز کی صورت میں طریقہ کار تاحال وضعہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صرف اگر عدالتوں کی بات کی جائے تو لوئر کورٹس سے اعلی عدالتوں تک درجنوں مقدمات التواء کا شکارہیں ۔
ہندوں مذہب کے مطابق شادیاں تو ہو جاتی ہیں لیکن اس کا سرٹیفکیٹ یا شادی پرتھ نہیں بن سکتا حالانکہ ایکٹ میں اس 25 شرائط موجود ہے جس میں میاں بیوی کی صحت ،عمر ،بیماریوں ،پہلے سے شادی شدہ ہونے اور اسی طرح گواہان اور شادی کرانے والے کے حوالے سے قوانین درج ہیں لیکن سرکاری میں اس شادی کو رجسٹرڈ کرنے کی صورت میں کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے اسی کے ساتھ اگر کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان علیحدگی کا مسئلہ آجائے تو عدالت میں سب سے پہلے شادی کا سرٹیفیکیٹ یا شادی پرتھ مانگا جاتا ہے پھر بچوں کے مینٹینشش کا مسئلہ بھی ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کے حوالگی کے مسائل الگ ہیں جس کےلئے ایکٹ کی وضاحت  یعنی رولز کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
ہندوں میرج ایکٹ  کے رولز نہ بننے پر ہاروں سرب دیال کے اظہار خیال کی تصدیق کرتے ہوئے ایڈوکیٹ مہوش محب کاکا خیل جی این این کوبتایا  کہ رولز نہ ہونے سے شادیاں ،بچوں کی پیدائش اور فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں بن رہا ،جس کی وجہ سے بچوں کو نہ صرف سکول میں داخلہ کرانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ ہندوں خاندانوں کو سفر میں بھی مشکلات  پیش آرہی ہوتی ہے ۔ 

اگر شادیاں رجسٹرڈ نہیں تو قانونی طور پر ہندوں جوڑوں کی علیحدگی کی صورت میں عدالت میں کیس دائر کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کا مسئلہ سامنے آتا چونکہ رجسٹریشن نہیں ہوتی تو اکثر اوقات شوہر بچوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے پھر اس کی وجہ سے خواتین کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔عدالت کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے کہ انکی شادی رجسٹرڈ کیوں نہیں ہے ،یہ بچے کس کےہیں جیسے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہندو میرج ایکٹ کے رولز آف بزنس نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ شادی کہاں رجسٹرڈ کروانی ہے بڑے شہروں میں یونین کونسل یا نیبر ہوڈ کونسل ہیں جن میں اکثریتی جگہوں پر انکے نمائندے موجود نہیں کیونکہ کسی بھی شادی کو رجسٹرڈ کرنے کےلئے اس کمیونٹی کے نمائندوں کا ہونا بہت ضروری   اس کے ساتھ انکو اس حوالے سے کوئی آگاہی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سے قانونی تقاضی پورے نہیں ہو رہے ہیں اور ہرطرف مشکلات ہی مشکلات ہے ۔مہوش محب کاکا خیل نے  جائیداد میں  وراثت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وراثت کی تقسیم اور حصول ہندوں کمیونٹی کےلئے  بہت بڑا مسئلہ ہے اگر شادی پرتھ  رجسٹرڈ نہیں تو پھر کسی کے بیوی بچے جائیداد میں حصہ کا دعوی نہیں کرسکتے ۔اسی طرح بیوہ ہندو خواتین کو دوبارہ شادی کرنے کا بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔علیحدگی کی صورت میں اگر کسی خاتون کے بچے ہوں تو انکے خرچہ کا مسئلہ آجاتا ہے اور اکثر شوہر بچوں سے انکار کردیتا ہے ۔شادی رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہو رہی ہے جس کے مثبت حل کےلئے رولز کا وجود میں آنا بہت ضروری ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے اگر ہندوں کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا ہے تو زندگی کے قید سے آزاد ہونے کےلئے ہندووں اور سیکھوں کو پشاور میں شمشان گھاٹ نہ ہونے کے وجہ سے بھی دشواریاں درپیش ہیں، ہندووں اور سکھوں کےلئے اپنے پیاروں کی آخری رسومات احسن طریقے سے ادا کرنے کےلئے انہیں شمشان گھاٹ میں جلانا بہت ضروری ہے جہاں دونوں کمیونٹیز کے لوگ اپنے پیاروں کو جلانے کے بعد انکے سولہویں سنسکار کے طور پر انکی استیوں کو دریاں میں بہایا جاتا ہے ۔

مذہبی اعتبار سے شمشان گھاٹ کاآبادی سے دور اور دریاں کے کنارے ہونا  اس کے اہم تقاضوں میں شامل ہے لیکن پشاور کے ہندوں اور سکھ برادری اپنے پیاروں کو 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر بنائے گئے شمشان گھاٹ لیکر جاتے ہیں جس پر وقت اور پیسے کا خرچ بہت زیادہ ہے  اور اکثر غریب افراد اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں ۔

سکھ کمیونٹی کے رہنما اور سماجی شخصیت بابا جی گورپال سنگھ کہتے ہیں سکھ اور ہندو کمیونٹی کے اس دیرینہ  مسئلے کے حل کےلئے انہوں نے عدالت عالیہ سے بھی رجوع کیا اور عدالتی احکامات کی روشنی  میں جہاں صوبائی حکومت نے شمشان گھاٹ اور مسیحی قبرستان کے جگہ کےلئے رقم  مختص کی وہی پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے ہمیں جگہیں بھی دیکھا دئیے لیکن یا تو وہ جگہیں شرائط پر پورا نہیں اتررہے تھے  اور یا وہاں کی مقامی آبادی نے اعتراض اُٹھا جس کی وجہ سے تاحال ہمارا یہ دیرینہ مطالبہ حل نہ ہو سکا ۔
اس کی وجہ سے ہمارے مردوں کے آخری رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ استطاعت نہ رکھنے والے افراد مجبورا اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں۔ 

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندوں کی مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے فوکل پرسن ہارون سرب دیال  نے کہا کہ ایک تو پشاور میں کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں دوسری بات یہ کہ جہاں شمشان گھاٹ موجود ہے وہاں بھی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے مثلا کوہاٹ میں شمشان گھاٹ دشوار گزار علاقے میں ہیں جہاں میت کو جلانے کے بعد استیاں 52کلومیٹر دور خوشحال گڑھ لیکر جانا پڑتا ہے جبکہ پشاور سے 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر شمشان گھاٹ تو موجود ہے لیکن دور ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن اور وہاں رسومات کی ادائیگی میں مشکلات پیش آرہے ہیں ۔مثال کے طور پر استیوں کو دریا میں بہانے کےلئے اٹک کے مقام پر سیڑھیاں موجود نہیں اسلئے حکومت سے مطالبہ بھی کرتے اور مشورہ بھی دیتے ہیں کہ نوشہرہ حکیم آباد میں جگہ ہیں جو دریا کے کنارے اور آبادی سے دور بھی اور وہ ہمارے لئے مقدس بھی جبکہ پشاور ،نوشہرہ اور مردان سے آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے جس پر کسی کا اعتراض بھی نہیں لہذا اس جگہ اگر شمشان گھاٹ تعمیر کیا جائے تو سب کےلئے قابل قبول ہوگا ۔

سابق اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما روی کمار سے جب ہندو اور سکھ کمیونٹی کے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو روی کمار نے جی این این کو بتایا کہ ہندو میرج ایکٹ کے رولز بنانے کےلئے سابق دور حکومت میںٰ کام شروع ہوا جس میں ہمارے تھینک ٹینکس نے اہم کردار ادا کیا ۔ تھینک ٹینکس نے رولز کے حوالے سے  سفارشات مرتب کئے جس کو سٹیڈی کرنے کے بعد سات اعتراض لگائے گئے تاہم وہ ساتھ اعتراض بھی ختم کردیئے گئے ہیں جس کے بعد ان رولز کو صوبائی کابینہ سے بہت جلد پاس کرایا جائے گا۔
روی کمار نے شمشان گھاٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف شمشان گھاٹ بلکہ مسیحی قبرسانوں کےلئے بھی  گزشتہ دور حکومت میں سیکشن فور لگا کر کام شروع کیا گیا تھا تاہم بہت سی جگہوں پر مقامی لوگوں کے اعتراضات یا شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے کوئی زمین مختص نہیں ہوئی ۔

اس کے بعد سٹیٹ لینڈ کیلئے  حکومت سے درخواست کی گئی لیکن کچھ سیاسی وجوہات کے بنا پر صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا اور نگران حکومت میں اس کام کو مزید آگے نہیں بڑھایا گیا  تاہم نئے حکومت آنے کے بعد اب جیسے ہیں محصوص نشستوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا تو اس پر دوبارہ کام کا آغاز کرینگے تاکہ یہ دیرینہ مسائل حل ہو جائے 
قانونی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہے کہ نہ صرف عام شہریوں کو بلکہ اقلیتوں کو بھی تمام بنیادی حقوق حاصل ہے اور تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق جس کےلئے حکومت کو بھی چاہئے کہ انہیں تمام حقوق دیئے جائے ۔

رپورٹ سید کامران علی شاہ  (رپورٹر پشاور بیورو)

 

پڑھنا جاری رکھیں

کھیل

چیمپئنز لیگ ون ڈے کپ کے ٹکٹوں کی فروخت آج سے شروع ہو گی

پلے آف مرحلے کے ٹکٹ 200 روپے اور 300 روپے میں دستیاب ہوں گے ،فائنل کے لئے ٹکٹ 300 اور 400 روپے میں خریدے جا سکتے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

چیمپئنز لیگ ون ڈے کپ کے ٹکٹوں کی فروخت آج سے شروع ہو گی

فیصل آباد :فیصل آباد میں چیمپئنز لیگ ون ڈے کپ کے ٹکٹوں کی فروخت آج سے شروع ہوگی ،12 سے 22 ستمبر تک جنرل اور فرسٹ کلاس انکلوژر میں داخلہ مفت ہوگا ۔ 

تفصیلات کےمطابق  چیمپئنز ون ڈے کپ 29 ستمبر تک اقبال سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا ،ٹکٹس پی سی بی کی آفیشل ویب سائیٹ پر آن لائن بھی دستیاب ہیں ،24 سے27 ستمبر تک  چیمپئنز لیگ کا پلے آف مرحلہ کھیلا جائے گا۔  

پلے آف مرحلے کے ٹکٹ 200 روپے اور 300 روپے میں دستیاب ہوں گے ،فائنل کے لئے ٹکٹ 300 اور 400 روپے میں خریدے جا سکتے ہیں ،وی آئی پی انکلوژرز کے ٹکٹ 500 اور 600 روپے میں دستیاب ہوں گے۔  

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

محقق اسلام کے علمی کارنامے اور اس کے اثرات،اسلامی اصولوں کا دفاع اور محقق اسلام کی تحقیقی کاوشیں

آپ کی تصانیت اور علمی مقام پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنا عظیم سعادت ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

محقق اسلام کے علمی کارنامے اور اس کے اثرات،اسلامی اصولوں کا دفاع اور محقق اسلام کی تحقیقی کاوشیں

دین اسلام ہمہ جہت پہلو رکھتا ہے اور آفاقی دین  ہونے کے سبب قیامت تک اس میں انسانیت کے لیے مکمل راہ نمائی موجود ہے۔ دین اسلام میں حق و باطل کی پہچان مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں احقاق حق اور  ابطال باطل میں علماء نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ ان علماء میں بیسویں صدی کے نامور عالم دین محقق اسلام حاجی محمد علی نقشبندی کا نام سرفہرست ہے۔ 1933 میں ضلع گجرات میں  پیدا ہونے والا یہ عظیم انسان دیکھتے ہی دیکھتے آسمان تحقیق پر چھا گیا۔میرے ممدوح حاجی صاحب رحمہ اللہ علیہ نے 1952 میں حفظ قرآن قرآن مکمل کیا اس کے بعد 1960  مروجہ درس نظامی مکمل فرمائی اور علم کی ترویج واشاعت میں حصہ ڈالتے ہوئے باقاعدہ 1963 میں بلال گنج لاہور میں عظیم الشان اداره جامعہ رسولیہ شیرازیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ کے اساتذہ میں علامہ ابوالبرکات سید احمد شاہ ،محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد اور شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی شامل ہیں۔ دور طالب علمی سے ہی آپ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی عظیم روحانی خانقاہ آستانہ عالیہ حضرت کیلیانوالہ شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ نور الحسن شاہ بخاری سے بیعت کا شرف
حاصل ہوا ۔جس شہر کو  حضرت مجدد الف ثانی نے قطب البلاد کا نام دیا  اس شہر میں آپ نے اپنےقلم سے وہ علمی کارنامہ سر انجام دیا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

آپ کی تصانیت اور علمی مقام پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنا عظیم سعادت ہے جس کے حصول کے لیے کچھ الفاظ سپرد قلم کئے جا رہے ہیں۔
آپ کی تصانیف کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو  اصلاح عقائد، فروغ عشق رسول وصحابہ واہل بیت،اسلام سے تعلق کی بحالی اور اصلاح معاشرہ جیسے نمایاں ترین پہلو سامنے آتے ہیں ۔ایک طرف آپ محدث اعظم اور شیخ الحدیث کے علمی و اقتصادی فیضان کے وارث تھے تو دوسری طرف حضرت خواجہ نور الحسن بخاری  کے باطنی علوم کے وارث بھی تھے۔ 
 آپ علمی حیثیت سے ایک انجمن تھے اور شان  ایک ادارہ سے کم نہ تھی ۔حضرت محقق اسلام کی تصنیفات میں موطا امام محمد کی شرح  شرح موطا امام محمد( تین جلدیں)، اطيب الحواشی شرح اصول الشاشی نور العینین فی ایمان آباء سید الکونین، قانونچہ رسولیہ، منکرین وجوب اللحیہ کا شرعی محاسبہ ، دشمنان امیر معاویہ کا علمی محاسبہ (دو جلدیں) ، تعارف سیدنا امیر معاویہ ،تحفہ جعفریہ (پانچ جلدیں)،فقہ جعفریہ (چار جلدیں) اور عقائد جعفریہ (چارجلدیں) شامل ہیں۔

آپ کی تصانیف کے مطالعہ کرنے سے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ان میں سب سے نمایاں پہلو ناموس صحابہ واہل بیت ہے۔اس موضوع پر آپ نے قلم سے تحقیق کا حق ادا کیا اور باطل کا رد انہی کی کتب سے کیا۔رد ابطال اور دین اسلام کے موقف کو خوبصورت انداز میں بیان کرنے کے اسلوب میں جب نظر ڈالی جائے تو اس میں اسلوب زمانہ ماضی میں امام بخاری نظر آتے ہیں کہ جب انہوں نے خواب دیکھا کہ حضور اکرم  کی مگس رانی (جسم اطہر سے مکھیاں وغیرہ اڑانا) کر رہے ہیں ،تعبیر یہ  بتائی گئی کہ تم احادیث  کو خلط ملط سے پاک کرو گے ۔

اسی طرح ماضی قریب میں اعلحضرت امام احمد رضا خان ابطال باطل میں وہی  انداز اختیار کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ گئے۔ بر صغیر میں شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ کے ذریعے اسی اسلوب کو آگے بڑھایا۔ شیخ محقق کے بعد منظم انداز میں علمی ورثہ امت کے لیے قبلہ حاجی صاحب نے چھوڑا ،یہ مشقت طلب اور وقیع کام ہے کہ جس کو کرنے کے لیے ایک پوری ٹیم اور مدت دراز درکار ہو۔ آپ نے تن تنہا محض اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول کی مدد اور مرشد گرامی کے فیض سے سر انجام دیا ۔

مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی حاجی صاحب نے کب لکھنا شروع کیا ؟مطالعہ کے دوران ورق گردانی کرتے اور قبلہ  شیخ الحدیث علامہ رضائے مصطفے نقشبندی کے مطابق آپ نے 1973 میں لکھنے کا آغاز فرمایا اور تین چار رسائل لکھے جن کی اشاعت نہ ہو سکی۔پہلی بار جب حج مبارک کے لیے تشریف لے گئے ۔ حج سے واپسی پر ایران سے اصل کتب خریدیں تو اس وقت سے ہی رد ابطال پر آپ سے گہرا مطالعہ شروع فرما دیا ۔
چھوٹے رسائل سے لکھنے کا آغاز اور پھر باطل کو رد کرنا ،اس انداز سے شروع ہوا کہ آخری دن نہیں بلکہ آخری لمحات تک جاری رہا ۔یہ عرصہ کل 23سال تک محیط ہے ۔ سب سے پہلے تحفہ جعفریہ تصنیف فرمائی اس کے بعد فقہ اور عقائدِ جعفریہ معرض وجود میں آئیں۔ عقائدِ جعفریہ میں اگر چہ تاریخ طباعت مذکور نہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ آخر میں لکھی گئی کیونکہ جلد چہارم کے آخر میں سب معاونین کے حق میں تشکر کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔
 اس دوران دوسری کتب کی اشاعت بھی ہوتی رہی جیسے حضور کے والدین کے مؤمن ہونے پر نور العینین ،داڑھی کے واجب ہونے پر وجوب اللجیہ  تعارف سیدنا امیر معاویہ اور حضرت امیر معاویہ کے دفاع میں دو ضخیم جلدیں دشمنان امیر معاویہ کے نام سے 1992 میں معرض وجود میں آئیں ۔ بانی جامعہ رسولیہ شیرازیہ کی تصانیف کی وسعت کی طرف جب نظر جاتی ہے تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آپ کا قلم رکنے کا نام ہی  نہیں لیتا تھا۔ امام نووی نے جب امام غزالی کی تصانیف کا ان کی عمر سے  حساب لگایا تو پتہ چلا کہ آپ ہر روز آٹھ(8) صفحات لکھتے تھے۔ 
محقق اسلام  قلم کی کثرت اس طرح تو نہیں بلکہ اس کے قریب قریب ہے کہ آپ کی تمام تصانیف کے صفحات کی کل  تعداد تیرہ ہزار سینتیس (13037)ہے۔ جب کہ آغاز سے آخر تک کل دن اندازے کے مطابق آٹھ ہزار تین سو پچانوے (8395) بنتے ہیں، گویا دنوں سے صفحات کی تعداد زیادہ ہے۔ اس سے آپ کے قلم کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے واضح  کہ ابھی اس میں دو کتابوں کا حساب نہیں ہے۔ ایک کتاب کا آپ نے مسودہ تیار فرما لیا تھا جس کا نام شان اہل بیت اور دشمنان اہل بیت کا علمی کی محاسبہ رکھا ۔وصال کےآخری روزاس کتاب  کا آخری ڈیڑھ صفحہ تحریر فرمایا۔بدقسمتی سے اس کا مسودہ چوری ہو گیا ۔
اسی طرح جب بیماری اور عارضہ قلب شدت اختیار کر گیا، اس عارضہ میں بھی تفسیر قرآن لکھنے کے لیے مواد جمع کر رہے تھے اور اس کا آغاز کرنا ہی چاہتے تھے کہ اچانک   28صفر 1417 بمطابق 14 جولائی 1996 کو خالق حقیقی سے جاملے۔ اگر  تفسیر قرآن اور دوسری کتاب مکمل ہو کر شائع ہو جاتی تو صفحات کی تعداد بہت بڑھ جاتی۔

پڑھنا لکھنا آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا سفر و حضر میں اس پر عمل فرماتے قلم کی تیز رفتاری کا  یہ عالم کہ 168 صفحات کی کتاب معارف سیدنا امیر معاویہ کا صرف دس دن  میں مسودہ تیار فرما لیا۔ مکہ مکرمہ میں حج سے پہلے صرف ایک ماہ اور چند دن میں اصول فقہ کی معروف و متداول کتاب اصول الشاشی کی شرح تیار ہوگئی۔

محقق اسلام کی تصانیف جب میدان میں آئیں تو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا گیا آنا فانا ہر طرف چرچا ہو گیا۔ تمام مسالک کے علماء نے تاثرات لکھے اور پذیرائی بخشی ۔ اس سے آپ کے کتابوں کے اثرات کا پتہ چلتا ہے ۔ حافظ عبد الستار سعیدی مدظلہ العالی فرمایا کرتے کہ  محقق اسلام نے دفاع صحابہ واہل بیت میں اس وقت قلم اٹھایا جب نامور لوگوں کے اس موضوع پر قلم اٹھانے سے ہاتھ کا نپتےتھے ۔آپ کی کتب کی مثال ماضی قریب وبعید میں دورتک نظر نہیں آتی اوریہ کتب کا حسین گلدستہ مستقبل کے مصنف و مؤرخ  کے لیے سند کی حیثیت رکھتا ہے۔تصانیف محقق اسلام کے تحقیقی جائزے اور منہج تحقیق کے لیے الگ سے دفتر درکار ہے جس سے آپ کی علمی  عظمت اور زیادہ واضح ہو جائے گی۔
حضرت محقق نے کتابوں کی صورت وراثت چھوڑی  اب نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ اس کو خریدیں، پڑھیں اور آگے پھیلائیں تاکہ ان کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہو جائے ۔جس طرح ہردور کے تقاضے ہوتے  ہیں اس کے مطابق موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ 
تحقیقی کام کی ترتیب نو اور تسہیل کی اشد ضرورت ہے جس کو آپ کے صاجزادگان شیخ التفسیر علامہ قاری محمد طیب صاحب مدظلہ العالی ،شیخ الحدیث علامہ رضائے مصطفے نقشبندی اور صاحب زادہ میاں محمد رضا نقشبندی  وغیرہ احسن انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت محقق اسلام کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے فیض سے سب کو وافر حصہ عطا فرمائے آمین ۔

تحریر: ڈاکٹر حبيب احمد

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll