Advertisement
تفریح

منٹو کی شناخت ' اُردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار '

سعادت حسن منٹو کی شناخت اُردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوتی ہے لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اپنی نوعمری اور جوانی سے انھیں فلموں سے بھی ویسی ہی دلچسپی تھی جیسی ادب سے۔

GNN Web Desk
شائع شدہ 3 years ago پر Jan 18th 2022, 11:14 pm
ویب ڈیسک کے ذریعے
منٹو کی شناخت ' اُردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار '

فلموں سے منٹو کے عشق کا آغاز امرتسر سے ہی ہو گیا تھا۔ وہ ہالی وڈ فلموں کے سحر میں مبتلا تھے اور کئی فن کاروں مثلاً بورس کارلوف، مارلین ڈیرچ، جان گلبرٹ، گریٹا گاربو، میری پک فورڈ، ایڈی پولو، گلوریا سوانسن اور لان چینی کی اداکاری سے بے حد متاثر تھے۔
سنہ 1933 میں وہ باری علیگ کے اخبار ’مساوات‘ سے وابستہ ہوئے اور جلد ہی اِس اخبار میں فلمی کالم لکھنے لگے۔ سنہ 1936 میں منٹو بمبئی چلے گئے، جو اس وقت ہندوستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔

نذیر لدھیانوی نے انھیں اپنے رسالے ’مصور‘ کی ادارت کی دعوت دی۔ منٹو اس رسالے میں تنقیدی مضامین اور فلموں پر تبصرے لکھنے لگے۔ مصور کے توسط سے منٹو نے اپنی بے باک تحریروں سے فلمی صحافت کا ایک نیا باب رقم کیا اور بہت جلد فلمی دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔
اشتہار 
اسی دوران اُن کی ملاقات دلیپ کمار کے بڑے بھائی ایوب خان اور ’فلمی انڈیا‘ کے ایڈیٹر بابو راؤ پٹیل سے ہوئی جو اس زمانے میں فلمی صحافت کا ایک قد آور نام سمجھا جاتا تھا۔ بابو راؤ پٹیل کے توسط سے انھیں ایک فلم کمپنی میں فلمی کہانیوں کی نوک پلک سنوارنے اور مکالمے لکھنے کا کام مل گیا۔
اس طرح منٹو کا دیرینہ خواب، کہ وہ فلمی صنعت سے وابستہ ہو جائیں، پورا ہو گیا۔ منٹو کو جس پہلی فلم کے مکالمے لکھنے کا کام ملا وہ ’بن کی سندری‘ تھی۔ اس فلم کی ہیروئن عیدن بائی اور ہیرو راج کشور تھے۔

جب منٹو کی کہانی کسی اور کے نام سے چل گئی
فلموں کے مکالمے لکھنے کا کام آگے بڑھا تو منٹو سے کسی فلم کی کہانی لکھنے کی فرمائش بھی ہونے لگی۔ اسی زمانے میں امپیریل فلمی کمپنی کے اردشیر ایرانی نے ہندوستان کی پہلی رنگین فلم بنانے کا ارادہ کیا تو انھوں نے منٹو سے اس فلم کی کہانی لکھنے کی درخواست کی۔ منٹو نے اپنا ایک افسانہ ارد شیر ایرانی کو پیش کیا۔ اس افسانے کا نام ’کسان کنیا‘ تھا۔   

مگر ہوا یہ کہ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو فلم کے مصنف کے نام کے طور پر شانتی نکیتن کے فارسی کے پروفیسر ضیا الدین کا نام دیا گیا۔ کمپنی کے اس رویے پر منٹو کو بہت رنج ہوا اور انھوں نے شدید احتجاج کیا۔ اس احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ امپیریل فلم کمپنی نے نہ صرف یہ کہ منٹو کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا بلکہ بطور مصنف ان کی اگلی فلم ’مجھے پاپی کہو‘ انھیں کے نام سے پیش کی۔

نئی نسل کو منٹو میں دلچسپی کیوں ہے؟
غالب منٹو کی طوائف کی روشنی میں مجھے پاپی کہو‘ فلاپ ہو گئی، جس کے بعد امپیریل فلم کمپنی بند کر دی گئی۔ اب منٹو نے دوسرے فلمی اداروں کا رُخ کیا اور کئی دوسری فلموں کی کہانیاں تحریر کیں جن میں سروج مووی ٹون کی ’تو بڑا کہ میں بڑا‘ ، ’ہندوستان سنے ٹون کی‘، ’اپنی نگریا‘ اور مہرا پکچرز کی ’دیکھا جائے گا‘ شامل تھیں۔
یہیں ان کی ملاقاتیں ترقی پسند ادبی تحریک کے سرکردہ افراد سید سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، خواجہ احمد عباس اور وی شانتا رام وغیرہ سے ہوئی اور وہ اس تحریک سے وابستہ ہو گئے۔

منٹو دہلی میں سنہ 1941 میں منٹو دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ یہاں فلم سے یکسر ماحول تھا مگر منٹو نے اس دنیا میں بھی بہت جلد اپنا مقام بنا لیا۔ دہلی کے قیام کے دوران بھی منٹو نے فلمی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
یہیں انھوں نے مرزا غالب کی زندگی پر ایک فلم کا سکرپٹ لکھنا شروع کیا جو بعد میں راجندر سنگھ بیدی کے مکالموں کے ساتھ پردہ سکرین پر پیش ہوئی۔ سنہ 1942 میں منٹو واپس بمبئی آ گئے اور ایک مرتبہ پھر فلمی دنیا سے منسلک ہو گئے۔  

اس قیام بمبئی کے دوران منٹو نے جن فلموں کی کہانیاں لکھیں ان میں ’نوکر‘، ’چل چل رے نوجوان‘، ’بیگم اور شکاری‘، ’جھمکے‘ اور ’آٹھ دن‘ کے نام شامل ہیں۔
سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد منٹو لاہور آ گئے۔ وہ افسانہ نگاری بھی کرتے رہے اور فلمی کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ انھوں نے بہت سی فلمی شخصیات کے خاکے بھی لکھے جو اُن کے خاکوں کے مجموعوں ’گنجے فرشتے‘ اور ’لاؤڈ سپیکر‘ میں شامل ہیں۔ منٹو کے کئی افسانوں کو فلم کے پردے پر بھی منتقل کیا گیا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

منٹو کی زندگی پر مبنی فلم

سنہ 2012 میں سعادت حسن منٹو کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا گیا تو کئی فلم ساز منٹو کی زندگی پر مبنی فلم بنانے پرمتوجہ ہوئے۔ اس سلسلے میں پہل سرمد سلطان کھوسٹ نے کی۔ انھوں نے شاہد ندیم سے فلم کا سکرپٹ لکھنے کی درخواست کی اور جیو فلمز کے بینر تلے11 ستمبر 2015 کو منٹو کی زندگی پر بننے والی پہلی بائیوپک منٹو ریلیز کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس فلم میں منٹو کا مرکزی کردار بھی سرمد سلطان کھوسٹ نے ادا کیا۔ سرمد کھوسٹ کے علاوہ اس فلم میں ثانیہ سعید، صبا قمر، حنا خواجہ بیات، فیصل قریشی، ماہرہ خان، ہمایوں سعید، شمعون عباسی، سویرا ندیم اور نمرہ بچہ شامل تھے۔ اس فلم کی موسیقی جمال رحمن نے مرتب کی تھی۔
’منٹو‘ مجموعی طور پر ایک کامیاب فلم قرار پائی۔ اسے کئی ادبی میلوں میں بھی دکھایا گیا مگر ادبی حلقوں نے اس فلم کو بہت زیادہ نہیں سراہا۔ ادبی حلقوں کا کہنا تھا کہ فلم کی کہانی میں بہت زیادہ جھول ہیں۔
اس فلم میں منٹو کو شراب کا ایسا رسیا دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی دوا لینے نکلتا ہے تو ایک ناشر سے بڑے جتن سے تھوڑے بہت پیسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے مگر دوا کی بجائے شراب خرید لاتا ہے۔
فلم میں بغیر کسی جواز کے نور جہاں کے کردار کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے جس کا منٹو کی زندگی سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا، سوائے اس کے کہ منٹو نے اس کی شخصیت پر نور جہاں ، سرور جہاں کے نام سے ایک خاکہ لکھا تھا۔
البتہ ادبی ناقدین نے اس فلم میں شامل منٹو کے بعض افسانوں کی پیشکش کو بہت سراہا۔ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ اور ’ٹھنڈا گوشت‘ کو جس طرح اس فلم میں پیش کیا گیا شاید وہی اس فلم کی تھوڑی بہت کامیابی کا راز تھا۔

’منٹو کو موت ہوئی ہی کہاں ہے‘

تین برس بعد 21 ستمبر 2018 کو انڈیا میں مشہور ہدایت کارہ نندتا داس کی فلم منٹو بھی نمائش پزیر ہوئی۔ اس فلم میں منٹو کا مرکزی کردار نواز الدین صدیقی نے ادا کیا۔ یہ فلم انڈیا میں باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی جبکہ پاکستان میں اس فلم کو نمائش کی اجازت ہی نہیں ملی۔

باکس آفس پر ناکامی کے باوجود فلمی ناقدین نے اس فلم کو بڑا سراہا۔ اس فلم کا سکرپٹ پاکستانی فلم منٹو کے مقابلے میں بہت مضبوط تھا۔
ممتاز نقاد ناصر عباس نیئر نے اس فلم پر لکھے گئے ایک تبصرے میں اعتراف کیا کہ ’نندتا داس کی اس فلم سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فلم سازی کے آرٹ کا گہرا شعور رکھتی ہیں۔ کس سین کو کتنی دیر دکھانا ہے، مختلف سینز میں وقفوں کا اہتمام کیسے کرنا ہے اور ان کے درمیان تعلق کیسے قائم کرنا ہے، کس طرح کی موسیقی پس منظر میں جاری کرنی ہے، پارٹیشن اور بعد کے مناظر کو کیسے ان کی تاریخی سچائی کے ساتھ پیش کرنا ہے، کہاں منٹو کو اور کہاں اس کے کسی افسانے کے کسی ٹکڑے کی ڈرامائی تشکیل دکھانی ہے اس سب کا وہ گہرا ادراک رکھتی دکھائی دیتی ہیں۔‘
ناصر عباس نیئر نے مزید لکھا کہ ’فلم میں منٹو کی زندگی اور افسانوں کو مہارت سے جوڑا گیا ہے۔ فلم کے آخری حصے میں مینٹل ہسپتال لاہور میں منٹو کو دکھایا گیا ہے جہاں اسے انڈیا کے مشہور اداکار شیام کی حادثاتی موت کی خبر پڑھنے کو ملتی ہے اور وہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ کا افسانہ شروع ہوتا ہے۔‘
’فلم میں اس افسانے کے جن مکالموں کو پیش کیا گیا ہے ان میں معنویت آج بھی اسی طرح قائم ہے، بش سنگھ کی نومینز لینڈ پر موت کے منظر کے ساتھ ہی فلم ختم ہو جاتی ہے اور اپنے پیچھے سوالات کا ایک طویل سلسلہ چھوڑ جاتی ہے۔ منٹو کی موت نہیں دکھائی گئی، منٹو کو موت ہوئی ہی کہاں ہے۔‘

Advertisement
 سیکریٹری جنرل یو این کا اسحاق ڈار سے ٹیلی فونک رابط،تنازعات کے حل کیلئے عزم کا اعادہ

 سیکریٹری جنرل یو این کا اسحاق ڈار سے ٹیلی فونک رابط،تنازعات کے حل کیلئے عزم کا اعادہ

  • 6 گھنٹے قبل
جے یو آئی کا علی امین گنڈاپور پر وار: چند ماہ کا مہمان وزیراعلیٰ قرار دے دیا

جے یو آئی کا علی امین گنڈاپور پر وار: چند ماہ کا مہمان وزیراعلیٰ قرار دے دیا

  • 8 گھنٹے قبل
تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز پر لوٹنا ہوگا، اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں: طلال چوہدری

تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز پر لوٹنا ہوگا، اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں: طلال چوہدری

  • 8 گھنٹے قبل
محسن نقوی کی ایرانی وزیر داخلہ سے ملاقات،دو طرفہ تعلقات اور زائرین کے مسائل پر تبادلہ خیال

محسن نقوی کی ایرانی وزیر داخلہ سے ملاقات،دو طرفہ تعلقات اور زائرین کے مسائل پر تبادلہ خیال

  • 8 گھنٹے قبل
وفاقی حکومت کا ایف سی کو ملک گیر فیڈرل فورس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ

وفاقی حکومت کا ایف سی کو ملک گیر فیڈرل فورس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ

  • 8 گھنٹے قبل
ایرانی صدر مسعود پزشکیان اسرائیلی حملے میں زخمی، ترک میڈیا نے انکشاف کر دیا

ایرانی صدر مسعود پزشکیان اسرائیلی حملے میں زخمی، ترک میڈیا نے انکشاف کر دیا

  • 8 گھنٹے قبل
میرے بھائی کے خلاف الیکشن جیت کر دکھائیں،  علی امین کا فضل الرحمان کو چیلنج

میرے بھائی کے خلاف الیکشن جیت کر دکھائیں، علی امین کا فضل الرحمان کو چیلنج

  • 8 گھنٹے قبل
پاکستان، ازبکستان کے وزرائے خارجہ کا رابطہ؛ ریلوے منصوبے اور علاقائی تعاون پر گفتگو

پاکستان، ازبکستان کے وزرائے خارجہ کا رابطہ؛ ریلوے منصوبے اور علاقائی تعاون پر گفتگو

  • 8 گھنٹے قبل
پی ٹی آئی تحریک پر سوالات: عالیہ حمزہ  کا لاعلمی کا اظہار، قیادت سے وضاحت طلب

پی ٹی آئی تحریک پر سوالات: عالیہ حمزہ کا لاعلمی کا اظہار، قیادت سے وضاحت طلب

  • 8 گھنٹے قبل
رہنما تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم کے گھر پولیس کا چھاپہ

رہنما تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم کے گھر پولیس کا چھاپہ

  • 7 گھنٹے قبل
پولیس ایف آئی آر درج کرنے کی پابند ہے، انصاف کے دروازے بند نہ کیے جائیں: سپریم کورٹ

پولیس ایف آئی آر درج کرنے کی پابند ہے، انصاف کے دروازے بند نہ کیے جائیں: سپریم کورٹ

  • 8 گھنٹے قبل
26 ارکان کی معطلی کامعاملہ: اسپیکر پنجاب اسمبلی سے اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقات بے نتیجہ ختم

26 ارکان کی معطلی کامعاملہ: اسپیکر پنجاب اسمبلی سے اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقات بے نتیجہ ختم

  • 8 گھنٹے قبل
Advertisement