فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ماہر معاشیات اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ڈیوڈ لیبورڈ نے کہا کہ آج ہم 9 برس پہلے کے مقابلے میں بدترین صورتحال سے دوچار ہیں


اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ تنازعات، معاشی عدم استحکام اور شدید موسمی حالات کی وجہ سے گزشتہ سال 73 کروڑ 30 لاکھ افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق ’’اسٹیٹ آف فوڈ سکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان ورلڈ‘‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک دنیا سے بھوک کے خاتمے کا اقوام متحدہ کے ہدف کو اب حاصل کرنا مزید مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنگوں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور معاشی بحرانوں سے دنیا بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق شدید بھوک کا مسئلہ مزید گہرا ہو گیا ہے جبکہ غذائیت بخش کھانا بہت سے لوگوں کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں تقریباً 733 ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا یعنی عالمی سطح پر ہر 11 افراد میں سے ایک شخص بھوک کا شکار ہوا۔
تقریباً 29 فیصد آبادی کو مجبوراً کبھی کبھار کھانے کے بغیر ہی رہنا پڑتا ہے۔ اس میں بھی خطہ افریقہ میں صورتحال خاص طور پر سنگین رہی، جہاں ہر پانچ میں سے ایک شخص کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ سے وابستہ پانچ ایجنسیوں کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کو برازیل میں ہونے والی جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
اس میں تجویز پیش کی گئی کہ عالمی سطح پر بھوک کو کم کرنے کے لیے غذائی تحفظ اور غذائیت کی مالی اعانت میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر موجودہ رجحانات یونہی جاری رہے تو رواں دہائی کے آخر تک تقریباً 582 ملین افراد سخت ترین غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے، جن میں سے نصف افریقہ سے ہوں گے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ماہر معاشیات اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ڈیوڈ لیبورڈ نے کہا کہ آج ہم 9 برس پہلے کے مقابلے میں بدترین صورتحال سے دوچار ہیں، جب ہم نے 2030 تک بھوک مٹانے کا ہدف طے کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ میرے خیال میں اس سیارے پر رہنے سے متعلق ہم اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے اس سے بہتر کر سکتے ہیں ۔
اس رپورٹ کواقوام متحدہ کے 5 اداروں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ، یونیسیف، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے مشترکہ طور پر مرتب کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کے لیے صحت مند غذا ناقابل برداشت تھی۔
تازہ ترین اندازوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کم آمدن والے ممالک میں 71.5 فیصد افراد صحت مند غذا کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے تھے جبکہ زیادہ آمدن والے ممالک میں یہ شرح 6.3 فیصد تھی۔ رپورٹ کے مصنفین نے کہا ہے کہ فاقہ کشی کی صورتحال کی پہچان آسان ہے، تاہم طویل مدتی ناقص غذائیت کے اثرات بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
بالغوں میں طویل مدتی ناقص غذائیت سے انفیکشن اور بیماریوں کا زیادہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ڈیوڈ لیبورڈ نے کہا کہ غذائی تحفظ اور غذائیت کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی گئیں، اس کے مطابق چھوٹے پیمانے کے کاشتکاروں کو امداد فراہم کرنے کے ساتھ ہی دیہی علاقوں میں توانائی تک رسائی فراہم کرنا یکساں طور پر بہت اہم ہے، جس سے آب پاشی کا نظام بہت بہتر ہو سکتا ہے۔

پاک بحریہ کا اینٹی شپ بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ، صدر، وزیراعظم کی مبارکباد
- 18 گھنٹے قبل

فیض حمید کا کورٹ ماشل قانونی اور عدالتی عمل ہے،اس پر قیاس آرائیاں نہیں ہونی چاہئیں،آئی ایس پی آر
- ایک دن قبل

سیکیورٹی خدشات کے باعث اسرائیلی وزیراعظم نے بھارت کا دورہ منسوخ کردیا
- ایک دن قبل

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کی جی ایچ کیو آمد، فیلڈ مارشل سے الوداعی ملاقات
- 21 گھنٹے قبل

27 ویں ترمیم میں ہمیں نظر انداز کیا گیااسے مسترد کرتے ہیں،مولانا فضل الرحمان
- ایک دن قبل

انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف: الیکشن کمیشن نے وزیر اعلی سہیل آفریدی کیخلاف فیصلہ محفوظ کر لیا
- ایک دن قبل

کون سا صارف کس ملک سے اکاؤنٹ چلا رہا ہےِ؟ ایکس کے نئے فیچر سےمعلوم کرنا آسان ہوگیا
- ایک دن قبل

عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ، فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟
- ایک دن قبل

9 مئی مقدمات: بانی پی ٹی آئی اور اہلیہ اور بشریٰ بی بی کی ضمانتوں میں توسیع
- ایک دن قبل

ملک بھر میں خسرہ،روبیلا اور پولیو سے بچاؤ کی قومی ویکسی نیشن مہم جاری
- 21 گھنٹے قبل

آئی سی سی نے ٹی 20 ورلڈ کپ کے شیڈول کا اعلان کر دیا، پاک بھارت ٹاکرا کب ہو گا؟
- 19 گھنٹے قبل

پہلگام واقعہ کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم پر اقوام متحدہ کا اظہار تشویش
- ایک دن قبل










