پنجاب کی جھیلیں:پنجاب کے میدانی و پہاڑی علاقوں میں واقع جھیلوں کے بارے میں دلچسپ معلومات
کلرکہار، ایک قدیم علاقہ ہے جسے بابر نے سمرقند کا نام دیا تھا یہ نام کب تک رہا کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن کھارے پانی کی جھیل کی بدولت اس علاقے کو ''کلرکہار'' کا نام دیا گیا

ویب ڈیسک: سیاحت کے حوالے سے جھیل کا نام آتے ہی ہماری نظر شمال کی طرف اٹھ جاتی ہے جہاں دنیا کی چند حسین ترین جھیلیں موجود ہیں۔
خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان میں پاکستان کی بہت سی بڑی اور مشہور جھیلیں واقع ہیں جن میں کرومبر، ست پارہ، رش لیک، سیف الملوک، کٹورا، ماہوڈنڈ، دودی پت، آںسو، سنو لیک، خالطی، عطا آباد، شیوسر شامل ہیں۔ ریاست آزاد جموں کشمیر کی رتی گلی، زلزال، چٹا کھٹہ، بنجوسہ،سرل گٹیاں اور شاؤنٹر جھیلیں بھی سیاحت کی دنیا میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
جھیلوں کی اس کہکشاں میں میدانی علاقوں خصوصاً پنجاب کی جھیلیں کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں جن کا اپنا الگ حسن ہے۔
بہت سے لوگ بہت سے سیاح یا پھر بہت سے مسافر ایسے ہیں جن کی پنجاب پر نظر ہی نہیں پڑتی۔ جو پنجاب میں تین یا چار جھیلوں کے علاوہ کسی جھیل کو جانتے بھی نہیں۔ آج میں اپ کو پنجاب کی ایسی خوبصورت اور چھپی ہوئی جھیلوں کے بارے میں بتاؤں گا جو پنجاب کے میدانی پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔
سب سے پہلے جھیل کی تعریف سمجھ لیتے ہیں۔ خشکی سے گھرا،پانی کا ایسا بڑا ذخیرہ جو کسی بھی دریا یا سمندر سے الگ زمین کے نشیب میں جمع ہوتا ہے جھیل کہلاتا ہے۔ یہ ایک طاس یا آپس میں جڑے کئی طاسوں پر مشتمل ہو سکتا ہے جو تالاب سے زیادہ بڑا اور گہرا ہوتا ہے۔
کچھ جھیلوں میں پانی کی آمد و اخراج کے کئی راستے ہوتے ہیں جبکہ چند ایک ایسی بھی ہیں جن میں آمد بارش سے اور اخراج بخارات کے ذریعے ہوتا ہے۔
جھیلوں کی پھر آگے کئی اقسام ہوتی ہیں جیسے:
1) قدرتی و مصنوعی جھیلیں
2) میٹھے و کھارے پانی کی جھیلیں
3) بڑی و چھوٹی جھیلیں
4) پہاڑی، میدانی و صحرائی جھیلیں
5) شہابی جھیلیں (کرہ ارض سے ٹکراؤ کے نتیجے میں بننے والی جھیلیں)
6) قدیم اور نئی جھیلیں
صوبہ پنجاب میں بھی کئی جھیلیں موجود ہیں جن کی زیادہ تعداد پوٹھوہار اور کوہِ نمک میں پائی جاتی ہے۔ اس لیئے ہم پہلے پوٹھوہار کا رخ کریں گے۔
سب سے پہلے ہم شروع کریں گے پاکستان کے انتہائی خوبصورت ضلعع چکوال سے جس کو لیک ڈسٹرکٹ آف پنجاب یعنی پنجاب میں ''جھیلوں کا ضلع'' بھی کہا جاتا ہے۔ چکوال پوٹھوہار کا ایک اہم ضلع ہے جہاں پر کئی ندی نالے موجود ہیں ان ندی نالوں پر مختلف جگہوں پر ڈیمز بنائے گئے ہیں اور انہی ڈیمز کے ساتھ ہی وہاں پر جھیلیں بھی معرض وجود میں ائی ہیں۔
یہاں کلرکہار، دھرابی، کھنڈوعہ، لکھوال ڈیم جھیل، سنبل، سکی لیک، سٹون نیسٹ، ڈھوک ٹالہیاں، تھرپال ڈیم جھیل اور نیل واہن سمیت بہت سی چھوٹی بڑی جھیلیں اور تالاب بکھرے ہوئے ہیں۔ حکومت پنجاب اس ضلع میں واٹر اسپورٹس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ان جھیلوں کو ایک بہترین پکنک اسپاٹ بنایا جا سکے۔
تو چلیں چکوال کی جھیلوں سے شروع کرتے ہیں۔
کلرکہار جھیل:
لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے راستے میں کوہِ نمک کا خوبصورت علاقہ آتا ہے جہاں کلرکہار انٹرچینج سے اتر کے سامنے ایک جھیل نظر آتی ہے۔ یہ پنجاب کی سب سے مشہور اور آسان راستے والی جھیل کلرکہار ہے۔
کلرکہار، ایک قدیم علاقہ ہے جسے بابر نے سمرقند کا نام دیا تھا۔ یہ نام کب تک رہا کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن کھارے پانی کی جھیل کی بدولت اس علاقے کو ''کلرکہار'' کا نام دیا گیا۔

کلرکہار کی جھیل دو میل لمبی، ایک میل چوڑی اور چار فت تک گہری ہے۔ یہ نمکین پانی کی جھیل ہے جس میں بارشوں سمیت کچھ چشموں کا پانی بھی آتا ہے۔
یہاں ایک قصہ مشہور ہے کہ کسی دور میں جھیل کا پانی میٹھا ہوا کرتا تھا۔ ایک روز عورتیں جب اپنے گھڑے بھر رہی تھیں تو پاکپتن والے بابا فریدؒ یہاں پہنچے اور ان سے پینے کو پانی مانگا۔ کسی عورت نے جواب دیا کہ '' پانی کھارا ہے تو آپ کیسے پیئیں گے۔۔۔؟
بابا فریدؒ نے جواب دیا، ٹھیک ہے، پانی کھارا ہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلے گئے لیکن اس روز کلرکہار کے تمام گھڑوں میں پانی کھارا ہو چکا تھا۔ جھیل اس دن سے کھاری ہے۔
.webp)
کلرکہار میں موجود تاریخی و مذہبی مقامات جیسے تخت بابری، مزار حضرت آہو باہو سرکار، اور عجائب گھر تک جانے کے لیئے اسی جھیل کے کنارے ہو کر جانا پڑتا ہے۔ میں جب دو سال پہلے یہاں گیا تو جھیل میں لمبی لمبی جھاڑیاں اگ چکی تھیں اور کنارے پر کافی گند جمع تھا جس سے ایک عجیب بدبو پیدا ہو رہی تھی۔ اب سنا ہے جھیل کی صفائی کر دی گئی ہے۔
اسی کے سامنے ایک پہاڑی پر پنجاب ٹوارزم کا ایک ریزارٹ بنایا گیا ہے جہاں رہائش سمیت کھانا پینا اور چائے دستیاب ہیں۔ وہاں سے جھیل اور اس پر آئے پرندوں کا بہترین نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
سوایک/کھنڈوعہ لیک:
کلرکہار انٹرچینج سے ہی ایک چواسیدن شاہ روڈ دوسری جانب کو مڑتی ہے جس سے آگے جا کے کھنڈوعہ روڈ نکلتی ہے۔ یہاں ایک مقام پہ سڑک ختم ہوتی ہے، آپ اپنی سواری پارک کرتے ہیں اور جیپ کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد جیپ بھی آپ کو ایک جگہ اتار دیتی ہے۔
یہاں سے آپ کا پیدل ٹریک شروع ہوتا ہے جو کافی آسان ہے۔ چند منٹوں میں آپ پہاڑوں کے بیچ موجود تازہ پانی کی سبزی مائل جھیل کے سامنے ہوتے ہیں جسے مقامی طور پہ کھنڈوعہ جبکہ قومی سطح پر سوایک لیک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک قدرتی آبشار بھی ہے جو جھیل کے تازہ پانی کا ذریعہ ہے۔

چکوال کی یہ جھیل جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی گہری اور خطرناک بھی۔ اس کے کناروں پر سانپ اور کیکڑے بھی دیکھے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں فیملیز اور نوجوان پکنک کے لیئے یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ جھیل میں نہانے کے لیئے لائف جیکٹس بھی کرائے پر دستیاب ہیں۔
دھرابی لیک:
کلرکہار سے موٹروے پرسیدھا نکل جائیں تو بلکسر انٹرچینج کے دوسری جانب تھوا بہادر کے قریب ایک ذیلی سڑک آُپ کو خطہ پوٹھوہار کی ایک اور جھیل تک پہنچا دے گی۔
دھرابی جھیل، دریائے دھراب پر زرعی بند باندھ کر بنائی گئی ایک خوب صورت جھیل ہے جو دھرابی نامی قصبے کے پاس موٹروے کے بلکسر انٹرچینج سے صرف چار کلومیٹر دور ہے۔ دریائے دھراب، دریائے سواں کا ایک چھوٹا معاون دریا ہے جو آگے جا کر سواں کے ذریعے دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔
دھرابی ڈیم ریزروائر کو ضلع چکوال کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ کہا جاتا ہے جو ایک ناکام منصوبہ تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ ماحولیات پر خوش گوار اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس جھیل کے کنارے ٹی ڈی سی پی ریزارٹ بنایا گیا ہے جہاں پنجاب ٹوارزم کے زیرِ اہتمام مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔
اس جھیل کے قریب ہی چکوال کا مشہور سیاحتی مقام ''چکوال کینینز'' بھی موجود ہے۔ یہاں کا غروبِ آفتاب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔
سِکی، سٹون نیسٹ و سِمبل جھیل:
یہ دونوں تازہ پانی کی چھوٹی جھیلیں ہیں۔ سِکی جھیل تحصٰل چوآسیدن شاہ کے گاؤں آڑہ بشارت کے پاس پہاڑوں کے بیچ واقع ہے۔ آڑہ بشارت پہنچنے کے بعد چند کلومیٹر کا دشوار راستہ بائیک پہ طے کیا جا سکتا ہے لیکن ایک مخصوص مقام کے بعد آپ کو ایک کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑا ہے اور پھر یہ حسین جھیل آپ کو دیدار کرواتی ہے۔
.webp)
یہ جگہ قدرتی مناظر سے بھرپور ہے جہاں جھیل کا ٹھنڈا پانی، اس کے گرد سبزہ، پہاڑ اور پرسکون ماحول اسے مزید دلکش بناتے ہیں۔
سِکی جھیل سے کچھ آگے پتھروں کے بیچ، نیلے پانی کی ایک اور چھوٹی سی جھیل موجود ہے جسے چکوال سے میرے دوست فرحان راجہ نے ''سٹون نیسٹ جھیل'' کا نام دیا ہے کیونکہ یہ گھونسلہ نما جھیل پتھروں سے گھری ہوئی ہے۔ یہاں پر بھی بائیک سے پہنچا جا سکتا ہے۔
جبکہ سمبل جھیل کلرکہار کے قریب سمبل گاؤں کی حدود میں واقع ہے۔ سِمبل جھیل کو اسکے نیلگوں پانی اور ساخت کی وجہ سے پَرل (موتی) جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس جھیل کی گہرائی بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ چونکہ سمبل جھیل نجی ملکتی علاقے میں واقع ہے سو یہاں تک جانے کے لیئے اجازت لینی پڑتی ہے۔
چھوٹے ڈیموں کی جھیلیں:
پنجاب اور خصوصاً چکوال میں کئی سمال ڈیم بھی ہی جو سرکار نے علاقے کی زرعی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے بنائے تھے۔ ان میں سے کچھ ڈیم شہروں کو پینے کا پانی بھی سپلائی کرتے ہیں اور ان کی بھی خوبصورت جھیلیں ہیں۔ ان میں سے چند ایک جو سیاحتی لحاظ سے اہم ہیں درج ذیل ہیں:
ڈھوک ٹالیاں ڈیم جھیل:
یہ ڈیم چکوال کے جنوب میں ڈھوک ٹالیاں کے مقام پر واقع ہے جو 2001 میں تعمیر ہوا تھا۔ اسے دریائے بنہا پر بنایا گیا ہے جس سے فصلوں اور کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔ اس کی خوبصورت جھیل کنارے ٹوارزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کا ریزارٹ بھی واقع ہے جہاں سیاح چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ یہاں کشتی رانی کی سہولت بھی موجود ہے۔
بَن امیر خاتون ڈیم جھیل ؛ ڈھوک بَن امیر خاتون، چکوال کی ایک قدیم سائیٹ ہے جہاں ہونے والی محکمہ آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے کئی قدیم سکے، برتن، مورتیاں حتہ کہ ڈائینوسار کا فوسل بھی ملا ہے اور ابھی اس سائیٹ کی مزید کھدائی ہونا باقی ہے۔ یہ ضلع کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ہے۔
.webp)
قدرتی پہاڑیوں کے بیچ بنے اس ڈیم اور جھیل تک ایک پکی سڑک جاتی ہے۔ عمارت، بیٹھنے کی جگہ موجود ہے لیکن سٹاف نظر نہیں آتا۔ تھوڑی سی توجہ سے یہ جگہ اور زیادہ بہتر بنائی جا سکتی ہے۔
نِکہ ڈیم جھیل ؛ کلرکہار کے پاس نِکہ ندی پر بنایا گیا ہے جس کی جھیل بہت زیادہ بڑی نہیں ہے۔ اسے کلرکہار ڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں تک جانے کا راستہ بہت خوبصورت ہے لیکن یہاں کار پر جانے کی بجائے بائیک پر باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں فشنگ کی سہولت موجود ہے۔
کھوکھر زیر ڈیم جھیل ؛ یہ ڈیم چکوال شہر کی پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے جو چکوال کے جنوب میں کھوکھر زیر نامی قصبے کے ساتھ دریائے اُنہا پر تعمیر کیا گیا ہے۔اس کی خوبصورت جھیل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
لَکھوال ڈیم جھیل ؛ چکوال شہر کے شمال مغرب میں نیلہ روڈ پر بیس کلومیٹر دور۔ لکھوال کے مقام پر واقع اس ڈیم کی اپنی آبشار بھی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ آبشار چونکہ موسمی ہے اور ڈیم کے اوور فلو ہو جانے کے بعد دیکھی جا سکتی ہے سو برسات کے دن یہاں جانے کے بہترین دن ہیں لیکن اس کا نظارہ دور سے ہی کریں تو بہتر ہے وگرنہ پاؤں پھسلنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
اس کے آس پاس پہاڑ موجود نہیں ہیں جبکہ جھیل میں پانی کی آمد چند نالوں سے ہوتی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر کا مقصد تو اردگرد کے دیہاتوں کو پانی فراہم کرنا تھا لیکن یہ ناکام منصوبہ ثابت ہوا اور آج تک یہ زرعی زمین کو پانی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ یہ جھیل اب سیاحتی مقاصد کے لیئے استعمال ہو رہی ہے۔
چکوال میں اس کے علاوہ کوٹ راجہ جھیل، کھائی ڈیم جھیل، ماٹن جھیل شامل ہیں۔ یقیناً یہاں ایسی بھی کچھ جھیلیں ہوں گی جو اب تک منظرِعام پر نہیں آئی ہوں گی۔
جہاں کلرکہار کے ایک طرف چوآسیدن شاہ روڈ پر میں سویک جھیل، کٹاس کا تاریخی مندر اور کھیوڑہ نمک کی کانیں دیکھی جا سکتی ہیں وہیں اس کے دوسری جانب خوشاب روڈ اور نوشہرہ جابہ روڈ پر تین اور قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جن تک جانے والا راستہ انتہائی صبر آزما اور چولیں ہلا دینے والا ہے۔
یہ جھیلیں کلرکہار جھیل کی نسبت زیادہ بڑی اور خوبصورت ہیں اور ضلع خوشاب میں واقع ہیں۔
کھبیکی جھیل:
وادئ سون کی دوسری بڑی جھیل، کھبیکی نام کے گاؤں کے پاس نوشہرہ-جابہ روڈ کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ دو کلومیٹر چوڑی اور ایک کلومیٹر لمبی اس جھیل میں پہلے نمکین پانی ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ قدرے میٹھے پانی کی جھیل ہے ۔
یہ جھیل بھی باقی جھیلوں کی طرح ''اوچھالی ویٹ لینڈ'' کا حصہ ہے جسے رامسر کنوینشن کے تحت تحفظ حاصل ہے،یہ سائیبیریا سے آنے والے ہجرتی پرندوں کا بہت بڑا مسکن ہے۔

جھیل کے پسِ منظر میں کوہِ نمک کے خوبصورت پہاڑ دل کو چھو لینے والا منظر پیش کرتے ہیں۔ جھیل کے ایک کنارے پر ''ٹوارزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب'' کا ایک خوبصورت ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے جہاں تمام بنیادی ضروریات سمیت سائیکلنگ کی سہولت بھی میسر ہے۔ ریسٹ ہاؤس کے سامنے ایک خوبصورت ''واچ ٹاور'' بھی بنایا گیا ہے جہاں سے سیاح جھیل اور اس پر آنے والے مہمان پرندوں کا دلکش نظارہ آنکھوں میں قید کرنے کے ساتھ ساتھ کیمرے میں بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔
کچھ سال قبل جھیل کے کناروں اور اس تک جانے والے راستے کو پکا کر کے اس کے ایک طرف خوبصورت سائیکلنگ ٹریک بنایا گیا ہے جس پر روشنیوں کی ایک قظار اور بینچ بھی لگائے گئے ہیں جس سے یہ جگہ اب بہت بہتر تفریھی مقام بن چکی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
تحریر و تحقیق:ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری
نوٹ یہ مضمون کالم نگار کی ذاتی رائے اور تحقیق پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئٹہ: پولیس پارٹی پرمسلح افراد کی فائرنگ، جوابی کارروائی میں تین ملزمان مارے گئے
- ایک گھنٹہ قبل

لندن میں آج شب گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کیوں کردی جائیں گی ،مگر کیوں؟
- ایک گھنٹہ قبل

معروف امریکی جریدے فارن پالیسی نے پاکستان کو "خطے کا سفارتی فاتح" قرار دے دیا
- 5 گھنٹے قبل

بانی پی ٹی آئی کا ایکس اکاؤنٹ بند کرنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
- 5 گھنٹے قبل

صوبائی حکومت نے دفعہ 144 کے نفاذ میں ایک دفعہ پھر توسیع کر دی
- 2 گھنٹے قبل

برطانوی پاکستانی ماہرِ تعلیم سید زین عباس کا عالمی اعزاز، تعلیمی خدمات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری
- 3 گھنٹے قبل

مہنگے ٹماٹر کی قیمتوں میں نمایاں کمی، سبزی و فروٹ کی قیمتیں بے لگام
- 3 گھنٹے قبل

بلوچستان کی ترقی ملک کی مجموعی خوشحالی سے جڑی ہے،وزیر اعظم شہباز شریف
- 4 گھنٹے قبل
.webp&w=3840&q=75)
مسلسل پانچ دن کی کمی کے بعد سونا آج پھر مہنگا، فی تولہ کتنے کا ہو گیا؟
- 2 گھنٹے قبل

راولپنڈی :ڈینگی مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ،مزید 19 نئے کیسز رپورٹ
- 2 گھنٹے قبل

دشمن کی کسی بھی جارحیت کے خلاف پاک فوج اور عوام سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں گے،آئی ایس پی آر
- 4 گھنٹے قبل

تھائی لینڈ کی سابقہ ملکہ 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں
- ایک گھنٹہ قبل










