پنجاب کی جھیلیں:پنجاب کے میدانی و پہاڑی علاقوں میں واقع جھیلوں کے بارے میں دلچسپ معلومات
نمل جھیل کو 1913 میں برطانوی انجینیئروں نے ''سالٹ لیک ویٹ لینڈ کمپلیکس'' کے اہم حصے کے طور پر بنایا تھا جس کا مقصد میانوالی میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنا تھا

.webp&w=3840&q=75)
دوسری اور آخری قسط
پنجاب کے میدانی و پہاڑی علاقوں میں واقع جھیلوں کی دلچسپ معلومات
اُوچھالی جھیل:
ہجرتی پرندوں، دھند سے ڈھکے پانیوں اور سحر انگیز تصاویر کا کہیں ذکر آئے تو میرے ذہن میں اوچھالی کا نام خود بخود آ جاتا ہے۔
اوچھالی جھیل وادئ سون میں انگہ اور نوشہرہ کے پاس واقع ہے جس کا نام اسکے کنارے آباد ''اچھالی'' نام کے قصبے پر رکھا گیا ہے۔
اچھالی جھیل تک ٹوٹی پھوٹی سہی لیکن پختہ سڑک موجود ہے جو اچھالی سے نیم پختہ دو راستوں میں تبدیل ہو جاتی ہے، ایک راستہ امب شریف اور دوسرا سکیسر پہاڑ کی جانب جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کوہِ نمک پاکستان میں نمکین پانی کی جھیل ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے یہ جھیل وجود میں آئی تھی۔ پانی نمکین ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی جاندار نہیں پایا جاتا لیکن پھر بھی یہ جھیل اپنے اندر بلا کی کشش رکھتی ہے۔ پوٹھوہار کا سب سے اونچا پہاڑ ''سکیسر'' اسی جھیل کے قریب واقع ہے جسکی اونچائی 1522 میٹر ہے۔
اس جھیل کے کناروں پر پانی سبزی مائل ہے جہاں اس میں کئی اقسام کی خودرو جھاڑیاں، پودے اور الجی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس جھیل کی خوبصورتی اس کے اندر جاتی سڑک سے ہے جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے آگے جا کر یہ پکی سڑک بھی پانی میں غائب ہو جاتی ہے۔ اچھالی بھی یہاں کی باقی جھیلوں کی طرح سائیبیریا سے آنے والے ہجرتی پرندوں کی مہمان نوازی کرتی ہے۔ پرندوں کے شوقین اور فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیئے یہ ایک بہترین جگہ ہے۔
یہاں شکار پر مکمل پابندی عائد ہے۔ جھیل کی حالت زار بے توجہی کے باعث دگرگوں ہے البتہ مقامی طور پر یہاں کشتی رانی کی سہولت میسر ہے۔
جَھالر لیک:
وادی سون کے تمام مقامات میں سب سے دور اور ایک کونے میں واقع یہ جھیل تقریباً 148 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس کے تیزابی پانی میں کپڑے بغیر صابن کے دھوئے جا سکتے ہیں۔ اوچھالی کے جنوب میں مرکزی سڑک سے دور ہونے کی وجہ سے یہاں بہت کم لوگ آتے ہیں اس لیئے یہاں آپ کو ماحول صاف اور پُرسکون ملے گا۔

جھالر، مختلف چھوٹے چھوٹے چشموں اور بارش سے سیراب ہونے والی وادئ سون کی سب سے چھوٹی جھیل ہے۔ مگر یہ اپنے حجم سے زیادہ مہمان پرندوں کی مہمان نوازی کرتی ہے۔ سردیوں میں یہاں دور دور سے پرندے آتے ہیں جو گرمیوں تک یہیں بسیرا کرتے ہیں۔
ورلڈ وائلڈ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں صرف رینگنے والے جانوروں کی 35 اقسام موجود تھیں جو آبادی بڑھنے اور جھیل میں کیمیاٸ مادوں کی افراط کے ساتھ ساتھ گھٹتی چلی گئیں۔۔ یہاں اچھالی اور کھبیکی جھیل جیسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے شاید حکومت نے بھی اسے سوتیلا سمجھ رکھا ہے ؟؟نوشہرہ سے براستہ سُرکی آپ یہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔
نَمل جھیل:
اوچھالی جھیل کے شمال مغرب میں، وادئ نمل کے پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ جھیل نمل ڈیم کی وجہ سے معرضِ وجود میں آئی جو ضلع میانوالی کا ایک اہم ڈیم ہے۔ اس جھیل کو 1913 میں برطانوی انجینیئروں نے ''سالٹ لیک ویٹ لینڈ کمپلیکس'' کے اہم حصے کے طور پر بنایا تھا جس کا بنیادی مقصد میانوالی میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنا تھا۔ بارہ سو ایکڑ پر مشتمل نمل جھیل کی گہرائی لگ بھگ بیس فٹ ہے جسے کوہِ نمک کے برساتی نالوں اور چشموں کا پانی سیراب کرتا ہے۔
وادئ نمل ایک قدیم وادی ہے جو صدیوں سے آباد ہے جس کا ایک ثبوت جھیل کنارے پرانا قبرستان ہے۔ نمل یونیورسٹی کے قیام کے بعد اس علاقے کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس جھیل میں مچھلی سمیت مرغابیوں کا شکار بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پوٹھوہار کی دیگر جھیلوں کی طرح نمل بھی سائیبیرین ہجرتی پرندوں کی بڑی آماجگاہ ہے۔
چشمہ بیراج جھیل:
نمل کے جنوب مغرب میں کندیاں شہر کے پاس واقع یہ جھیل میانوالی اور پنجاب کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے جو دراصل دریائے سندھ پر واقع چشمہ بیراج کی جھیل ہے۔ 1971 میں تعمیر کیا جانے والا چشمہ بیراج، بجلی پیدا کرنے اور سیلاب سے بچاؤ کے لیئے بنایا گیا تھا۔
اس بیراج کی جھیل پاکستان میں تربیلا اور منگلا کے بعد پانی کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس جھیل کے کنارے واپڈا ریسٹ ہاؤس، چشمہ ریسٹ ہاؤس اور کئی ہوٹل موجود ہیں جہاں جھیل کی تازہ فرائی مچھلی دستیاب ہے۔ چشمہ جھیل اس علاقے کا بڑا پکنک سپاٹ ہے جہاں دریائے سندھ کے اُس پار خیبر پختونخواہ سے بھی لوگ گھومنے آتے ہیں۔
شاہ پور ڈیم جھیل:
ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ میں واقع شاہ پور ڈیم 1986 میں دریائے نندنہ پر بنایا گیا تھا۔ اس کا مقصد تو زرعی ضروریات کے لیئے پانی محفوظ کرنا تھا لیکن اس کی خوبصورتی اور نزدیک واقع پہاڑیوں کی بدولت اب یہ بہت بڑا پکنک سپاٹ بن چکا ہے جس کی جھیل کنارے کئی خاندان پکنک مناتے دیکھے جا سکتے ہیں،موسم اچھا ہو تو یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔
سِملی ڈیم جھیل:
سملی ڈیم راول پنڈٰی میں دریائے سواں پر بنایا گیا ہے جس کی جھیل کا کچھ حصۃ اسلام آباد کی حدود میں بھی واقع ہے۔ یہ اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
اگرچہ سملی ڈیم میں پانی کی آمد بارشوں سے مشروط ہے، لیکن سملی جھیل میں کئی نزدیکی علاقوں کے چھوٹے بڑے نالوں کا پانی بھی گرتا ہے۔
سملی ڈیم کی جھیل 265 فٹ گہری ہے اور اس میں 25لاکھ 80ہزار کیوبک گز پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ جھیل میں گنجائش سے زیادہ پانی آجانے کی صورت میں اس کے اخراج کے لیے اسپل وے بھی بنایا گیا۔ یہ جھیل بھی ایک بہترین سیاحتی مقام ہے کیونکہ اس کے پاس خوبصورت آبشاریں (بِسہ اور سملی) واقع ہیں۔
گیمن جھیل:
وزیرآباد کے شمال میں واقع پنجاب کی واحد جھیل جو جی ٹی روڈ سے بھی نظر آتی ہے۔ ''چناب کریک'' اور ''پلکھو سپِل'' کے نام سے مشہور یہ جھیل چناب اور نالہ پلکھو کے بیچ واقع ہے۔ اس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ شدید سیلاب کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی تھی جس کا نام گیمن کمپنی کے نام پر رکھا گیا۔ گیمن انڈیا لمیٹڈ، ہندوستان میں سول انجینئرنگ کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنیوں میں سے ایک تھی جسے 1922 میں قائم کیا گیا تھا۔ اسی کمپنی نے اس جگہ ریلوے کا پُل تعمیر کیا تھا جس کی بدولت یہی نام جھیل کو دیا گیا۔
اس جھیل کے بارے کئی کہانیاں مشہور ہیں جیسے اس کی گہرائی کا تعین آج تک نہیں ہو سکا، یہ زیرِ زمین شگاف پڑنے کی وجہ سے بنی تھی وغیرہ۔ کئی لوگ تو اسے جھیل ہی نہیں مانتے بلکہ نالہ پلکھو کی ہی بچھڑی ہوئی بہن سمجھتے ہیں۔ بارش کے پانی کے علاوہ یہاں صاف پانی کی آمد کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح سطح سمندر کے برابر ہونے کی بدولت، اخراج کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس جھیل پر دو پل موجود ہیں ایک ریلوے کا قدیم تاریخی پل، جبکہ دوسرا جرنیلی سڑک کا پُل ہے۔
ڈیمس جھیل:
یہ جھیل ضلع ڈیرہ غازی خان کے پُر فضا پہاڑی مقام فورٹ منرو میں واقع ہے جو وسیب کا سب سے مشہور اور اکلوتا ہِل اسٹیشن ہے۔
میرے نزدیک فورٹ منرو کا سب سے خوبصورت مقام یہی ڈیمس یا دماس جھیل ہے۔
یہاں ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن پنجاب (ٹی،ڈی،سی،پی) کے خوبصورت سے موٹیل کے عقب میں فورٹ منرو کی سب سے بڑی اور خوبصورت جھیل ”دماس“ اپنی دلکشی اور حُسن کے جلوے بکھیر رہی ہے۔
یہ قدرتی جھیل یہاں واقع تین جھیلوں میں سب سے بڑی ہے۔ نقشے پر ایک انسانی کی گردے کی سی شکل میں نظر آنے والی یہ جھیل سردیوں میں سکڑ جاتی ہے جبکہ برسات اور گرمیوں کے دنوں میں اس کا جوبن دیکھنے والا ہوتا ہے۔ یہاں موجود بقیہ دو جھیلوں کا نام تریموں اور لال خان جھیل ہے۔
گٹھ بیری جھیل:
ضلع رحیم یار خان کے جنوب مغرب میں اور صادق آباد سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر چولستان کی ویرانیوں میں نمکین پانی کی کئی جھیلیں موجود ہیں، جو دراصل دفاعی نکتہ نظر سے بناٸی گٸی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی جھیل گٹھ بیری کہلاتی ہے،یہاں ضلع بھر کا سیم کا پانی ڈالا جاتا ہے جو مختلف سیم نالے یہاں تک لاتے ہیں۔
ان کی بناوٹ اور خوبصورتی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان جھیلوں کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے اور ان کا سلسلہ شمال مشرقی سندھ تک پھیلا ہے۔ ان میں سے کچھ جھیلیں آپس میں ملی ہوٸی ہیں۔
بی بی کرم خاتون کا مزار بھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے لوگ یہاں برسات اور سردیوں میں پکنک منانے جاتے ہیں۔
پتیسر جھیل:
ضلع بہاولپور میں واقع لال سوہانرا نیشنل پارک جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے پارکوں میں شمار ہوتا ہے جسے اقوامِ متحدہ کے ذیلی اِدارے یونیسکو نے ایک ”حیاتی محفوظ ذخیرہ“ قرار دیا ہے۔ اس پارک کا ایک بڑا حصہ جھیلوں اور تالابوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک پتیسر جھیل ہے۔
.webp)
پارک کے بیچ موجود ''جھیل پتیسر'' پرندوں کا بہت بڑا مسکن ہے جسے 1960 کے رامسر کنونشن کے تحت صدر ایوب خان کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس جھیل کو بین الاقوامی ویٹ لینڈ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر محکمہ آبپاشی نے مسلسل پارک سے گزرنے والی نہر کے پانی کا کچھ حصہ جھیل کو فراہم کیا،تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جھیل کا حصہ کم ہوتا چلا گیا جس سے اس کا آبی ماحولیاتی نظام متاثر ہوا۔
جھیل کے سکڑنے کی بدولت یہاں سیاحوں کی آمد بھی کم ہو چکی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
پتیسر جھیل تاریخی طور پر اس خطے میں سائبیرین ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے ایک مستقل آرام گاہ کے طور پر کام کرتی رہی ہے لیکن اب اس کا وجود خطرے میں ہے۔ پتیسر کی بقاء کے لیئے اس کا پانی بحال کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
مہتابی جھیل:
یہ چھوٹی سی مصنوعی جھیل چھانگا مانگا پارک میں واقع ہے جو انسانی ہاتھوں سے لگایا گیا دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے۔ اس جھیل کو چاند کی شکل میں گول بنایا گیا ہے جس کی بدولت اسے مہتابی کہا جاتا ہے۔ یہ جھیل اور چھانگا مانگا، علاقے کا ایک بڑا تفریحی مقام ہے۔
اسی طرح کی ایک گول چھوٹی جھیل لاہور کے جلو پارک میں بھی موجود ہے۔
کِرانہ جھیل:
سال 2015 میں سکردو سے واپسی پر جب میں نے ایک دن سرگودھا میں قیام کیا تو مقامی دوستوں سے کوئی منفرد جگہ دکھانے کی فرمائش کی ۔
وہ مجھے سرگودھا کے مضافات میں ایک قدرتی اور خوبصورت جگہ لے گئے جہاں جہاں پیاری سی پہاڑیوں کے درمیان میں خوبصورت سی جھیلوں کا ایک سلسلہ تھا۔۔۔۔ بقول ان کے کہ یہ کرانہ کی پہاڑیاں ہیں سو اس جھیل کا نام بھی کرانہ جھیل ہی ہوا۔
یہ پہاڑیاں زیادہ بڑی نہیں تھیں لیکن وہاں کرشنگ زوروں پہ تھی۔ ہو سکتا ہے یہ پانی بھی اسی وجہ سے وہاں جمع ہو کیونکہ اس سلسلے کا کوٸی قدرتی ماخذ/منبع مجھے نہیں نظر آیا۔
پہاڑیوں کہ بیچ میں واقع یہ جھیلوں کا سلسلہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا جس کے بیچ بل کھاتا راستہ اسے اور دلکش بناتا تھا۔ اس وقت ہمارے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔

شنید ہے کہ کرشنگ کی بدولت اب پہاڑٰوں کم رہ گئی ہیں لیکن جھیل اب بھی وہیں موجود ہے۔
اسی طرح ایگل جھیل نام کی ایک چھوٹی جھیل شاہین آباد کے قریب کرانہ کی پہاڑیوں میں بھی ہے جس کا رقبہ اب کم ہو رہا ہے۔
اگرچہ پنجاب میں اس سے بھی زیادہ چھوٹی جھیلیں موجود ہیں (جیسے لاہور میں ماڈل ٹاؤن کی جھیل) لیکن یہاں پر چُنیدہ اور بڑی جھیلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پنجاب میں بہت سے چھوٹے ڈیمز موجود ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی جھیلیں ہیں لیکن وہ ابھی کمرشل نہیں ہوئیں۔
کچھ جھیلیں ایسی بھی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں اور ہماری نا اہلی کی بدولت خشک ہو چکی ہیں جن میں خان پور کی ڈھنڈ گاگڑی جھیل اور اوکاڑہ میں ستگھرہ کے پاس کھڑہل جھیل تھی جس کا مطلب ہے گہرا گڑھا۔
موجودہ جھیلوں کو بھی شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے جن سے متاثر ہو کر بیشتر جھیلیں اکثر خشک رہنے لگی ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں مزید آبی ذخیرے تعمیر کیئے جائیں اور جو پہلے سے موجود ہیں ان کے اردگرد کمرشل سرگرمیوں پر پابندی لگا کر ان کی حفاظت کی جائے تاکہ ہم اپنے آنے والی نسل کے لیئے بہتر ماحول چھوڑ کے جا سکیں۔
(چکوال کی جھیلوں کی تصاویر کے لیئے پیارے دوست فرحان راجہ کا شکریہ)
پہلی قسط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
https://gnnhd.tv/urdu/news/51446
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی تحقیق اور معلومات پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری

ویمنز ورلڈ کپ: جنوبی افریقا نے انگلینڈ کو 125 رنز سے شکست دے کر پہلی بار فائنل میں جگہ بنا لی
- 22 منٹ قبل

پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے چوہدری یاسین کو نامزد کر دیا
- 5 گھنٹے قبل

کرم میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 7 خوارج ہلاک، کیپٹن سمیت 6 جوان شہید
- ایک گھنٹہ قبل

روہت شرما کا منفرد اعزاز: ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنیوالے عمر رسیدہ بیٹر بن گئے
- 3 گھنٹے قبل

لیجنڈری انگلش بولر جیمز اینڈرسن کو ’سر‘ کے خطاب سے نواز دیا گیا
- 5 گھنٹے قبل

ٹک ٹاک کا بڑا اعلان: کریئیٹرز کو سبسکرپشن آمدنی کا 90 فیصد ملے گا
- 6 گھنٹے قبل

شہریوں کیلئے اچھی خبر،کراچی سمیت ملک بھر کیلئے بجلی سستی ہونے کا امکان
- 5 گھنٹے قبل

مذہب کی آڑ میں تشدد قبول نہیں، علمائے کرام رہنمائی کریں ، مریم نواز
- 4 گھنٹے قبل

اسحاق ڈار سے الجزائر کے وزیرِ خارجہ کاٹیلی فونک رابطہ ، باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ
- 2 گھنٹے قبل

فلسطینی جشن منا رہے تھے، یہاں ایک شرپسند جماعت اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کر رہی تھی،مریم نواز
- 5 گھنٹے قبل

سوڈان میں باغی فورس کا الفشر شہر پر قبضہ، 2 ہزار افراد ہلاک
- 3 گھنٹے قبل

نوتال کے قریب جعفر ایکسپریس پر راکٹ حملہ
- 3 گھنٹے قبل






.jpg&w=3840&q=75)





