جی این این سوشل

پاکستان

’چلو خود قصہ صاف کرتے ہیں‘

پر شائع ہوا

کی طرف سے

"چلو خود قصہ صاف کرتے ہیں۔"  3 دسمبر جمعتہ المبارک کے روز ان الفاظ کی گونج کے ساتھ سیالکوٹ میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ ایک مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پاداش میں ایک شخص کی جان لے لی۔

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان

 پہلے تو اسے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کیا، خونی انتقام کی آگ اس سے بھی نہ بھجھی تو مرنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی۔ جان سے جانے والا شخص ایک فیکٹری کا منیجر تھا اور اس کی جان لینے والے فیکٹری ملازم تھے۔ مقتول پریانتھا کمارا سری لنکن شہری تھا۔ جمعتہ المبارک ویسے تو ایک مقدس اور احترام والا دن ہے لیکن 3 دسمبر کی تاریخ کے ساتھ جڑا گزشتہ جمعہ، ان دنوں میں سے ایک دن ہے جو بطور قوم ہمارا سر شرم سے جھکاتا رہے گا۔ پھر سوچتا ہوں کہ ہماری قوم اب تک ایسے اتنے دن دیکھ چکی ہے۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ مستقبل میں ابھی اس طرح کے کتنے دلسوز اور بربریت پر مبنی واقعات سے ہمارا سر مزید کتنی بار اور کتنا سر جھکے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم واقعی کوئی قوم نہیں رہے؟ کیا اب ہم محض ایک ہجوم ہیں؟  اس دن جو ہوا اس کی دل دہلا دینے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بغیر کسی سنسر کے شیئر کی جاتی رہیں ہیں۔ مقامی صحافیوں اور عینی شاہدین نے اس دن کا جو احوال بتایا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ جمعہ کی  صبح سے فیکٹری میں افواہیں گرم تھیں کہ پریانتھا کمارا نے مبینہ طور پر مذہب کی توہین کی ہے۔ فیکٹری ملازمین نے اس بات پر احتجاج کیا، کئی لوگوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں، اسی دوران کوئی بولا کہ چلو خود قصہ صاف کرتے ہیں۔ بس پھر مشتعل ہجوم فیکٹری میں داخل ہوا اس کے بعد جو ہوا وہ دیکھنے کے قابل ہے نہ کسی طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ ہسپتال والوں کے مطابق ان تک انتہائی بری طرح جلی ہوئی لاش پہنچی جو تقریبا راکھ بن چکی تھی۔ سیالکوٹ میں اس سے پہلے بھی ایک افسوس ناک واقعہ پیش آچکا ہے، اگست 2010ء کی بات ہے جب سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں مشتعل ہجوم نے دو سگے بھائیوں کو ڈاکو قرار دے کر تشدد کرکے مار ڈالا تھا۔ بعد میں ان کی لاشیں چوک میں لٹکا دی گئیں تھیں۔ اس موقع پر پولیس اہلکار بھی وہاں پر موجود تھے۔ جبکہ مارے جانے والے مغیث اور منیب حافظ قرآن تھے۔  اپریل 2017ء میں مردان میں بھی کچھ ایسا ہی ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا، جب عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے طالب علم مشال خان کو قتل کیا گیا۔ مقتول پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ مشتعل طلبا اور دیگر افراد نے ہوسٹل میں اسے تشدد کے بعد جان سے مار دیا۔ اس واقعے کے بہت سے دردناک پہلو ہیں لیکن مشال کی والدہ کا یہ جملہ آج بھی دماغ میں گونجتا ہے کہ جب انہوں نے اپنے بیٹے کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی تو اس کی انگلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ مذہب انتہائی حساس معاملہ ہے اور مذہبی حوالے سے کسی بھی قسم کی گستاخی واقعی قابل برداشت نہیں ہوتی۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے محافظ نے مبینہ طور پر مذہبی توہین کرنے کے الزام میں قتل کردیا تھا۔ 2016ء میں سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو سزائے موت دی گئی، بعد میں ان کے جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اور ایک طویل عرصے تک یہ سوال موضوع بحث بنا رہا کہ ممتاز قادری کو قاتل کہا جائے یا ہیرو تسلیم کیا جائے؟ سوال یہ نہیں کہ ہیرو کون تھا سوال یہ ہے کہ دو لوگ جان سے گئے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایک ایسی ریاست ہے، جس میں مہذب زندگی گزارنے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، قوانین بناتے ہوئے اسلامی اصولوں اور مذہبی اقدار کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں اور انصاف مہیا کرنے کے لئے عدالتیں موجود ہیں۔ ان اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے تو ایسا دن دیکھنے کو شاید نہ ملے لیکن نہ جانے کیوں لوگ خود قصہ صاف کرنے والی سوچ کو پسند کرتے ہیں۔ برصغیر میں توہین مذہب کے قوانین انگریز نے 1860ء میں بنائے اور پھر 1927ء میں ان قوانین میں کچھ اضافہ ہوا۔ ان قوانین کا مقصد تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی تشدد کی روک تھام ہو۔ ان قوانین کے مطابق کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، بغیر اجازت کسی قبرستان میں جانا، کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا، کسی عبادت گاہ یا عبادت کی کسی چیز کی توہین کرنا جرم تھا۔ اس وقت ان جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔ پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں 1980ء اور 1986ء میں ان قوانین میں مزید شقیں شامل کی گئیں۔ 1980ء میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو جرم قرار دیا گیا اور تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔ 1982ء میں میں جان بوجھ کر قرآن کی بےحرمتی کی سزا پھانسی مقرر کر دی گئی۔ 1986ء میں پیغمبرِ اسلام کی توہین کی سزا بھی موت یا عمر قید رکھ مقرر کر دی گئی۔ ان میں سے اکثر قوانین کے تحت جب الزام عائد کیا جاتا ہے تو پولیس کو اختیار ہے کہ وہ کسی وارنٹ کے بغیر ملزم کو گرفتار کرسکتی ہے اور اپنی تحقیقات کا آغاز کرسکتی ہے۔ اس سب کے باوجود لوگ ہیں کہ خود ہی قصہ نمٹانے چل دیتے ہیں۔

مذہب، بلا شبہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس پر پاکستانیوں کی اکثریت جذباتی ہو جاتی ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور ان کی آل کے حوالے سے اپنی، اپنے ماں باپ اور اولاد کی جان اور مال کو قربان کرنا ہم اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور بلا شبہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارا مذہب، ہمیں اس طرح سے بغیر کسی مقدمہ کے، بغیر کسی سماعت کے، بغیر کسی ثبوت کے اور بغیر کسی گواہی کے، خود سے سب کچھ اخذ کرکے اس طرح سے وخشیانہ اور بربریت پر مشتمل سزا کا حق دیتا ہے؟ کیا ریاست پاکستان کسی بھی شہری کو توہین مذہب کے نام پر یوں مار دینے کا وزن برداشت کر سکتی ہے؟

 وزیراعظم عمران خان نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن قرار دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھناؤنا حملہ اور سری لنکن مینیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن ہے۔ میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور دوٹوک انداز میں واضح کر دوں کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی، گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔‘

آرمی چیف  جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے ماورائے عدالت اقدام قطعاً ناقابل قبول ہیں۔

قومی اسمبلی میں  قائد حزب اختلاف  شہباز شریف نے کہا ہے کہ یہ بہت اندوہناک واقعہ ہے۔ انھوں نے ذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز شریف نے ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ سیالکوٹ میں ہونے والے ’دل خراش واقعے نے دل چیر کر رکھ دیا‘۔

کیا یہ بیانات کافی ہیں یا اب اس سے آگے بھی کچھ ہونا چاہیئے؟ اگر ہم اس سارے عمل پر غور کریں تو میرے نزدیک یہ ریاست کی ناکامی ہے کہ اس نے ایک جنونی معاشرہ تشکیل دے دیا ہے جہاں اس قسم کے غیر انسانی واقعات ہو تے ہیں۔ اس قسم کے واقعات غیرمعمولی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس قسم کے ہجوم نے قانون کو کب کب اور کس کس طرح سے اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ قانون کی بالادستی شاید ایک خواب بن گئی ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ معاشرے میں قانون کا خوف بھی ختم ہو گیا ہے جس کی بنا پر اس طرح کے درندگی کے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قوم کے نام پر ایک ایسا ہجوم بن رہا ہے جو روز بروز مزید مشتعل ہوتا جارہا ہے۔

اس سے قبل یہ آرٹیکل روزنامہ دنیا میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔

پڑھنا جاری رکھیں

علاقائی

سیالکوٹ : صدر پاکستان آصف علی زرداری کی69ویں سالگرہ منائی گئی

صدر مملکت کی سالگرہ کے موقع پر مرکزی آفس این اے 72 میں شاندار آتش بازی بھی کی گئی

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ملک بھر کی طرح سیالکوٹ میں بھی صدر پاکستان آصف علی زرداری کی69ویں سالگرہ منائی گئی اور جیالوں نے کیک کاٹا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر راہنما چوہدری محمد عارف نے جیالوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں اپنے مرکزی آفس رنگ پور جٹاں میں صدر پاکستان آصف علی زرداری کی 69 ویں سالگرہ کے موقع پر کیک کاٹا اور ان کیلئے صحت و تندرستی اور درازی عمر کی دعائیں مانگی گئیں۔

صدر مملکت کی سالگرہ کے موقع پر مرکزی آفس این اے 72 میں شاندار آتش بازی بھی کی گئی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ملک میں نئے الیکشن کی کوئی ضرورت نہیں، حافظ نعیم

حافظ نعیم نے کہا کہ ایسی صورت میں جب فارم 45 جیسے شواہد موجود ہیں نئے انتخابات کی بات کرنے والا چاہیے وہ ن لیگ کا ہو

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

راولپنڈی: جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم نے کہا ہے کہ ملک میں نئے الیکشن کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ مطالبہ کرنے والا کسی کا ایجنٹ تو ہوسکتا ہے مگر ملک سے وفادار نہیں ہوسکتا۔


راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جماعت اسلامی کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ ملک میں فارم 47 والوں کو مسلط کردیا گیا ہے جس کے باعث حالات بہت خراب ہیں، بجلی کے بلوں کی وجہ سے آج بھائی بھائی کو قتل کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں نئے انتخابات کی بات ہورہی ہے مگر ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ جب فارم 45 موجود ہیں تو اس کے مطابق جس کو مینڈیٹ ملا اُسے حکومت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت فارم جب فارم 45 موجود ہیں تو اُس بنیاد پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور جسے مینڈیٹ عوام نے دیا اُسے حکومت دی جائے اور فارم 47 کے ذریعے مسلط کردہ لوگوں کو ہٹایا جائے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ ایسی صورت میں جب فارم 45 جیسے شواہد موجود ہیں نئے انتخابات کی بات کرنے والا چاہیے وہ ن لیگ کا ہو، پی پی کا یا پھر پی ٹی آئی وہ ایجنٹ ہوسکتا ہے اور ملک سے وفادار نہیں ہوسکتا کیونکہ نئے الیکشن میں پھر سے بندر بانٹ ہوگی اور پھر شور مچانے والے بھی اپنا شیئر مانگیں گے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

کسی صورت خیبر پختونخواہ میں آپریشن نہیں ہونے دیں گے ، علی امین گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ہمارے فیصلے ہم خود کریں گے کوئی دوسرا نہیں، شرپسندوں کےخلاف کارروائی ہماری پولیس کرے گی

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ امریکا کےغلاموں نے پختونوں پر غلط پالیسیاں تھوپیں، حکمرانوں کے تجربات سے ہمارا نقصان ہوا ہے۔ اپنے فیصلے خود کریں گے، حق مانگنے کے بجائے چھین لیں گے۔

بنوں میں امن مارچ کے شرکاء سے خطاب میں علی امین نے کہا کہ خیبرپختونخوامیں آپریشن نہیں ہونے دیں گے، ماضی میں آپریشن کی وجہ سے ہم خانہ بدوش بنے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آزاد کروانے میں پختونوں نے اہم کردارادا کیا، 65ء کی جنگ میں بھی پختونوں کا کرداراہم تھا، ہم نے ملک کے ساتھ تن، من، دھن سے وفاداری کی۔ قربانی دینا ہمارے خون میں ہے، ملک کیلئےہم قربانی دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے فیصلے ہم خود کریں گے کوئی دوسرا نہیں، شرپسندوں کےخلاف کارروائی ہماری پولیس کرے گی۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll