جی این این سوشل

پاکستان

سیاسی تعصب اور عوام

پر شائع ہوا

 زیادہ پرانی بات نہیں جب ملک میں مذہبی تعصب کو ایک اہم بیماری گردانا جاتا تھا، مذہب اور فرقے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی جان کے پیاسے تھے اور اب بھی ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے مذہبی تعصب کی جگہ اب سیاسی تعصب نے لے لی ہے ۔

سید محمود شیرازی Profile سید محمود شیرازی

 لوگ اب سیاسی تعصب اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ایسے ہی ہیں جیسے کسی زمانے میں مذہبی تعصب کی وجہ سے ہوتے تھے۔ جیسے ماضی میں کہا جاتا تھا کہ فلاں فرقے والوں سے دوستی نہیں کرنی یا ان کے گھر سے کوئی چیز آئے تو وہ لے کر نہیں کھانی اور ان کے دکھ سکھ میں شریک نہیں ہونا کیوں کہ وہ ہمارے فرقے سے نہیں ہیں اسی طرح اب سیاسی جماعت اور اس سے جڑے تعصب نے لے لی ہے۔ اب کسی سے اختلاف ظاہر کرنا ہو تو ساتھ میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس کا تعلق فلاں سیاسی جماعت سے ہے یعنی اختلاف کو گہرا کرنے کیلئے اب سیاسی جماعت سے تعلق بھی استعمال ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ اچھے بھلے دوست صرف سیاسی تعلق داری کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں۔ کسی کا تعلق اگر مسلم لیگ ن سے ہے تو پی ٹی آئی والے اس سے کچھے کچھے رہتے ہیں اور یہی حال ن لیگ سے وابستہ لوگوں کا ہے وہ پی ٹی آئی سے وابستہ افراد کو یوتھیا کہہ کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔ سیاسی ماہرین اس نئے سیاسی تعصب کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے بھی جوڑتے ہیں کہ جب سے انہوں نے سیاست میں عروج حاصل کیا ہے اس کے بعد سے تعصب پروان چڑھا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی تعصب عمران خان کے آنے کے بعد واضح ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ جو ایک عرصے سے اقتدار میں باری سسٹم رائج کئے ہوئے تھیں ان کو جب چیلنج کرنے کیلئے عمران خان میدان میں آیا تو ان دونوں جماعتوں سے وابستہ لوگوں نے پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کے ساتھ تعصب برتنا شروع کر دیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جس طرح عمران خان نے اپنے سیاسی حریفوں کو لتاڑا ہے، ان کے نام بگاڑے ہیں اس کی وجہ سے ان کی اس جماعت کے ساتھ نفرت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ روایتی سیاست کرنے والی ن لیگ اور پیپلز پارٹی جو ماضی میں ایک دوسرے کی سخت حریف رہی ہیں ایک ساتھ مل گئیں ہیں تو عمران خان کا یہ بیانیہ سچ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اپنے مفادات کیلئے ایک ہو جاتے ہیں اس لئے یہ عمران خان کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن یہ بڑھتا ہوا سیاسی تعصب ہمارے معاشرے کیلئے درست نہیں ہے جہاں پہلے سے ہی بہت سے اختلافات موجود ہیں۔

صوبائی تعصب، لسانی تعصب، قومی تعصب، مذہبی تعصب، برادری تعصب اور اب سیاسی تعصب بھی اس میں شامل ہو کر مزید تفریق کا ہی باعث بن رہا ہے۔اختلاف رائے معاشرے کا حسن ہوتا ہے لیکن جہاں اختلاف رائے ذاتی دشمنی میں بدل جائے تو وہ معاشرے کیلئے زہر قاتل بھی بن جاتا ہے۔یہ سیاسی تعصب ہی کی ایک بڑی مثال ہے کہ مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی نے شیخ رشید کی وگ اتارنے والے کو پچاس ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے(اور شیخ رشید کی بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں اخلاق سے گری گفتگو بھی اسی زمرے میں آتی ہے)۔دونوں ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں لیکن اس طرح کے اعلانات اور بیانات سے اثرات کارکنان کی سطح تک پہنچتے ہیں جو تفریق کا بڑا باعث بنتے ہیں۔ اب تو رشتے کرتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ جہاں بچوں کے رشتے کئے جارہے ہیں ان کے سیاسی خیالات کیسے ہیں ، کہیں وہ مخالف نظریات کی سیاسی جماعت سے وابستہ تو نہیں ہیں۔ہمارے ہاں جہاں بھی دو افراد گفتگو کر رہے ہوں گے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کی گفتگو سیاسی رخ اختیار نہ کرے یعنی گفتگو کوئی بھی ہو چاہے مذہبی ہو، گھریلو ہو ، معاشی یا ذاتی ہو گھوم گھما کر وہ سیاست کی جانب چلی ہی جاتی ہے جو بعد میں اختلاف کا باعث بھی بنتی ہے۔ عوام جو اپنے لیڈروں کیلئے ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور یہ سیاسی لیڈر عوام کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اس کا مشاہدہ کسی بھی جلسے کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی رہنما جلسے جلوسوں کے بعد صرف یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہمارے جلسے میں اتنے بندے آئے ہمارے جلسے میں کرسیاں نظر ہی نہیں آ رہی تھیں، ہمارے جلسے میں انسانوں کا سمندر تھا، ہمارے جلسے میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی یعنی عوام صرف جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے کیلئے ہی رہ گئی ہے۔ اس لئے جن سیاسی جماعتوں یا رہنماؤں کے پیچھے لگ کر عوام ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو رہی ہے یا ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کی روا دار نہیں ہے وہ پارلیمنٹ میں ایک ہی جگہ بیٹھتے ہیں، آپس میں گفتگو کرتے ہیں اور آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔ سب سے بڑی مثال تو آج کل فرح  خان عرف گوگی کی ہے جو مسلم لیگ ن کے رہنما قبال گجر کی بہو ہیں اور ن لیگ والے آج کل اپنے جلسے جلوسوں میں سب ے زیادہ گوگی کو ہی رگیدتے ہیں۔اسی طرح زبیر عمر اور اسد عمر بھائی ہیں اور الگ الگ جماعتوں میں ہیں،چوہدری پروزی الہٰی کا آدھا خاندان شہباز شریف کی حکومت کا حامی اور وہ عمران خان کے ساتھ ہیں،  حمزہ شہباز کی بیوی تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر مراد راس کی بہن ہیں یعنی یہ سیاسی لوگ اتنی ”گاڑھی“ رشتہ داریوں کے ہوتے ہوئے الگ الگ پارٹیوں میں رہ کر ایک دوسرے سے گندھے ہوئے ہیں تو عوام کو بھی سیاسی تعصب کو نظر انداز کر کے ان کی طرح زندگی گزارنے کا فن سیکھنا ہو گا۔

نوٹ : تحریر لکھاری  کا ذاتی نقطہ نظر ہے ، ادارہ کا تحریر  سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

کسی صورت خیبر پختونخواہ میں آپریشن نہیں ہونے دیں گے ، علی امین گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ہمارے فیصلے ہم خود کریں گے کوئی دوسرا نہیں، شرپسندوں کےخلاف کارروائی ہماری پولیس کرے گی

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ امریکا کےغلاموں نے پختونوں پر غلط پالیسیاں تھوپیں، حکمرانوں کے تجربات سے ہمارا نقصان ہوا ہے۔ اپنے فیصلے خود کریں گے، حق مانگنے کے بجائے چھین لیں گے۔

بنوں میں امن مارچ کے شرکاء سے خطاب میں علی امین نے کہا کہ خیبرپختونخوامیں آپریشن نہیں ہونے دیں گے، ماضی میں آپریشن کی وجہ سے ہم خانہ بدوش بنے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آزاد کروانے میں پختونوں نے اہم کردارادا کیا، 65ء کی جنگ میں بھی پختونوں کا کرداراہم تھا، ہم نے ملک کے ساتھ تن، من، دھن سے وفاداری کی۔ قربانی دینا ہمارے خون میں ہے، ملک کیلئےہم قربانی دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے فیصلے ہم خود کریں گے کوئی دوسرا نہیں، شرپسندوں کےخلاف کارروائی ہماری پولیس کرے گی۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

علاقائی

سیالکوٹ : صدر پاکستان آصف علی زرداری کی69ویں سالگرہ منائی گئی

صدر مملکت کی سالگرہ کے موقع پر مرکزی آفس این اے 72 میں شاندار آتش بازی بھی کی گئی

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ملک بھر کی طرح سیالکوٹ میں بھی صدر پاکستان آصف علی زرداری کی69ویں سالگرہ منائی گئی اور جیالوں نے کیک کاٹا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر راہنما چوہدری محمد عارف نے جیالوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں اپنے مرکزی آفس رنگ پور جٹاں میں صدر پاکستان آصف علی زرداری کی 69 ویں سالگرہ کے موقع پر کیک کاٹا اور ان کیلئے صحت و تندرستی اور درازی عمر کی دعائیں مانگی گئیں۔

صدر مملکت کی سالگرہ کے موقع پر مرکزی آفس این اے 72 میں شاندار آتش بازی بھی کی گئی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

جماعت اسلامی سے بات چیت کیلئے تین رکنی کمیٹی قائم

انہوں نے کہاکہ حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت سے بات چیت کیلئے امیرمقام ، طارق فضل چوہدری اور خود ان پرمشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیر اطلاعات ونشریات عطاء اﷲ تارڑ نے جماعت اسلامی کو پیش کش کی ہے کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے حکومت سے مذاکرات کرے۔

انہوں نے آج(جمعہ) کی شام اسلام آباد میں وفاقی وزیر امیرمقام کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جماعت اسلامی کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ریلی یا دھرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام آباد کی جانب بڑھنے پرمُصر ہونا سمجھ سے بالاتر ہے ۔

وفاقی وزیر نے کہاکہ حکومت جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان اوران کی ٹیم کے تحفظات سننے کیلئے ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہے ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت سے بات چیت کیلئے امیرمقام ، طارق فضل چوہدری اور خود ان پرمشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے ۔

 خیبرپختونخوا میں عزم استحکام مہم سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے امیر مقام نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اور اپیکس کمیٹی نے بالکل واضح الفاظ میں کہا کہ یہ کوئی فوجی کارروائی نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ قومی لائحہ عمل میں قوم کی جانب سے شروع کی گئی انسداد دہشت گردی مہم کا تسلسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی قیادت کرے گی اور ایف سی پولیس سے تعاون کرے گی تاہم ضرورت پڑنے پر فوج سرحدی علاقوں میں کارروائی کر ے گی۔

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نوجوانوں کی تربیت کیلئے جعلی ادارے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس ادارے کے پاس طلبہ کو مستند اور قابل قبول سر ٹیفکیٹ دینے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll