علاقائی

خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود لاکھوں بچے  سکولوں سے باہر کیوں؟

خیبر پختونخوا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 47  لاکھ سے تجاوز کر گئی

GNN Web Desk
شائع شدہ 3 ماہ قبل پر ستمبر 12 2024، 3:44 شام
ویب ڈیسک کے ذریعے
خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود لاکھوں بچے  سکولوں سے باہر کیوں؟

خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود لاکھوں بچے  سکولوں سے باہر کیوں ہیں، صوبے میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 47  لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

دور جدید میں جہاں دیگر ممالک کے بچے تعلیمی میدان میں کچھ الگ کر دکھانے کی ضد میں لگے ہیں، نئی ایجادات کی طرف بڑھ رہے ہیں، تو وہی پاکستان بلخصوص  خیبرپختونخوا میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد تعلیم کی پہلی سیڑھی ہی نہ چڑھ سکی اور اسکولوں سے کوسوں دور ہیں۔ بینظیر انکم  سپورٹ پروگرام کے سروے کے مطابق خیبرپختونخوا کے 39 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہے  جس کی کل تعداد 47 لاکھ سے زیادہ بنتی ہے، جن میں ضم اضلاع کے 12 لاکھ بچے بھی شامل ہیں ۔ 

پاکستانی بچوں کے ساتھ  خیبرپختونخوا میں مقیم افغان بچوں کی  ایک بہت بڑی تعداد بھی اس وقت سکولوں سے باہر ہے۔ افغان کمشنریٹ کے پاس موجود ڈیٹا کے مطابق اس وقت  خیبرپختونخوا میں 14 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین رہائیش پزیر ہے۔ اس آبادی کے 80 فیصد بچے سکولوں سے باہر جبکہ باقیہ 20 فیصد نجی سکولز میں  زیر تعلیم ہے۔ محکمہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم دعویٰ کرتی ہے کہ انرولمنٹ ڈرائیو میں افغان طلباء کا بھی باآسانی سرکاری سکولوں میں داخلہ کرایا  جسکے گا۔   

پشاور میں رہائش پزیر افغان شہری عبدالوہاب نے اس حوالے  سے بات کرتے ہوئے جی این این کو بتایا کہ میرے نے بیٹے نے  4 سال  نجی سکول میں بہترین تعلیم حاصل کی جس کے بعد مجھے  کاروبار میں نقصان ہوا اور میں نے بیٹے کو سرکاری سکول میں داخل کرایا کیونکہ نجی اسکول کے  خرچے پورے کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا، لیکن بچے کو سرکاری اسکول میں داخل کرانا انتہائی مشکل تھا۔  ایسے میرے کئی افغان دوست ہے جن کے بچے سرکاری اسکولوں میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے رہ گئے ہیں۔

انسانی حقوق اور بچوں کے تخفط کے لئے کام کرنے والی سماجی شخصیت عمران ٹکر نے شرح نا خونداگی میں اضافے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی بد حالی ہے۔ آبادی میں اضافہ بھی ایسی کا جز ہے، پالیسی میں تسلسل کا فقدان بھی ایک اہم وجہ ہے۔ قانون کے مطابق  5 سے 16 سال کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن کوئی بھی ادارہ اس پر عمل پیراں ہوتے دور دور تک نظر نہیں آتا۔

حکومت خیبرپختونخوا کی  جانب سے ان بچوں کی سکولوں تک رسائی کے لئے  "علم  ٹولو دپارہ " کے نام سے ایک داخلہ مہم کا آغاز کیا گیا ۔ جس میں  مختلف طریقہ کار کےذریعے  بچوں کے والدین کو پڑھائی کی اہمیت کےحوالے سے آگاہ کرکے  بچوں کا سکولوں میں داخلہ کرایا جاتا ہےـ محکمہ  ابتدائی اور ثانوی تعلیم  کے اعداد و شمار کے مطابق  داخلہ مہم کے پہلے مرحلے میں  11  لاکھ  87 ہزار 740 بچوں کا سکولوں میں  داخلہ کرایاگیا، جس میں 7 لاکھ  59 ہزار 140 بچے سرکاری سکولوں میں، 3 لاکھ 49 ہزار 11 بچے نجی سکولوں میں، 70 ہزار  39 بچے کمیونیٹی  سکولز میں  جبکہ 45 سو بچیں ضم اضلاع مکے سکولوں داخل کرائے گئے۔ 

جی این این سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر برائے ابتدائی اور ثانوی تعلیم  خیبرپختونخوا  فیصل خان ترکئ کا کہنا تھا کہ داخلہ مہم کے پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد اب دوسرے مرحلے کا آغاز کیا گیا ہے جس میں یکم ستمبر سے لے کر 30 ستمبر تک پورے صوبے سے 3 لاکھ بچوں کا سکولوں میں داخل کرانے کا ہدف رکھا گیا ہےـ

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نےجاتے جاتے تعلیم کے محکمے کوقرضے  کے دلدل میں  پھنسا دیا تھاـ حکومت میں آتے ہی سب سے پہلے محکمے کے ذمے وجب الادا رقم واپس کرنے پر توجہ دی ہے- اس وقت ضم اضلاع کے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں چونکہ ان اضلاع کے سکولوں سے باہر 12 لاکھ بچوں کی تعداد  70 فیصد لڑکیوں پر مشتمل ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کو بہترین تعلیمی سہولیات فراہم کرکے سکولوں تک لائے ـ 

 محکمہ تعلیم کے حکام نے موقف اپنایا کہ خیبرپختونخوا کے تمام تر سرکاری سکولوں میں افغانی اور پاکستانی  بچوں کے ساتھ ایک جیسا ہی برتاؤ کیا جاتا ہے۔ تعیم کے میدان میں کوئی بھی افغانی یا پاکستانی نہیں۔ ہمار ا فرض ہے کہ بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرے اور اس کے لئے محکمہ تعلیم نے مختلف کمیونٹی سکولز بھی شروع  کئے ہیں۔ جہاں بھی افغانی  طلباء کے ساتھ  امتیازی سلوک کیا گیا ہو وہاں کے انتظامیہ کے خلاف کاروائی کی جائیگی لیکن تاحال ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

(رپورٹ: علشبہ خٹک  جی این این پشاور)