جی این این سوشل

پاکستان

حکومت، اپوزیشن اور عوام!!

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی جو "واردات" جمعہ کو رات گئے ڈالی گئی اس پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، یہ اضافہ یکم نومبر کو ٹال دیا گیا تھا لیکن تین اور چار نومبر کی درمیانی رات واردات ڈال دی گئی۔

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان

پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی جو "واردات" جمعہ کو رات گئے ڈالی گئی اس پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، یہ اضافہ یکم نومبر کو ٹال دیا گیا تھا  لیکن تین اور چار نومبر کی درمیانی رات واردات ڈال دی گئی، اس کو بار بار واردات اس لیے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ  ایک معمول کا فیصلہ تھا جو دن کی روشنی میں ہونا چاہئے تھا لیکن رات دو بجے خبر بریک کی گئی اور عوام  صبح نیند سے بیدار ہوئے تو  انہیں پٹرول بم  گرنے کا علم ہوا۔ 

اب قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ مہنگائی پر پچھلے ہفتے لکھا کالم بھی پرانا لگتا ہے اور بار بار کا یہ رونا بوریت کا باعث بن رہا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کے علاوہ بجلی کے نرخ بھی بڑھا دیئے گئے ہیں۔  بجلی کی بنیادی قیمتوں میں 1 روپیہ 68 پیسے فی یونٹ تک اضافہ کر دیا گیا۔ کمرشل و صنعتی صارفین کیلئے 1 روپیہ 39 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ۔300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 13 روپے 83 پیسے فی یونٹ ہو گئی۔حکومت کا خیال ہے کہ 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والا گھرانہ خوشحال ہوتا ہے اور وہ نرخوں میں اضافے کا متحمل ہے، اگر یہ درست ہے تو اس پر بات کرنا بھی فضول ہوگا۔ 

مہنگائی کی خبروں تلے دبے عوام کی طرح جمعہ کے روز کی سب سے اہم خبر بھی دب گئی اور یہ خبر تھی ، ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ، یہ رپورٹ چشم کشا ہے اور  "صاف چلی شفاف چلی" والی تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سب سے بڑی چارج شیٹ ہے۔  

الیکشن کمیشن آف پاکستان  نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی الیکشن سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں منظم دھاندلی کا سراغ لگایا ہے، پانچ سال تک اپوزیشن میں رہ کر 35 پنکچر کا راگ الاپنے اور دھرنوں سے نظام حکومت کو مفلوج کرنے والے جب خود اقتدار میں آئے تو خود کیا کرتے اور سوچتے ہیں، اس رپورٹ نے سب سچ سامنے رکھ دیا۔ یہ رپورٹ صرف دھاندلی آشکار کرنے تک محدود نہیں رکھی جا سکتی بلکہ یہ ایک فوجداری معاملہ ہے، کئی ایک نام اس رپورٹ میں لکھے گئے ہیں لیکن اس منظم دھاندلی کا کھرا تلاش کرنا ہوگا، کوئی بھی ڈسٹرکٹ افسر کسی مشیر اطلاعات کے کہنے پر اتنی منظم دھاندلی کا منصوبہ نہیں بنا سکتا اور اس رپورٹ کے مطابق تو محکمہ تعلیم، پولیس اور ضلعی انتظامیہ ، یعنی پوری سرکاری مشینری اس دھاندلی میں استعمال ہوئی، اس رپورٹ کی روشنی میں سابق معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب فردوس عاشق اعوان کو حکومتی شخصیت کے طور پر دھاندلی کا منصوبہ ساز اور اس پر مکمل عمل درآمد کا  اکیلے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی  تحقیقات میں اس انتخابی عمل میں براہ راست شریک افراد کے متعلق بات کی گئی ہے اور اس کا دائرہ کار بھی یہیں تک تھا لیکن اس رپورٹ کی بنیاد پر فوجداری کارروائی شروع کرکے اس سے بڑے ملزموں کی نشاندہی لازمی ہے۔

اس رپورٹ کو پڑھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرپشن کے خاتمے کا مشن لے کر آنے والوں نے تمام سرکاری مشینری کو ہی کرپٹ کردیا؟ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز، پریزائیڈنگ افسر، محکمہ تعلیم کے کئی افسر اور پھر پولیس افسروں کی ایک فوج، ان سب کو اکیلے کوئی ایک مینج نہیں کر سکتا تھا، 17 پریزائیڈنگ افسروں کی طرف سے ایک ہی شخص کے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط، پولیس کے ایس ایچ اوز کس طرح سے الیکشن مینجز بنے رہے، پولنگ سٹیشنوں پر تعینات پولیس اہلکار سکیورٹی کے بجائے پریزائیڈنگ افسروں کے اغوا کا کام کرتے رہے، ریٹرننگ افسر اور ڈپٹی ریٹرننگ افسر کی لا علمی،  اس دھاندلی میں کتنے ہی عوامل اور کردار ہیں، پرت در پرت کہانی کھلتی چلی جاتی ہے۔

اپوزیشن کا کردار نبھاتے ہوئے یہی تحریک  انصاف دوسروں کو بیلٹ باکس چور کہتی تھی، یہاں تو پورے کا پورا الیکشن ہی منصوبے کے تحت چوری کیا گیا، 35 پنکچروں کی کہانی سنانے والوں نے ماضی میں 4 حلقے اس اعتماد پر کھلوائے تھے کہ منظم دھاندلی ثابت ہو جائے گی اور حکومت دھڑام سے نیچے آ گری گی لیکن اب ان کی اپنی منظم دھاندلی ثابت ہو گئی ہے، دوسروں کو  "بکسہ چور" کہنے والے، کیا اب خود احتسابی کے لیے تیار ہیں؟۔

 ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اپوزیشن کے تحفظات اس رپورٹ کے بعد سچ ثابت ہوتے نظر آتے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات چھیننے کا جو منصوبہ تھا، اس رپورٹ نے حکومتی عزائم کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔  اپوزیشن اور اداروں کو بلڈوز کرکے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو لانے پر اصرار کرنے والوں پر اب کون اعتبار کرے گا؟ ۔  

چار پانچ ہفتوں سے ملک میں جو سیاسی اور انتظامی ہڑبونگ مچی ہے اس سے مجھے یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی " خودکش مشن" پر ہے، پہلے ایک حساس ادارے میں معمول کی تقرری پر بے وجہ لڑائی مول لی، پھر ایک کے ایک بعد مہنگائی بم پھوڑنے میں  لگی ہے اور جب اس کے خلاف ردعمل آتا ہے تو کپتان اپنے  وسیم اکرم پلس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں، " عثمان بزدارصاحب !جو آپ سے کارکردگی کا سوال کرے ان سے کہیں پانچ سال کے بعد پوچھنا، ہمیں پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے"!!

کوئی کپتان کو یاد لائے انہیں اگر کوئی مینڈیٹ ملا تھا تو وہ معاشی انصاف تھا، نظام انصاف کا تھا، سماجی انصاف کا تھا، غربت کے خاتمے کا تھا، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا تھا، سٹیٹس کو توڑنے کا تھا، کرپشن کے خاتمے کا تھا۔۔۔۔ کپتان کے ان وعدوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جو شاید اب انہیں خود بھی یاد نہیں رہے۔

کپتان جب وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو یہ کہہ رہے تھے تو یقینی طور پر بزدار صاحب کو تو بہت حوصلہ ملا ہوگا کہ جس نے مجھ سے پوچھنا تھا اس نے ڈیل اور ڈھیل دونوں دے دیں لیکن کیا سیاسی اور معاشی چیلنجوں میں گھرا کوئی سیاست دان اس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ پانچ سال کے مینڈیٹ کا بہانہ بنا کر ان تمام سوالوں کو مسترد کر سکتا ہے؟؟ یہی شواہد ہیں جن کی بنیاد پر مجھے یقین ہے کہ  کپتان اور ان کی ٹیم سیاسی خود کشی کے مشن پر ہے اور کپتان کا  بزدار کو بظاہر یہ مشورہ دراصل کسی اور کے لیے پیغام تھا ، بالکل ویسا ہی پیغام جیسے ساس اپنی  بہو کو  جلی کٹی سنانا چاہتی ہے لیکن حوصلہ نہیں پاتی اور بیٹی کو مخاطب کرکے بہانے بہانے سے اپنے پھپھولے پھوڑتی ہے۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ "کینا تی نو تے سنانا نوں نو"  یعنی کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو۔۔

اس صورت حال میں اپوزیشن کا کردار بھی افسوسناک ہے، عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ سے مرنے کو ہیں لیکن اپوزیشن عوامی موڈ کو تحریک میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی، ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن یہ سوچ رہی ہے کہ  حکومت اپنے بوجھ اور حماقتوں سے خود گر پڑے  یا پھر  سیاسی خودکشی کے مشن کو خود ہی انجام دے۔ شاید اسی لئے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " تمام سیاسی جماعتوں کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے آئینی راستے نکالیں اور اس حکومت سے چھٹکارے کا بندوبست کریں۔"

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اپوزیشن اسی طرح انتظار میں رہی تو اسے جان لینا  چاہئے کہ عوام کی ترجمانی نہ کرکے ووٹ کے لیے عوام کو باہر نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر آج سیاست دان عوام سے لاتعلق رہے تو کل کو عوام بھی ان سے لاتعلق ہوں گے اور پھر کوئی یہ شکوہ نہ کرے کہ قدم بڑھاؤ کا نعرہ لگانے والے ساتھ نہیں آئے۔۔۔

اس سے قبل یہ آرٹیکل روزنامہ دنیا میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔

عمران یعقوب خان

عمران یعقوب خان سینئر جرنلسٹ اور تجزیہ نگار ہیں

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پی ٹی آئی کی منحرف رکن سعدیہ سہیل رانا کی استحکام پاکستان پارٹی سے بھی راہیں جدا

ذاتی وجوہات کی بنا پر پارٹی چھوڑ رہی ہوں، سعدیہ سہیل رانا

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پی ٹی آئی کی منحرف رکن سعدیہ سہیل رانا نے استحکام پاکستان پارٹی سے بھی راہیں جدا کر لیں۔

سابق رکن پنجاب اسمبلی سعدیہ سہیل رانا نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ۔

 سعدیہ سہیل کا کہنا تھا کہ ذاتی وجوہات کی بنا پر پارٹی چھوڑ رہی ہوں ، پارٹی صدر علیم خان کو پارٹی چھوڑنے کے فیصلے سے تحریری آگاہ کردیا۔

واضح رہے کہ سعدیہ سہیل نے گزشتہ برس کے آخر میں جہانگیرترین سے ملاقات کرکے آئی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

صدر مملکت کی زیر صدارت سندھ میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر اجلاس

اجلاس میں وزیرِداخلہ محسن نقوی، وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ، صوبائی وزیرداخلہ ضیالنجار اور آئی جی غلام نبی میمن شریک ہیں

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

سندھ میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر قابو پانے کے لیے صدر مملکت آصف زرداری کی زیر صدارت اجلاس جاری ہے۔

وزیراعلیٰ ہاؤس میں صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں امن و امان کا اجلاس جاری ہے، جس میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔

کچے کے علاقے میں آپریشن اور اسٹریٹ کرائم کی صورتحال پر اعلیٰ حکام کی جانب سے بریفنگ دی جارہی ہے۔

اجلاس میں وزیرِداخلہ محسن نقوی، وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ، صوبائی وزیرداخلہ ضیالنجار اور آئی جی غلام نبی میمن شریک ہیں، اس کے علاوہ ڈی جی ریِنجرز سندھ ، چیف سیکرٹری اور دیگر بھی اجلاس میں شریک ہیں۔

اجلاس سے پہلے صدر زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ملاقات ہوئی، جس میں صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

علاقائی

محنت کش طبقے کی عزت اور حقوق کے تحفظ کے بغیر ترقی کا خواب ممکن نہیں، علی امین گنڈا پور

صوبے میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور درپیش مسائل حل کرنے کےلئے مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات اُٹھائے گی، وزیر اعلیٰ کے پی

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین خان گنڈا پور نے کہا ہے کہ معاشرے میں محنت کش طبقے کی عزت و وقار اور حقوق کے تحفظ کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

عالمی یوم مزدور کی مناسبت سے منعقد ایک تقریب  کے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ مزدوروں کا عالمی دن محنت کی عظمت اور قومی ترقی میں محنت کش طبقے کی اہمیت اور کلیدی کردار کو اُجاگر کرتا ہے۔ مزدوروں کی فلاح و بہبود اور ان کا تحفظ کسی بھی ریاست کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے کیونکہ محنت کش قومی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ کے پی کا کہنا تھا کہ قومی سطح پر موجود صنعتی تربیت کے اداروں اور صنعتوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرکے محنت کش افراد کےلئے روزگار کے باعزت اور پرکشش مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں۔

علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت محنت کش طبقے کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے کیونکہ محنت کش اپنا خون پسینہ ایک کرکے قومی ترقی و خوشحالی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ آج کا دن پوری قوم خصوصی طور پر انسانی حقوق کے اداروں ، تنظیموں اور فورمز سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مزدوروں کی فلاح کےلئے ہم اپنے عزم کا اعادہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ طبقہ نا صرف حکومت اور ریاسی اداروں بلکہ معاشرے کے تمام طاقتور طبقات اور حلقوں کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے، ہم سب کو مل کر اپنے اردگرد موجود محنت کش افراد کی بھلائی اور اُن کو درپیش مسائل کے حل کےلئے ہر ممکن کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔

علی امین کا کہنا تھا کہ  یہ طبقہ جتنا مضبوط اور خوشحال ہو گا قومی ترقی اور خوشحالی کی بنیادیں بھی اُسی قدر دیرپا اور مضبوط ہوں گی ، میں یقین دلاتا ہوں کہ خیبرپختونخوا کی حکومت صوبے میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور اُنہیں جائز مقام دینے اور درپیش مسائل حل کرنے کےلئے مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات اُٹھائے گی۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll