فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بطور ثبوت نہیں لیا جا سکتا، لاہور ہائیکورٹ
اگر ڈی این اے سیمپل محفوظ طریقے سے منتقل نہ ہوں تو اسکی رپورٹ پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا،عدالتی فیصلہ


لاہورہائیکورٹ کے جسٹس طاق ندیم نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ بنیادی ثبوت نہیں ہوسکتا، دیگر شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے لنک کرنا کافی نہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طاق ندیم نے قانونی نکتہ طے کردیا، عدالت نے 19سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت میں مقدمے میں عمر قید پانے والا ملزم کو چھ سال بعد بری کردیا۔
جسٹس طارق ندیم لاہور ہائیکورٹ نے ملزم محمد عارف کی عمر قید اور 14 برس قید کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم محمد عارف کی اپیل پر 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔
جسٹس طارق ندیم نے فیصلے میں لکھا کہ موجودہ دور میں کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے، عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈی این اے سیمپل محفوظ طریقے سے فرانزک کیلئے بھجوائے گئے ہیں یا نہیں،انہوں نے مزید لکھا گیا کہ اگر ڈی این اے سیمپل محفوظ طریقے سے منتقل نہ ہوں تو اسکی رپورٹ پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو محض ایکسپرٹ شواہد کے طور دیکھا جا سکتا ہے، کسی بھی وقوعہ کی ڈی این اے رپورٹ کو صرف ماہرین کی رائے کے طور پر لیا جا سکتا ہے، اگر دیگر تمام شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے لنک کرنا کافی نہیں ہے، شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ استغاثہ کا کیس شکوک وشبہات سے بھرا پڑا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ایسے شکی اور غیر حقیقی شواہد پر ملزم کی سزا برقرار نہیں رہ سکتی، ملزم پر الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں لیکن صرف اس گراؤنڈ پر سزا نہیں دی جا سکتی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کے خلاف پیش کے گئے شواہد میں سنجیدہ قانونی نقائص ہیں، ملزم محمد عارف پر 2019 میں زیادتی اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، پراسکیوشن کیمطابق ملزم نے 19سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کیا، پراسیکیوشن کے مطابق ملزم نے لڑکی کی لاش کھیتوں میں پھینک دی، کوئی بھی گواہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا۔
تحریری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس تیکنکی شواہد کے سہارے کھڑا ہے، تیکنیکی شواہد کو عام طور کمزور شواہد کے طور پر دیکھا جاتا ہے، پراسیکیوشن نے کڑیاں ملانے کیلئے وقوعہ پر آخری دیکھے گواہوں کا سہارا لیا، دو گواہوں نے بیان دیا کہ لڑکی کو ملزم کے ہمراہ کھیتوں کیطرف جاتے دیکھا۔
جسٹس طارق ندیم نے تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ ایسے گواہوں کو قانونی کی نظر میں انتہائی کمزور گواہ جانا جاتا ہے، میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے، عدالت ملزم کی سزا کالعدم قرار دے کر رہا کرنے کا حکم دیتی ہے، ملزم محمد عارف جیل میں ہے اسے فوری رہا کیا جائے۔

عمران خان سے ملاقات کی اجازت کے لیے وزیر اعلیٰ کے پی کا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع
- 14 گھنٹے قبل

ابراہام معاہدے میں توسیع جلد متوقع، سعودی عرب شامل ہو سکتا ہے ، ٹرمپ
- 12 گھنٹے قبل

سلطان جوہر کپ: پاکستان اور آسٹریلیا کا مقابلہ سنسنی خیز برابری پر ختم، قومی ٹیم فائنل کی دوڑ سے باہر
- 11 گھنٹے قبل

نومبر احتجاج کیس: علیمہ خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری
- 15 گھنٹے قبل

وزیراعظم کی زیر صدارت افغان مہاجرین پر اجلاس، وزیراعلیٰ کے پی غیر حاضر
- 12 گھنٹے قبل

افغانستان بھارتی پراکسی بن چکا، دہشت گردی کی قیمت اب کابل کو چکانا ہوگی، خواجہ آصف
- 12 گھنٹے قبل
این ایچ ایس پی پنجاب کے زیرِ اہتمام ہیلتھ ڈیٹا اِن ایکشن صوبائی لرننگ ایکسچینج کا انعقاد
- 10 گھنٹے قبل

طالبان حکومت نے عبداللہ مختار کو نائب وزیر داخلہ سے ہٹا کر محمد وزیر کو مقرر کر دیا
- 8 گھنٹے قبل
کھیرے کا پانی: صحت بخش مشروب جس کے حیران کن فوائد جانیں
- 12 گھنٹے قبل

پشاور، ایبٹ آباد اور گلگت میں زلزلے کے جھٹکے
- 15 گھنٹے قبل

آزاد کشمیر کے دو وزرا مستعفی، وزیراعظم آزاد کشمیر پر سنگین الزامات
- 8 گھنٹے قبل

اجلاس میں فیصلہ: ملک میں موجود غیر قانونی افغان باشندوں کا ریاستی بوجھ ختم ہو گا
- 8 گھنٹے قبل