پاکستان

نیب ترامیم کیس :عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش

وفاقی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اپیل دائر کی تھی

GNN Web Desk
شائع شدہ 7 months ago پر May 16th 2024, 11:24 am
ویب ڈیسک کے ذریعے
نیب ترامیم کیس :عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش

بانی پی ٹی آئی عمران خان قومی نیب ترمیمی کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں کی سماعت کر رہا ہے،  جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

عمران خان نے نیلے رنگ کی شرٹ پہن رکھی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا۔ جبکہ سینیٹر فیصل جاوید اور وکیل نعیم پنجوٹھہ بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیٹ چل رہا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا جی ہاں! بالکل چل رہا ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التواء ہے۔

اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی؟ وکیل وفاقی حکومت نے بتایا کہ جی اسے قابل سماعت قراردے دیا گیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ وکیل نے بتایا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ جولائی 2022 کو نیب ترامیم کے خلاف پہلی سماعت ہوئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کل کتنی سماعتیں ہوئیں ہیں؟ وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ کل 53 سماعتیں ہوئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے دریافت کیا کہ اتنا طویل عرصے تک کیس کیوں چلا؟ کیا آپ نے کیس کو طول دیا؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا زیادہ وقت دلائل میں درخواست گزار نے لیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 1999 میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مارشل لا کے فوری بعد ایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا۔

یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے عمران خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیاتھا۔ وفاقی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اپیل دائر کی تھی۔ پہلی سماعت گزشتہ سال اکتوبر میں ہوئی تھی اور دوسری سماعت دو روز قبل ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر دلائل دینے کی درخواست منظور کرلی تھی۔ سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کی اجازت دے دی تھی۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھےکہ اس مقدمے میں پٹیشنر عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہاں پیش کیا جانا چاہیے، وہ اس مقدمے میں ایک فریق ہیں ہم ان کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں، یہ نیب کا معاملہ ہے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ان کا حق ہے۔