جی این این سوشل

جرم

عاصمہ رانی قتل کیس :مرکزی مجرم مجاہد آفریدی کو سزائے موت کا حکم

پشاور: عدالت نے میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی قتل کیس میں تین سال بعد کیس کے مرکزی مجرم مجاہد آفریدی کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔

پر شائع ہوا

کی طرف سے

عاصمہ رانی قتل کیس :مرکزی مجرم مجاہد آفریدی کو سزائے موت کا حکم
عاصمہ رانی قتل کیس :مرکزی مجرم مجاہد آفریدی کو سزائے موت کا حکم

تفصیلات کے مطابق عاصمہ رانی قتل کیس  میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پشاور اشفاق تاج نے مختصر فیصلہ سنا دیا، عدالت نے  کیس  کے مرکزی مجرم مجاہد اللہ آفریدی کو سزائے موت کا حکم سنایا جبکہ دو ملزمان شاہ زیب اور صدیق اللہ کو بری کر دیا۔

یاد رہے کہ عاصمہ رانی کو 28 جنوری 2018 کو رشتے سے انکار پر کوہاٹ میں قتل کیا گیا تھا۔ عاصمہ رانی نےزخمی حالت میں مرنے سے پہلے ویڈیوبیان میں ملزم مجاہد اللہ آفریدی کانام لیا تھا۔ واقعے کے بعد ملزم بیرون ملک فرار ہو گیا تھا،  جس کے بعد  مرکزی ملزم کوخیبرپختونخوا پولیس نے انٹرپول کے ذریعے یو اے ای سے گرفتار کیاتھا۔ پشاور ہائیکورٹ کے احکامات پر کیس کو کوہاٹ سے پشاور منتقل کیا گیا تھا۔

 

پاکستان

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں جبکہ عدالت نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی جبکہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر 63 اے تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہو چکے تھے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے عدالت کو بتایا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، مختصر فیصلہ آ چکا تھا لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی 2 سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، میں پہلے ایک بیان دے دوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں بیان نہیں گزارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں۔

علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی؟۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج میں تلخ دلائل دوں گا، میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ آفس نے منظور نہیں کی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے بانی پی ٹی آئی سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں، درخواست گزار بھی ہیں، ان کو آئین کی سمجھ بوجھ ہے، ان کو معلوم ہے کیا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ ان سے معاملے پر مشاورت کرلوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یعنی آپ میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ کل بھی ملاقات کر سکتے تھے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے، عدالت کوئی حکم جاری کر دیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بلایا تھا، وکلا کی ملاقات بھی کرائی تھی۔

وکیل علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا آپ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست منظور نہیں کریں گے۔

کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں جس پر مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ اس موقع پر مصطفین کاظمی ایڈووکیٹ نے بینچ میں شریک 2 ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیر آئینی ہے، 2 ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہرنکالنے کا حکم دے دیا اور عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے، علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے رہے تھے۔ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر اب شروع ہوجائیں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہے دے۔

علی ظفر نے ایک بار پھر بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، بینچ قانونی نہیں ہے، بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی، علی ظفر نے کہا کہ دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں، یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر دو سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظر ثانی کی درخواست سن رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں کہہ رہا ہوں بینچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3 رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی، قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، قانون میں کمیٹی کے دو ممبران کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، آپ نے وہ خط پڑھا تو اسکا جواب بھی پڑھنا ہوگا، آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں، علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور نے آپ کا حوالہ بھی دیا جب آپ سینئر جج تھے، آپ بھی ایک عرصے تک چیمبر ورک پر چلے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے اعمال میں شفافیت تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھتا تھا قانون کو بل کی سطح معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلا کر ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں، میری نظر میں میرے کولیگ نے جو لکھا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا،کل میں میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائے گی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منیب 30 ستمبر کو بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بینچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا، جو 4 رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچ بنتے رہے، آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟

عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ بینچ قانونی ہے، یہ فیصلہ ہو جائے اس کے بعد ہی میں دلائل دے سکتا ہوں۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے علی ظفر کا اعتراض مسترد کردیا، ججز نے مشاورت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا فیصلہ سنادیں تو ہم نے سنا دیا، ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظر ثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں، کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لوگوں کو یہاں مگر مرضی کے بینچ کی عادت ہے مگر وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہوگی۔

علی طفر نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے سر، چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کا کفارہ کریں، اب ہم جو کرتے ہیں بتا دیتے ہیں، سابقہ دور واپس نہیں آنے دیں گے، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟

علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، نظر ثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے، اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، پہلے بیٹھ کر اپنے رولز بنا لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سب نظر ثانی کے مقدمات لگا دیئے ہیں، ڈیڑھ بج چکا، آپ نے میرٹ پر ایک بات نہیں کی۔ سادہ سے آئینی سوالات ہیں ان کا جواب دیں، کیا 63 اے فیصلے کی وجہ سے عدم اعتماد سمیت کئی آئینی شقیں غیر فعال ہو گئیں؟

علی ظفر نے جواب میں کہا ٹھیک ہے مگر فیصلہ لکھنے والے جج کے بغیر یہ بینچ کیس نہیں سن سکتا، فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے وہ جج موجود ہی نہیں، اس ادارے کیلئے کچھ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ دلائل نہیں دے رہے، میرٹ پر دلائل دیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر آپ نے فیصلہ کرلیا کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو نہیں بٹھانا تو مجھے اپنے موکل سے ملنے دیں۔

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرلی، عدالت نے علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروانے کے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے۔

بعد ازاں، آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

پڑھنا جاری رکھیں

تفریح

کامیڈی کے بادشاہ عمر شریف کو مداحوں سے بچھڑے 3 برس بیت گئے

’بکرا قسطوں پے‘ اور ’بڈھا گھر پے ہے‘ جیسے لازوال سٹیج ڈراموں کو عمر شریف کے مداح آج بھی دیکھتے اور لطف اٹھاتے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

کامیڈی کے بادشاہ عمر شریف کو مداحوں سے بچھڑے 3 برس بیت گئے

معروف پاکستانی اداکار، کامیڈی کے بادشاہ، ٹی وی اور سٹیج کی معروف شخصیت عمر شریف کو مداحوں سے بچھڑے 3 برس گزر گیا۔

19 اپریل 1960ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے عمر شریف نے 1974ء میں 19 سال کی عمر میں سٹیج پرفارمر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز پورٹ سٹی سے کیا۔ 1980ء میں پہلی بار انہوں نے آڈیو کیسٹ سے اپنے ڈرامے ریلیز کیے۔

پاکستان کے ساتھ ساتھ عمر شریف، ہندوستان میں بھی کافی مقبول رہے، انہوں نے تقریبا 5 دہائیوں تک شوبز میں کام کیا ہے اور درجنوں، ڈراموں، سٹیج تھیٹرز اور لائیو پروگرامز میں پرفارم کیا۔ انہوں نے 70 سے زائد ڈراموں کے اسکرپٹ لکھے جن کے مصنف، ہدایتکار اور اداکار وہ خود تھے اور ان ڈراموں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔

عمر شریف کی خدمات کے عوض انہیں نگار ایوارڈ اور تمغہ امتیاز سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ مرحوم وہ واحد اداکار تھے جنہوں نے ایک سال میں چار نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ انہیں تین گریجویٹ ایوارڈز بھی ملے۔

’بکرا قسطوں پے‘ اور ’بڈھا گھر پے ہے‘ جیسے لازوال سٹیج ڈراموں کو عمر شریف کے مداح آج بھی دیکھتے اور لطف اٹھاتے ہیں۔ عمر شریف کے مقبول سٹیج ڈراموں میں دلہن میں لے کر جاؤں گا، سلام کراچی، انداز اپنا اپنا، میری بھی تو عید کرا دے، نئی امی پرانا ابا، یہ ہے نیا تماشا، یہ ہے نیا زمانہ، یس سر عید نو سر عید، عید تیرے نام، صمد بونڈ 007، لاہور سے لندن، انگور کھٹے ہیں، پٹرول پمپ، لوٹ سیل، ہاف پلیٹ، عمر شریف ان جنگل اور چوہدری پلازہ شامل ہیں۔

یاد رہے کہ مرحوم 2 اکتوبر 2021ء کو جرمنی کے نورنبرگ کے ایک ہسپتال میں عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باعث 61 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ انہیں کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں دفن کیا گیا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

ڈنمارک میں اسرائیلی سفارتخانے میں دو دھماکے

دھماکوں میں کوئی بھی زخمی نہیں ہوا ہے اور وقوعہ سے شواہد اکٹھے کررہے ہیں، پولیس

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ڈنمارک میں اسرائیلی سفارتخانے میں دو دھماکے

ڈنمارک میں اسرائیلی سفارتخانے میں دو دھماکے، عملہ خوفزدہ ہوکر بنکر میں چھپ گیا اور فوری پولیس طلب کرلی گئی۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’روائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق واقعہ کے فوراً بعد ہی پولیس نے اسرائیلی سفارتخانے کے قریب دو دھماکوں کی تحقیقات شروع کردی۔ اسرائیلی سفارتخانہ ڈنمارک کے شمالی مضافات میں واقع ہے۔

مذکورہ واقعہ کے بعد دنیا بھر کے اسرائیلی سفارتخانوں کو محتاط ہونے کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔ ادھر کوپن ہیگن پولیس نے سوشل میڈی پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ “دھماکوں میں کوئی بھی زخمی نہیں ہوا ہے اور وقوعہ سے شواہد اکٹھے کررہے ہیں۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کی بھاری نفری سفارتخانے کے اطراف میں موجود ہے اور علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن بھی جاری ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی سفارتخانہ نے معاملے پر فوری طور پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll