کنفیوژ حکومت
انہیں عاشق رسول کے لقب دیں یا انہیں شرپسند کہہ کر پکارا جائے۔جب لکیر ہی کھینچی تھی تو پھر جڑ سے کھینچی جائے تا کہ یہ آئے روز کا واویلا ختم ہو اور عوام بھی سکون کا سانس لیں


کالعدم تحریک لبیک کا احتجاج پچھلے چند روز سے جاری ہے اور وہ اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں ان سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں حکومت مخمصے،کشمکش اور کنفیوژن کا شکار ہے۔ ایک وزیر کہتا ہے کہ تحریک لبیک کالعدم ہے جبکہ دوسرا کہتا ہے نہیں کالعدم ہے لیکن بین نہیں ہے الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن ہیں کالعدم۔ ایک وزیر کہتا ہے کہ تحریک لبیک والے عسکریت پسند ہیں جبکہ دوسرا کہتا ہے نہیں یہ عسکریت پسند نہیں ہیں بس ان کا طریقہ کار درست نہیں ہے یہ”اُس“ طرح کے عسکریت پسند نہیں ہیں (یا پھران کے”اُس“ طرح کے عسکریت پسند بننے کا انتظار کیا جا رہا ہے)۔ایک وزیر کہتا ہے کہ وزیراعظم تحریک لبیک سے ہونے والے ماضی کے معاہدے سے لا علم تھے جبکہ دوسرا کہتا ہے کہ نہیں وزیراعظم کو سب معلوم تھا۔ ماضی میں بھی جماعتیں چاہیں وہ مذہبی ہو یا سیاسی احتجاج کرتی رہیں ہیں اور حکومت وقت انہیں روکنے کیلئے رکاوٹیں حائل کرتی رہیں ہیں۔ احتجاج اور جلسے جلوسوں میں سگنل بند کرنے اور انٹرنیٹ بند کرنے کی روایت کے بانی پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک ہیں جنہوں نے اس وقت جلسے جلوسوں میں سگنل اور انٹر نیٹ بند کرنے کی روایت ڈالی۔ اس کے بعد اس روایت کو ن لیگ نے بھی آ گے بڑھایا اور پھر کنٹینر لگا کر تحریک انصاف کے جلسے جلوسوں اور منہاج القران کے احتجاجوں کو روکنے کی ریت بھی ڈالی گئی۔ لیکن موجودہ حکومت ماضی کی تمام حکومتوں پر بازی لے گئی ہے اور پہلی بار احتجاج کو روکنے کیلئے خندقیں کھودی جا رہی ہیں، پلوں کو توڑا جا رہا ہے، سڑکوں پر دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں، راستے میں مٹی کے پہاڑ کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ ایک جانب کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات ہوں گے دوسری جانب پولیس کو احتجاجی مظاہرین کو روکنے کے احکامات جاری کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں اب تک چار پولیس اہلکار شہید جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ چند ماہ قبل بھی کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے دوران پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے اس کے بعد پھر مذاکرات کا دور شروع ہوا اور پولیس والوں کا خون رائیگاں گیا آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ شہید ہونے والے پولیس قاتلوں کیخلاف کیا کارروائی کی گئی ان کا کیس کس عدالت میں چل رہا ہے۔اب کی بار بھی ایسا ہی ہوتا دکھائی دیتا ہے کیوں کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو پھر شروع دن سے کرنے چاہئے تھے جب یہ احتجاجی مظاہرین پہلے دن سڑکوں پر آئے تھے اس دن ہی مذاکرات کرتے تا کہ جانی نقصان سے بچا جاتا۔حکومت کا حال اس وقت سو پیا زاور سو جاتے کھانے جیسا ہو چکا ہے۔
کنفیوژن ہے کہ مذاکرات کریں یا ان کیخلاف طاقت کا استعمال کریں۔ انہیں کالعدم قرار دیں یا انہیں اپنے بچے کہہ کر پکاریں۔ ان میں ماضی کی طرح پیسے بانٹیں یا انہیں سڑکوں پر خوار کریں۔انہیں عاشق رسول کے لقب دیں یا انہیں شرپسند کہہ کر پکارا جائے۔جب لکیر ہی کھینچی تھی تو پھر جڑ سے کھینچی جائے تا کہ یہ آئے روز کا واویلا ختم ہو اور عوام بھی سکون کا سانس لیں۔ اگر یہ مٹھی بھر شرپسند ہیں تو ان سے شرپسندوں کی طرح نمٹیں پھر ان کے ساتھ گلی ڈنڈا کیوں کھیلا جاتا ہے۔ کبھی انہیں اپنے بچے کہہ کر پچکارا جاتا ہے تو کبھی انہیں شرپسند کہہ کر لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے (میرے خیال میں تحریک لبیک کے کارکن بھی اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ ہم ریاست کے بچے ہیں یا ریاست کے دشمن اور اسی کشمکش کو دور کرنے کیلئے وہ ہر بار ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں اور سڑکوں پر آجاتے ہیں)۔پولیس والے بھی اسی کنفیوژن کا شکار ہیں اور بعض پولیس افران سے بات ہوئی تو وہ اس بات کا گلہ کرتے دکھائی دیئے کہ حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے کہ ہمیں لاٹھیاں اور حفاظتی شیلڈز دے کر میدان جنگ میں جھونک دیا گیا ہے جبکہ مقابلے میں شرپ پسندوں کے پاس اے کے 47 موجود ہیں جس کی وجہ سے ہمارے اہلکار شہید ہو رہے ہیں ۔ اب عوام کے ساتھ ساتھ پولیس بھی تنگ آ چکی ہے اور وہ دبے لفظوں میں مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اب کی بار یہ معاملہ یک بارگی حل کر لیا جائے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر بھرپور طریقے سے کئے جائیں یہ نہ ہو کہ ایک جانب وہ پولیس والوں کو مار رہے ہوں تو دوسری جانب مذاکرات کر کے گرفتار کارکنان کو رہا کرا لیا جاتا ہے اور اس طرح پولیس اہلکاروں کا خون رائیگاں جاتا ہے۔ اگر ان کے ساتھ کالعدم تنظیموں جیسا سلوک کرنا ہے تو پھر انہیں بھی اسی آنکھ سے دیکھا جائے جس طرح باقی کالعدم تنظیموں کو دیکھا جاتا ہے۔ان کے قائدین کیخلاف ٹھوس مقدمات لائیں جائیں، ان کے اکاؤنٹس بند کئے جائیں اور اگر انہیں کہیں سے فنڈنگ ہو رہی ہے تو وہ راستہ روکا جائے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا تو پھر خندقیں کھودیں، پلوں کی بندش، پلوں کو توڑنا، سڑکوں پر دیواریں تعمیر کرنا ہمارے مقدر میں لکھا جا چکا ہے ہو سکتا ہے کہ اگلی بار انہیں روکنے کیلئے ہر کارکن کے گھر کے باہر پولیس کا پہرہ لگا دیا جائے تو پھر شاید بات بن جائے وگرنہ ابھی تک یہ حکومت یہ ہی طے نہیں کر سکی کہ یہ عاشق رسول ہیں یا شر پسند، ان کے مطالبات ٹھیک ہیں یا ان کا طریقہ کار ٹھیک نہیں جب تک یہ کنفیوژن رہے گی اس مسئلے کا حل نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔