جی این این سوشل

پاکستان

سیاسی جدوجہد بمقابلہ خفیہ ریکارڈنگ

پر شائع ہوا

حریفوں کی خفیہ ریکارڈنگ کرنا اب معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کو سیاسی مستعدی کا نام دیا جاتا ہے اور جس حساب سے مارکیٹ میں ریکارڈنگ جدوجہد کی باز گشت ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے بلکہ مستقبل قریب میں ہمیں مزید لوگ بے نقاب ہوتے دکھائی دیں گے۔

سید محمود شیرازی Profile سید محمود شیرازی

کیا زمانہ آ گیا ہے کہ اب سیاسی جدو جہد کی بجائے ریکارڈنگ جدوجہد کو اہمیت دی جاتی ہے جو سیاسی جماعت جتنی زیادہ اس کام میں مہارت رکھتی ہے وہ اتنی ہی زیادہ کامیاب  مانی جاتی ہے یا کامیابی کے راستے پر گامزن ضرور ہو جاتی ہے۔ حریفوں کی خفیہ ریکارڈنگ کرنا اب معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کو سیاسی مستعدی کا نام دیا جاتا ہے اور جس حساب سے مارکیٹ میں ریکارڈنگ جدوجہد کی باز گشت ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے بلکہ مستقبل قریب میں ہمیں مزید لوگ بے نقاب ہوتے دکھائی دیں گے اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی شامل ہیں اور کچھ نام نہاد غیر سیاسی لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔اب تو یہ دور ہے کہ لوگ ویڈیو میں دکھتے بھی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نہیں ہیں اور جن کی آواز سنائی دیتی ہے وہ کہتے ہیں یہ میری آواز نہیں ہے(وگرنہ ماضی میں سکینڈل تو صرف اخبارات میں تصویر چھپنے سے بن جاتے تھے یا صرف خبر سے ہی طوفان برپا ہو جاتا تھا) لیکن جو لوگ کام ڈالنے کے ماہر ہیں یعنی جدید ٹیکنالوجی میں طاق ہیں انہوں نے بھی بڑے پکے کام ڈالے ہوئے ہیں غیر ملکی اداروں سے تصدیقی سرٹیفکیٹ لے رکھے ہیں تا کہ کل کلاں کو کسی فورم پر ثبوت دینا پڑے یا حاضر ہونا پڑے تو اپنے ہاتھ مضبوط کر کے جائیں۔ عمران خان حکومت کی کارکردگی اب تک اتنی قابل ذکر نہیں ہے کہ جسے سراہا جائے لیکن اپوزیشن کی جدو جہد بھی اب تک صرف ریکارڈنگز کی حد تک محدود ہے کوئی قابل ذکر لائحہ عمل انہوں نے بھی طے نہیں کیا۔

الحمد اللہ ایک اور ریکارڈنگ سامنے آ گئی، الحمد للہ جج کی ویڈیو نے ساری سازشوں کو بے نقاب کر دیا ہے، الحمد للہ جج کی آڈیو نے ہمیں سر خرو کر دیا، الحمد للہ پانچویں گواہی سامنے آ چکی ہے۔وگرنہ پہلے الحمد للہ ہم نے جلسہ اتنا بڑا کیا، الحمد للہ ہمارے جلسے میں سر ہی سر تھے، الحمد للہ ہمارے احتجاج نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، حکومت کے تشدد کے باوجود اپوزیشن ڈٹی ہوئی ہے ان باتوں پر سیاسی لوگ الحمد للہ کہتے تھے۔ جس حساب سے ریکارڈنگز مارکیٹ میں لائی جا رہی ہیں اب سیاسی جماعتوں کو کارکنان کی بھرتی کی بجائے جاسوسی کے آلات رکھنے چاہئے کیوں کہ مقابلہ ایک بڑے حریف سے ہے جو کو پہلے ہی اس کام میں مہارت حاصل ہے جس کے پاس آلات اور لاتوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کو آلات کی خریداری کے ساتھ ساتھ سافٹ ویئر انجینئر اور خفیہ نقل و حرکت کی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی ضرور ت بھی پڑ سکتی ہے جو دیوار کے پار دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ کوئی بعید نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں اخبارات میں اس قسم کے اشتہارات آئیں کہ ہمیں درجن بھر سیاسی کارکنان کی ضرورت ہے جو دو میل دور سے ہی حریف سیاسی لیڈران کی آواز کو سن سکتے ہوں۔خفیہ نگرانی کرنے کے ماہر ہوں اور دیوار کے پار دیکھنے کی صلاحیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھتے ہوں البتہ نعرے لگانے اور جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے کی صلاحیت اضافی تصور کی جائے گی۔ بات ہو رہی تھی کہ اپوزیشن کی کارکردگی بھی اتنی قابل ذکر نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ کل کو یہی اپوزیشن جب اقتدار میں آئے تو اپنی جدو جہد کے طور پر کہیں کہ ہم نے حریفوں کی پانچ ایسی خفیہ آڈیو ویڈیو گفتگو ریکارڈ کی ہے جو کوئی مائی کا لعل سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔  یعنی اب مستقبل قریب میں سیاسی جدو جہد کا معیار کوڑے کھانا، جیلیں جانا، تھانے کچہریوں میں حاضری لگوانے، سیاسی جلسے جلوس کرنے کی بجائے یہ ہو گا کہ حریف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ریکارڈنگز کرنا، طاقتور لوگوں کی نجی محفلوں میں کی گئی باتوں کو باہر لانا اور اپنی گفتگو کو حریفوں سے محفوظ بنانا سیاسی جدوجہد کامعیار ہو گا۔ اس میں قصور سیاسی جماعتوں کا بھی نہیں ہے کیوں کہ سامنے آئی ریکارڈنگز ظاہر کرتی ہیں کہ جیسا حریف ہو گا ویسا ہی وار چلایا جائے گا یعنی خفیہ سازشوں کوخفیہ آلات کی بدولت ہی طشت ازبام کرنا اب سیاسی پیمانہ ہو گا۔ 

ایک جانب اگر سیاسی جدو جہد کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا رہا ہے تو دوسری جانب بھی کوئی اعلی اخلاقی معیار قائم نہیں کئے جا رہے کہ جن کی آنے والی نسلیں پیروری کر کے اعلی سیاسی مقاصد حاصل کر سکیں۔ وہاں بھی جوڑ توڑ ہے، سازشیں ہیں، طاقت ور لوگوں سے خفیہ میٹنگز ہیں، کچھ لو کچھ دو کے وعدے ہیں، مافیا کو گالیاں دے کر پھر اسی مافیا کے پاؤں پکڑنے کی روش ہے، حقیقت پسندی سے زیادہ سازشی نظریات ہیں، روحانیات کا غلط استعمال ہے۔دونوں جانب کی اگر سیاسی جدوجہد کو دیکھا جائے تو مستقبل کا منظر نامہ کو اتنا سہانا دکھائی نہیں دیتا کہ جس میں عوام کیلئے کوئی نوید ہو اس لئے عوام کو بھی چاہئے کہ اب اپنے ارد گرد دیکھیں کون طاقتور ہے، کس کے کام ہو رہے ہیں، کس کی تھانے کچہری میں چلتی ہے، کون سی جماعت ان کے جائز ناجائز کام کرانے کی صلاحیت رکھتی ہے، طاقتور لوگوں سے راہ و رسم کیسے بڑھائے جا سکتے ہیں اور ہو سکے تو خفیہ آلات تو ضرور خریدیں اور ان میں مہارت حاصل کریں کیوں کہ اگلا دور ویسے بھی ٹیکنالوجی کا ہے اب روایتی جدوجہد کا دور لد چکا ہے۔ کیوں کہ اب دور آ چکا ہے جدید ٹیکنالوجی بمقابلہ سیاسی جدو جہد یا یوں کہہ لیں خفیہ ریکارڈنگز مقابلہ سیاسی جدو جہد جو اس کام میں جتنا طاق ہو گا اگلا وار اسی کا چلے گا۔

نوٹ: یہ تحریر  لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
 

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

بینکوں کی جانب سے پرسنل لون میں سالانہ بنیادوں پر 2.2 فیصد اضافہ،اسٹیٹ بینک

اپریل میں بینکوں کی جانب سے پرسنل لون کی مد میں 250 ارب روپے کے قرضہ جات فراہم کئے گئے،رپورٹ

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

بینکوں کی جانب سے پرسنل لون کے اجراء میں اپریل کے دوران سالانہ بنیادوں پر 2.2 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کےمطابق اپریل میں بینکوں کی جانب سے پرسنل لون کی مد میں 250 ارب روپے کے قرضہ جات فراہم کئے گئے جو گزشتہ سال اپریل کے مقابلہ میں 2.2 فیصد زیادہ ہے۔

گزشتہ سال اپریل میں بینکوں کی جانب سے پرسنل لون کی مد میں 245 ار ب روپے کے قرضہ جات فراہم کئے گئے تھے۔ مارچ کے مقابلہ میں اپریل میں پرسنل لون کے اجراء میں ماہانہ بنیادوں پر 0.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

مارچ میں پرسنل لون کی مد میں بینکوں کی جانب سے 251 ارب روپے کے قرضہ جات جاری ہوئے جو اپریل میں کم ہو کر 250 ارب روپے ہو گئے

 

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

آئی ایم ایف مزید مطالبات کر رہا ہے: وزیر مملکت برائے خزانہ

آئی ایم ایف ہماری کسی بات پر یقین نہیں کر رہا، عائشہ غوث پاشا

Published by Baqar Gillani

پر شائع ہوا

کی طرف سے

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف ہماری کسی بات پر یقین نہیں کر رہا، وہ نویں جائزہ کی جگہ دسویں اقتصادی جائزہ کی باتیں منوا رہا ہے۔

بجٹ اہداف دسویں اقتصادی جائزے کے تحت شیئر کیے جاتے تھے لیکن ہم مجبور ہیں اس لیے آئی ایم ایف کی تمام شرطیں ماننی پڑ رہی ہیں۔

عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ معیشت کا بگاڑ ٹھیک کرنے میں مزید کئی ماہ لگیں گے، آئندہ بجٹ ٹیکس فری نہیں دے سکتے، ٹیکس آمدن نہ بڑھائی تو خسارہ بے قابو ہوجائے گا۔

وزیر مملکت خزانہ نے بتایا کہ ملکی اکانومی چند ماہ میں ٹھیک نہیں ہو سکتی، آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر ملکی معیشت کو چیلنجز ہیں، کوشش کریں گے۔

وزیر اعظم کی ایم ڈی آئی ایم ایف سے بات چیت کے مثبت نتائج آنے کاامکان ہے، اسٹاف لیول معاہدے کے بعد حالات بہتر ہوں گے، آئندہ بجٹ میں مہنگائی کنٹرول کرناسب سے بڑا چیلنج ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

جو صاحب کپڑے بیچ کر مہنگائی ختم کرنے نکلے تھے، وہ کہاں ہیں،اسد عمر

بے گناہ لوگوں کو بند رکھنے پر محنت کرنے کی بجائے حکومت اپنا وقت عوام کو تکلیف سے نکالنے میں لگائے،رہنما پاکستان تحریک انصاف

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ بے گناہ لوگوں کو بند رکھنے پر محنت کرنے کی بجائے حکومت اپنا وقت عوام کو تکلیف سے نکالنے میں لگائے۔

اپنے ٹویٹ میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ مئی میں افراط زر 75 سال کی بلند ترین سطح پرپہچ گئی ہے۔ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح اب پاکستان کی ہے۔ شری لنکا کو بھی ہم نے مہنگائی میں پیچھے چھوڑ دیا۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد اور بھارت میں صرف 4.7 فیصد ہے ۔ وہ جو صاحب کپڑے بیچ کر مہنگائی ختم کرنے نکلے تھے، وہ کہاں ہیں؟

رہنما پاکستان تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ وکلاء ٹیم کی انتھک محنت سے ہزاروں ورکرز کی رہائی ممکن ہوئی ہے لیکن ابھی بھی بڑی تعداد میں بے گناہ لوگ زیر حراست ہیں۔ ان بے گناہ لوگوں کو بند رکھنے پر محنت کرنے کے بجائے حکومت کو اپنا وقت عوام کو سخت ترین معاشی تکلیف سے نکالنے پر لگانا چاہیے

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll