پاکستان

بیس ہزار خاندان اور سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے حکم پر نوکریوں سے برخاست ہونے والے یہ 20000 ملازمین وہ بدقسمت لوگ ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں دو دو دفعہ بلاوجہ ملازمت سے نکالے  گیے ہیں اور دونوں دفعہ نہ انکا کوئی قصور تھا نہ خطا لیکن نشانہ یہ لوگ بنے۔

GNN Web Desk
Published 4 سال قبل on ستمبر 7 2021، 8:48 شام By سید محمود شیرازی

پیپلز پارٹی کی حکومت جب بھی آئی اس پر یہ الزامات ضرور لگے کہ اس نے محکموں میں سیاسی بھرتیوں کا عمل شروع کیا،پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تو سیاسی بھرتیوں کے کیس میں جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں اور وہ بر ملا کہتے ہیں کہ غریبوں کو روزگار دینا ان کا جرم ہے تو وہ یہ جرم جب بھی موقع ملا کرتے رہیں گے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں ہر دور میں سیاسی بھرتیاں ہوئی ہیں کوئی بھی حکومت ہو چاہے وہ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا اب موجودہ حکومت تحریک انصاف کا دور ہو،بر سر اقتدار ہر حکومت نے اپنے کارکنان کو یا اپنے ہمدردوں کو مختلف سیاسی محکموں میں بھرتی کیا ہے۔نوکریاں کرنے والا مراعات یافتہ طبقہ نہیں ہوتا جو بے چارے ایک نوکری کیلئے سیاسی سفارش ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ان کا مطمع نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ چلو بچوں کا روزگار مل جائے گا اور ساری عمر کیلئے نوکری ڈھوندنے کایہ جھنجھٹ ختم ہو جائے گا۔کارکنان کے لئے لے دے کہ یہ درجہ چہارم یا اس جیسی نوکریاں ہی ہوتی ہیں جس کیلئے وہ سیاسی لیڈروں کے جلسوں کی رونق بنتے ہیں اور ان کے نعرے لگا لگا کر اپنے گلے ہلکان کر لیتے ہیں۔ پھر جب ان کے لیڈران کی حکومت آتی ہے تو پھر ان کارکنان کے حکومتی ایوانوں کے چکر شروع ہو جاتے ہیں اور فائلیں پکڑے بچوں کی سندیں اٹھائیں کبھی ایک دفتر کے چکر لگاتے ہیں تو کبھی سیاسی رہنماؤں کے گھروں کا طواف کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ نوکریاں میرٹ پر ہی ملنی چاہئے اور میرٹ ہو گا کہ تو شفافیت ہو گی لیکن اگر نوکری کسی کو سفارش پر ملتی ہے تو پھر سزا نوکری کرنے والوں کو کیوں دی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان افسران بالا یا بیورو کریسی کے بابوؤں کی بھی برطرفی ہونی چاہئے جو ان لوگوں سیاسی لوگوں کے کہنے پر بھرتی کرتے ہیں۔ خیر حال ہی میں پاکستان کی عدالت عظمی سپریم کورٹ نے بحالی ایکٹ 2010کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بحال ہونے والے بیس ہزار ملازمین کو نوکریوں سے یک جنبش قبل برخاست کرنے کے احکامات جاری کر دئے ہیں۔

یہ 20000 ملازمین وہ بدقسمت لوگ ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں دو دو دفعہ بلاوجہ ملازمت سے برخواست کیے گیے ہیں اور دونوں دفعہ نہ انکا کوئی قصور تھا نہ خطا لیکن نشانہ یہ لوگ بنے۔مختلف اداروں کے ان 20000 ملازمین کو 1996 میں پی پی پی کے دور حکومت میں اس وقت کے مروجہ قانونی تقاضوں کے عین مطابق باقاعدہ نوکری دی گئی اور ان تمام ملازمین نے محکمانہ ترقی کے کئی کورس پاس کیے اور 1997 میں نواز شریف حکومت نے ان کو بلاوجہ برخواست کردیا صرف اس لئے کہ یہ پچھلے دور حکومت میں بھرتی کئے گئے تھے۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے 1995 اور 1996 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی گئی تمام تر بھرتیوں کو سیاسی قرار دیتے ہوئے ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کردیا تھا۔ تاہم 2010 میں پیپلز پارٹی حکومت نے برطرف ملازمی بحالی ایکٹ متعارف کرایا تھا اور 2010 کے اواخر میں اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی۔تاہم ان بیس ہزار ملازمین کی بحالی کے بعد ان کو محکموں میں واپس بھیجنا ایک مشکل امر تھا جس میں پیپلز پارٹی کامیاب رہی کیوں کہ 1996 کے دور کے کئی وفاقی محکمے صوبائی حکومتوں کے سپرد کر دیئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے ان بیس ہزار ملازمین کو دوبارہ سے کھپایا۔ یہ بیس ہزار ملازمین 72وفاقی و صوبائی محکموں میں کام کر رہے تھے ان میں سے 1183 وہ ملازمین بھی شامل ہیں جو آئی بی میں خدمات انجام دے رہے تھے جو تربیت یافتہ انٹیلی ایجنس اہلکار ہیں۔ کچھ محکموں نے تو فوری طور پر ان ملازمین کو برطرف کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں پہلے ہی بے روزگاری کی شرح بڑھ چکی ہے۔ایسے میں ان ہزاروں ملازمین کو جب فارغ کیا جا رہا ہے تو یہ عمل بے روزگاری میں اضافے کا باعث بھی بنے گا اور حکومت کیلئے بھی مشکلات پیدا ہو ں گی۔

مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سیاسی بھرتیاں قرار دیا گیا اور پھر دو بار ان ہزاروں ملازمین کے سر پر بے روزگاری کی تلوار چلائی گئی۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کون سا محکمہ ایسا ہے جس میں سیاسی بھرتیاں نہیں ہوتیں۔ ان ہزاروں ملازمین میں سب ہی افسران نہیں ہیں اور نہ ہی یہ مراعات یافتہ طبقہ ہیں بلکہ ان برطرف ملازمین میں خاکروب،  ڈرائیور اور  چپڑاسی بھی شامل ہیں جو انتہائی نچلا طبقہ شمار ہوتا ہے ایسے میں انہیں بے روزگار کرنا دانشمندانہ امر نہیں اس معاملے میں حکومت کو آگے بڑھتے ہوئے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرنی چاہئے تا کہ یہ ہزاروں خاندان مہنگائی کے اس دور میں بے روزگاری کی چکی میں پسنے سے بچ سکیں۔ تحریک انصاف توایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے پر ہی بر سر اقتدار آئی ہے تو اس کو اپنے ماتھے پر ہزاروں ملازمین کی برطرفی کا یہ جھومر نہیں سجاناچاہئے اور آگے بڑھ کر ان ملازمین کی دادرسی کرتے ہوئے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہر فورم کو استعمال کرتے ہوئے ان کو بحال کرانا چاہئے۔بحالی ایکٹ 2010 پرلیمنٹ کا پاس کردہ قانون ہے ویسے بھی پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اس حوالے سے اسے اپنا کردار ادا کرناچا ہئے کیوں خان صاحب کا حکومتی ماڈل ایک فلاحی حکومت کا ہے اور فلاحی حکومت کا کام لوگوں سے روزگار چھیننا نہیں بلکہ انہیں روزگار فراہم کرنا ہوتا ہے۔

رجحانات
Advertisement