جی این این سوشل

پاکستان

بیس ہزار خاندان اور سپریم کورٹ

پر شائع ہوا

سپریم کورٹ کے حکم پر نوکریوں سے برخاست ہونے والے یہ 20000 ملازمین وہ بدقسمت لوگ ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں دو دو دفعہ بلاوجہ ملازمت سے نکالے  گیے ہیں اور دونوں دفعہ نہ انکا کوئی قصور تھا نہ خطا لیکن نشانہ یہ لوگ بنے۔

سید محمود شیرازی Profile سید محمود شیرازی

پیپلز پارٹی کی حکومت جب بھی آئی اس پر یہ الزامات ضرور لگے کہ اس نے محکموں میں سیاسی بھرتیوں کا عمل شروع کیا،پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تو سیاسی بھرتیوں کے کیس میں جیل کی ہوا بھی کھا چکے ہیں اور وہ بر ملا کہتے ہیں کہ غریبوں کو روزگار دینا ان کا جرم ہے تو وہ یہ جرم جب بھی موقع ملا کرتے رہیں گے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں ہر دور میں سیاسی بھرتیاں ہوئی ہیں کوئی بھی حکومت ہو چاہے وہ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا اب موجودہ حکومت تحریک انصاف کا دور ہو،بر سر اقتدار ہر حکومت نے اپنے کارکنان کو یا اپنے ہمدردوں کو مختلف سیاسی محکموں میں بھرتی کیا ہے۔نوکریاں کرنے والا مراعات یافتہ طبقہ نہیں ہوتا جو بے چارے ایک نوکری کیلئے سیاسی سفارش ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ان کا مطمع نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ چلو بچوں کا روزگار مل جائے گا اور ساری عمر کیلئے نوکری ڈھوندنے کایہ جھنجھٹ ختم ہو جائے گا۔کارکنان کے لئے لے دے کہ یہ درجہ چہارم یا اس جیسی نوکریاں ہی ہوتی ہیں جس کیلئے وہ سیاسی لیڈروں کے جلسوں کی رونق بنتے ہیں اور ان کے نعرے لگا لگا کر اپنے گلے ہلکان کر لیتے ہیں۔ پھر جب ان کے لیڈران کی حکومت آتی ہے تو پھر ان کارکنان کے حکومتی ایوانوں کے چکر شروع ہو جاتے ہیں اور فائلیں پکڑے بچوں کی سندیں اٹھائیں کبھی ایک دفتر کے چکر لگاتے ہیں تو کبھی سیاسی رہنماؤں کے گھروں کا طواف کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ نوکریاں میرٹ پر ہی ملنی چاہئے اور میرٹ ہو گا کہ تو شفافیت ہو گی لیکن اگر نوکری کسی کو سفارش پر ملتی ہے تو پھر سزا نوکری کرنے والوں کو کیوں دی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان افسران بالا یا بیورو کریسی کے بابوؤں کی بھی برطرفی ہونی چاہئے جو ان لوگوں سیاسی لوگوں کے کہنے پر بھرتی کرتے ہیں۔ خیر حال ہی میں پاکستان کی عدالت عظمی سپریم کورٹ نے بحالی ایکٹ 2010کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بحال ہونے والے بیس ہزار ملازمین کو نوکریوں سے یک جنبش قبل برخاست کرنے کے احکامات جاری کر دئے ہیں۔

یہ 20000 ملازمین وہ بدقسمت لوگ ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں دو دو دفعہ بلاوجہ ملازمت سے برخواست کیے گیے ہیں اور دونوں دفعہ نہ انکا کوئی قصور تھا نہ خطا لیکن نشانہ یہ لوگ بنے۔مختلف اداروں کے ان 20000 ملازمین کو 1996 میں پی پی پی کے دور حکومت میں اس وقت کے مروجہ قانونی تقاضوں کے عین مطابق باقاعدہ نوکری دی گئی اور ان تمام ملازمین نے محکمانہ ترقی کے کئی کورس پاس کیے اور 1997 میں نواز شریف حکومت نے ان کو بلاوجہ برخواست کردیا صرف اس لئے کہ یہ پچھلے دور حکومت میں بھرتی کئے گئے تھے۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے 1995 اور 1996 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی گئی تمام تر بھرتیوں کو سیاسی قرار دیتے ہوئے ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کردیا تھا۔ تاہم 2010 میں پیپلز پارٹی حکومت نے برطرف ملازمی بحالی ایکٹ متعارف کرایا تھا اور 2010 کے اواخر میں اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی۔تاہم ان بیس ہزار ملازمین کی بحالی کے بعد ان کو محکموں میں واپس بھیجنا ایک مشکل امر تھا جس میں پیپلز پارٹی کامیاب رہی کیوں کہ 1996 کے دور کے کئی وفاقی محکمے صوبائی حکومتوں کے سپرد کر دیئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے ان بیس ہزار ملازمین کو دوبارہ سے کھپایا۔ یہ بیس ہزار ملازمین 72وفاقی و صوبائی محکموں میں کام کر رہے تھے ان میں سے 1183 وہ ملازمین بھی شامل ہیں جو آئی بی میں خدمات انجام دے رہے تھے جو تربیت یافتہ انٹیلی ایجنس اہلکار ہیں۔ کچھ محکموں نے تو فوری طور پر ان ملازمین کو برطرف کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں پہلے ہی بے روزگاری کی شرح بڑھ چکی ہے۔ایسے میں ان ہزاروں ملازمین کو جب فارغ کیا جا رہا ہے تو یہ عمل بے روزگاری میں اضافے کا باعث بھی بنے گا اور حکومت کیلئے بھی مشکلات پیدا ہو ں گی۔

مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سیاسی بھرتیاں قرار دیا گیا اور پھر دو بار ان ہزاروں ملازمین کے سر پر بے روزگاری کی تلوار چلائی گئی۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کون سا محکمہ ایسا ہے جس میں سیاسی بھرتیاں نہیں ہوتیں۔ ان ہزاروں ملازمین میں سب ہی افسران نہیں ہیں اور نہ ہی یہ مراعات یافتہ طبقہ ہیں بلکہ ان برطرف ملازمین میں خاکروب،  ڈرائیور اور  چپڑاسی بھی شامل ہیں جو انتہائی نچلا طبقہ شمار ہوتا ہے ایسے میں انہیں بے روزگار کرنا دانشمندانہ امر نہیں اس معاملے میں حکومت کو آگے بڑھتے ہوئے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرنی چاہئے تا کہ یہ ہزاروں خاندان مہنگائی کے اس دور میں بے روزگاری کی چکی میں پسنے سے بچ سکیں۔ تحریک انصاف توایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے پر ہی بر سر اقتدار آئی ہے تو اس کو اپنے ماتھے پر ہزاروں ملازمین کی برطرفی کا یہ جھومر نہیں سجاناچاہئے اور آگے بڑھ کر ان ملازمین کی دادرسی کرتے ہوئے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہر فورم کو استعمال کرتے ہوئے ان کو بحال کرانا چاہئے۔بحالی ایکٹ 2010 پرلیمنٹ کا پاس کردہ قانون ہے ویسے بھی پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اس حوالے سے اسے اپنا کردار ادا کرناچا ہئے کیوں خان صاحب کا حکومتی ماڈل ایک فلاحی حکومت کا ہے اور فلاحی حکومت کا کام لوگوں سے روزگار چھیننا نہیں بلکہ انہیں روزگار فراہم کرنا ہوتا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

عطاء تارڑ کا این اے 127 لاہور سے کامیابی کا نوٹیفکیشن چیلنج

الیکشن ٹربیونل کے جج جسٹس سلطان تنویر دونوں درخواستوں پر سماعت کریں گے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کی لاہور کے حلقہ این اے 127 سے کامیابی کا نوٹیفکیشن چیلنج کر دیا گیا۔

لاہور کے حلقہ این اے 127 سے لیگی رہنما عطاء تارڑ اور پی پی 145 سے سمیع اللہ خان کی کامیابی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔

الیکشن ٹربیونل کے جج جسٹس سلطان تنویر دونوں درخواستوں پر سماعت کریں گے، انتخابی عذرداریوں میں الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔

این اے 127 کا نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل کے ظہیر عباس کھوکھر نے چیلنج کیا جبکہ پی پی 145 کا نوٹیفکیشن محمد یاسر کی جانب سے چیلنج کیا گیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

نادرا نے بغیر اضافی چارجز کے ارجنٹ شناختی کارڈ کی مدت میں کمی کردی

ارجنٹ شناختی کارڈ کی ترسیل کی مدت 23 دن تھی جسے کم کر کے اب 15 دن کر دیا گیا ہے

Published by Baqar Gillani

پر شائع ہوا

کی طرف سے

اسلام آباد: نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر تھک جانے والے افراد کے لیے ایک اہم سہولت متعارف کرادی۔

تفصیلات کے مطابق نادرا نے فوری درخواست پر بغیر کسی اضافی فیس کے شناختی کارڈز کی ترسیل کی مدت میں کمی کر دی ہے۔

اس سے قبل ارجنٹ شناختی کارڈ کی ترسیل کی مدت 23 دن تھی جسے کم کر کے اب 15 دن کر دیا گیا ہے۔

نادرا کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ نے لوگوں کے لیے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ نادرا کے کسی بھی دفتر میں شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے فوری درخواست جمع کرائیں اور اسے صرف 15 دن میں پہنچا دیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

تفریح

پاکستانی معروف اداکارہ زارا نور عباس اور اداکار اسد صدیقی کے ہاں بیٹی کی پیدائش

زارا نور عباس اور اسد صدیقی نے اپنی بیٹی کا نام نور جہاں صدیقی رکھا ہے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ زارا نور عباس اور اداکار اسد صدیقی کے ہاں ننھی پری کی آمد ہوئی ہے۔

فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر  اداکارہ زارا نور عباس نے ایک پوسٹ شیئر کی ، جس میں انہوں نے  انتہائی خوشی کیساتھ اس خبر کو اپنے چاہنے والوں کیساتھ شیئر کیا، پوسٹ میں انہوں نے ایک انتہائی خوبصورت سا کارڈ شیئر کیا،

 
 
 
 
 
View this post on Instagram
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Zara Noor Abbas Siddiqui (@zaranoorabbas.official)

پوسٹ میں  تحریر تھا کہ 'بسم اللہ ،الحمد اللہ آج ہم بطور اماں ابا یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا ہے، ہمارے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے۔آپ سب ہماری بیٹی نورِ جہاں صدیقی اور ہمیں اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیے گا'۔

 یاد رہے کہ 2021 میں زارا اور اسد کا ایک نومولود بیٹا انتقال کرگیا تھا اور انہوں نے اپنی بیٹی کی تصویر اب تک شیئر نہیں کی ہے۔

 واضح رہے کہ اسد صدیقی اور زارا کی شادی دسمبر 2017 ء میں ہوئی تھی، دونوں کی یہ دوسری شادی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll