جی این این سوشل

پاکستان

نیا سال اور بے یقینی

پر شائع ہوا

پاکستان پر چھائی بے یقینی کے سائے اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ لوگ نیا سال چڑھنے کی خوشی میں ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے ہیں نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مبارک باد بھی اس طرح دی جاتی ہے جیسے کسی کی فوتگی کی اطلاع پہنچانی ہو۔

سید محمود شیرازی Profile سید محمود شیرازی

بے یقینی اس حد تک ہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم پاکستان ٹی وی پر آ کر اعلان کر دیں کہ میں پیٹرول کو سستا کر دوں گا تو لوگ ان کی بات کا یقین ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس کے الٹ ہی ہو گااور ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔ یعنی ہمارے ہاں بے یقینی کے سائے اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ لوگوں کو نئے سال کو سورج بھی طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس میں سے کچھ نیا پن نظر نہیں آتا۔ ویسے ہماری بھی تو کوئی کل سیدھی نہیں ہے پوری دنیا میں نئے سال کو منایا جتا ہے یعنی سیلیبریٹ کیا جاتا ہے، لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں پارٹیاں کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی تہوار آتا ہے عوام کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلئے انتظامیہ آرڈر جاری کر دیتی ہے کہ آتش بازی نہیں ہو گی ، پارٹیاں نہیں ہوں گی اور پھر یہ سب کچھ روکنے کیلئے ناکے لگ جاتے ہیں لیکن جنہوں نے انجوائے کرنا ہوتا ہے وہ ناکوں اور پابندیوں سے ماورا کچھ بھی کر لیتے ہیں انہیں روکنے والا کوئی بھی نہیں ہو تا اور انہیں بھی یقین ہوتا ہے کہ جاری کردہ بیان پر یقین نہیں کرنا۔ بے یقینی کسی ایک شعبہ زندگی میں نہیں ہے ہر چیز پر ہے اور عمران خان کے آنے کے بعد بے یقینی خصوصا قیمتوں کے حوالے سے اتنی بڑھی ہے کہ اب صبح ایک چیز کا ریٹ صبح کچھ ہوتا ہے، دوپہر کو اور ہو گا اور رات تک اس میں اتنی تبدیلی آ چکی ہوتی ہے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ساری دنیا میں حکومتیں نیو ایئر کے موقع پر اپنی عوام کو ریلیف دیتے ہیں اور ہماری حکومت نے عین سال چڑھنے کے چند گھنٹے قبل ہی پیٹرول مہنگا کر کے نئے سال کی خوشی کو بھی کر کر اکر دیا ہے۔ حکومت کو خود اپنے آپ پر یقین نہیں ہے انہیں لگتا ہے کہ نوازشریف واپس آ گیا تو ان کیلئے مشکلات پیدا ہو جائیں گی او رعمران خان تو سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں پر اتنا یقین رکھتے ہیں وہ تو اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایک سزا یافتہ شخص کو چوتھی بار وزیراعظم کیسے بنایا جا سکتا ہے پتہ نہیں اب وہ اس بیان کے ذریعے گیان دے رہے تھے یا استفسار کر رہے تھے کہ جو انہیں لا رہے ہیں یا جن کے ذریعے وہ آنا چاہ رہے ہیں ان سے کہنا چا ہ رہے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے دنیا ایک دم کیسے بدل سکتی ہے۔ یعنی عمران خان کو اپنی حکومت پر یقین نہیں ہے کہ شاید اگر نوازشریف واپس آ گئے تو وہ نہ ان چھن جائے۔

ویسے پاکستانی عوام کو اور کسی پر یقین ہو نا ہو اپوزیشن پر پورا یقین ہے کہ وہ سیاسی جدو جہد سے عاری ہے وہ بڑھکیں ضرور مار سکتی ہے لیکن اسمبلی میں حکومت کو قابو کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ اسی لئے اپوزیشن بھی اب اکتا گئی ہے کہ کیا ضرورت ہے اسمبلی میں محنت کرنے کی ”جن“سے بات کر کے کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے جو عددی اقلیت کو اکثیرت میں بدل سکتے ہیں ان سے کیوں نہ راہ و رسم بڑھائی جائے۔ یعنی اپوزیشن کو بھی سیاسی نظام پر یقین نہیں ہے اس لئے انہیں بھی حکومت کو“وخت“ ڈالنے کیلئے کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ غیر سیاسی لوگوں نے نوازشریف سے لندن میں ملاقات کی ہے(نوازشریف سے حال ہی میں سٹیج کی دنیا کے چند نامور اداکاروں نے ملاقات کی ہے شاید ایاز صادق کا اشارہ اس طرف تھا لیکن حکومت ان کے اس بیان کو لگتا ہے دل پر لے چکی ہے)۔ویسے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ نوازشریف واپس آئیں گے کیسے واپس آئیں گے اس پر بے یقینی کی کیفیت ہے۔کیوں کہ جو شخص اقتدار میں آتا ہے اس نے بھی جانا ہوتا ہے اور جو اقتدار سے رخصت ہوتا ہے اس نے بھی ایک دن اقتدار میں واپس آنا ہوتا ہے(پاکستان کے جمہوری نظام میں ہم اس کی مثال دے سکتے ہیں)۔

اب کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ عمران خان 2021 میں حکومت سے رخصت ہو جائیں گے تو اب بھی اگر ان سے پوچھا جائے عمران خان تو 2022 میں بھی وزیراعظم ہیں تو وہ آپ کو بڑے یقین سے بتائیں گے کہ عمران خان اور طاقتور لوگوں کی آپس میں ٹھن چکی ہے بس اب ان کی رخصتی طے ہو چکی ہے یعنی یقینی طور پر کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان سے بے یقینی کب ختم ہو گی یہ کوئی نہیں بتا سکتا لیکن اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن اشیا کے نرخ پل پل نہ بدلیں، حکومت جو کہے اس پر عمل بھی کرے اور کروائے بھی، اپوزیشن اور حکومت پارلیمنٹ کو مقدم سمجھیں اور غیر سیاسی لوگوں سے ملاقاتوں کو اہمیت نہ دیں، ہمارے حکمران چاہے وہ سابقہ ہو ں یا موجودہ وہ علاج کے لئے باہر نہ جائیں، گھر سے نکلتے وقت یہ یقین ہو کہ پندرہ منٹ کا راستہ کسی احتجاج  یاٹریفک جام کی وجہ سے لمبا نہیں ہو گا یعنی ہر چیز طے کردہ اوقات میں ہو تو اس دن پاکستان سے بے یقینی کے سائے بھی ختم ہو جائیں گے اور نئے سال کے طلوع ہونے والے سورج بھی امید کی کرن بن جائیں گے۔۔ان شا ء اللہ

پڑھنا جاری رکھیں

علاقائی

خواتین کا تحفط مریم نواز کی اولین ترجیح ہے ، حنا پر ویز بٹ

چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی نے تحفظ مرکز کا بھی دورہ کیا اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے کئے گئے انتظامات کا جائزہ لیا

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی حنا پرویز بٹ نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی اولین ترجیح خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے ،انسداد تشدد اقدامات یقینی بنانے کے لئے عملی کام کر رہے ہیں،خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور زندگی کے ہر میدان میں خواتین کی شمولیت و کردار کے بغیر ترقی ممکن نہیں، خواتین کو مکمل قانونی تحفظ اور آزادی کے ساتھ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق حاصل ہے، تشدد اور زیادتی کی شکار خواتین کو ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن سنٹر میں مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔قبل ازیں انہوں نے پولیس لائن راولپنڈی کے کمانڈ اینڈ کنٹرول روم میں قائم ویمن کاؤنٹر، تحفظ مرکز اور ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن سنٹر، سوشل ویلفیئر کمپلیکس شمس آباد کا تفصیلی دورہ کیا۔

ایس پی ہیڈ کوارٹر بینش فاطمہ نے چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کو پولیس لائن راولپنڈی کے کمانڈ اینڈ کنٹرول روم میں ویمن پروٹیکشن کے حوالے سے قائم کاؤنٹر، شکایت سیل اور ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کے حوالے سے بریفنگ دی۔ انہوں نے بریفنگ میں بتایا کہ خواتین کی شکایات کا نہ صرف ازالہ کیا جاتا ہے بلکہ انہیں تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی نے تحفظ مرکز کا بھی دورہ کیا اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے کئے گئے انتظامات کا جائزہ لیا۔

بعد ازاں چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی نے ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن سنٹر، سوشل ویلفیئر کمپلیکس شمس آباد کا دورہ کیا اور خواتین کے تحفظ کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا۔حنا پرویز بٹ نے کہا کہ پنجاب بھر کی طرح راولپنڈی میں پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی بروقت خواتین کے تحفظ کے لئے سرگرم ہے،ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہمہ وقت کام کرتے ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں آج احتجاج کی اجازت نہیں مل سکی، محفوظ فیصلہ جاری

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پی ٹی آئی کی 29 جولائی احتجاج کی درخواست پر وجوہات کے ساتھ فیصلہ کریں، اسلام آباد ہائی کورٹ

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پاکستان تحریک انصاف کو اسلام آباد میں آج احتجاج کی اجازت نہیں مل سکی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت نہ ملنےکےخلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پی ٹی آئی کی 29 جولائی احتجاج کی درخواست پر وجوہات کے ساتھ فیصلہ کریں، اسٹیٹ کونسل احتجاج کی اجازت نہ دینے کی وجوہات سے متعلق مطمئن نہیں کر سکے۔

درخواست گزار نے کہا کہ 29 جولائی ایف نائن پارک میں احتجاج کی اجازت دے دی جائے، درخواست گزار نے انڈر ٹیکنگ دی کہ احتجاج پرامن ہو گا کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال نہیں بنے گی۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا 18 جولائی سے دو ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ 29 جولائی احتجاج کی اجازت تب ہی ہو سکتی ہے اگر باقی سیاسی جماعتوں کی لا اینڈ آرڈر صورتحال پیدا نہ ہو۔

فیصلے میں کہا گیا کہ مناسب پابندیوں کے ساتھ آئین میں پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے، کسی اور سیاسی جماعت کے تھریٹ کی بنا پر پٹیشنر پارٹی کے آئینی حقوق سلب نہیں ہوسکتے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

کسی صورت خیبر پختونخواہ میں آپریشن نہیں ہونے دیں گے ، علی امین گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ہمارے فیصلے ہم خود کریں گے کوئی دوسرا نہیں، شرپسندوں کےخلاف کارروائی ہماری پولیس کرے گی

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ امریکا کےغلاموں نے پختونوں پر غلط پالیسیاں تھوپیں، حکمرانوں کے تجربات سے ہمارا نقصان ہوا ہے۔ اپنے فیصلے خود کریں گے، حق مانگنے کے بجائے چھین لیں گے۔

بنوں میں امن مارچ کے شرکاء سے خطاب میں علی امین نے کہا کہ خیبرپختونخوامیں آپریشن نہیں ہونے دیں گے، ماضی میں آپریشن کی وجہ سے ہم خانہ بدوش بنے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آزاد کروانے میں پختونوں نے اہم کردارادا کیا، 65ء کی جنگ میں بھی پختونوں کا کرداراہم تھا، ہم نے ملک کے ساتھ تن، من، دھن سے وفاداری کی۔ قربانی دینا ہمارے خون میں ہے، ملک کیلئےہم قربانی دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے فیصلے ہم خود کریں گے کوئی دوسرا نہیں، شرپسندوں کےخلاف کارروائی ہماری پولیس کرے گی۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll