پاکستان
نیا سال اور بے یقینی
پاکستان پر چھائی بے یقینی کے سائے اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ لوگ نیا سال چڑھنے کی خوشی میں ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے ہیں نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مبارک باد بھی اس طرح دی جاتی ہے جیسے کسی کی فوتگی کی اطلاع پہنچانی ہو۔

بے یقینی اس حد تک ہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم پاکستان ٹی وی پر آ کر اعلان کر دیں کہ میں پیٹرول کو سستا کر دوں گا تو لوگ ان کی بات کا یقین ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس کے الٹ ہی ہو گااور ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔ یعنی ہمارے ہاں بے یقینی کے سائے اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ لوگوں کو نئے سال کو سورج بھی طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس میں سے کچھ نیا پن نظر نہیں آتا۔ ویسے ہماری بھی تو کوئی کل سیدھی نہیں ہے پوری دنیا میں نئے سال کو منایا جتا ہے یعنی سیلیبریٹ کیا جاتا ہے، لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں پارٹیاں کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی تہوار آتا ہے عوام کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلئے انتظامیہ آرڈر جاری کر دیتی ہے کہ آتش بازی نہیں ہو گی ، پارٹیاں نہیں ہوں گی اور پھر یہ سب کچھ روکنے کیلئے ناکے لگ جاتے ہیں لیکن جنہوں نے انجوائے کرنا ہوتا ہے وہ ناکوں اور پابندیوں سے ماورا کچھ بھی کر لیتے ہیں انہیں روکنے والا کوئی بھی نہیں ہو تا اور انہیں بھی یقین ہوتا ہے کہ جاری کردہ بیان پر یقین نہیں کرنا۔ بے یقینی کسی ایک شعبہ زندگی میں نہیں ہے ہر چیز پر ہے اور عمران خان کے آنے کے بعد بے یقینی خصوصا قیمتوں کے حوالے سے اتنی بڑھی ہے کہ اب صبح ایک چیز کا ریٹ صبح کچھ ہوتا ہے، دوپہر کو اور ہو گا اور رات تک اس میں اتنی تبدیلی آ چکی ہوتی ہے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ساری دنیا میں حکومتیں نیو ایئر کے موقع پر اپنی عوام کو ریلیف دیتے ہیں اور ہماری حکومت نے عین سال چڑھنے کے چند گھنٹے قبل ہی پیٹرول مہنگا کر کے نئے سال کی خوشی کو بھی کر کر اکر دیا ہے۔ حکومت کو خود اپنے آپ پر یقین نہیں ہے انہیں لگتا ہے کہ نوازشریف واپس آ گیا تو ان کیلئے مشکلات پیدا ہو جائیں گی او رعمران خان تو سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں پر اتنا یقین رکھتے ہیں وہ تو اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایک سزا یافتہ شخص کو چوتھی بار وزیراعظم کیسے بنایا جا سکتا ہے پتہ نہیں اب وہ اس بیان کے ذریعے گیان دے رہے تھے یا استفسار کر رہے تھے کہ جو انہیں لا رہے ہیں یا جن کے ذریعے وہ آنا چاہ رہے ہیں ان سے کہنا چا ہ رہے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے دنیا ایک دم کیسے بدل سکتی ہے۔ یعنی عمران خان کو اپنی حکومت پر یقین نہیں ہے کہ شاید اگر نوازشریف واپس آ گئے تو وہ نہ ان چھن جائے۔
ویسے پاکستانی عوام کو اور کسی پر یقین ہو نا ہو اپوزیشن پر پورا یقین ہے کہ وہ سیاسی جدو جہد سے عاری ہے وہ بڑھکیں ضرور مار سکتی ہے لیکن اسمبلی میں حکومت کو قابو کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ اسی لئے اپوزیشن بھی اب اکتا گئی ہے کہ کیا ضرورت ہے اسمبلی میں محنت کرنے کی ”جن“سے بات کر کے کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے جو عددی اقلیت کو اکثیرت میں بدل سکتے ہیں ان سے کیوں نہ راہ و رسم بڑھائی جائے۔ یعنی اپوزیشن کو بھی سیاسی نظام پر یقین نہیں ہے اس لئے انہیں بھی حکومت کو“وخت“ ڈالنے کیلئے کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ غیر سیاسی لوگوں نے نوازشریف سے لندن میں ملاقات کی ہے(نوازشریف سے حال ہی میں سٹیج کی دنیا کے چند نامور اداکاروں نے ملاقات کی ہے شاید ایاز صادق کا اشارہ اس طرف تھا لیکن حکومت ان کے اس بیان کو لگتا ہے دل پر لے چکی ہے)۔ویسے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ نوازشریف واپس آئیں گے کیسے واپس آئیں گے اس پر بے یقینی کی کیفیت ہے۔کیوں کہ جو شخص اقتدار میں آتا ہے اس نے بھی جانا ہوتا ہے اور جو اقتدار سے رخصت ہوتا ہے اس نے بھی ایک دن اقتدار میں واپس آنا ہوتا ہے(پاکستان کے جمہوری نظام میں ہم اس کی مثال دے سکتے ہیں)۔
اب کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ عمران خان 2021 میں حکومت سے رخصت ہو جائیں گے تو اب بھی اگر ان سے پوچھا جائے عمران خان تو 2022 میں بھی وزیراعظم ہیں تو وہ آپ کو بڑے یقین سے بتائیں گے کہ عمران خان اور طاقتور لوگوں کی آپس میں ٹھن چکی ہے بس اب ان کی رخصتی طے ہو چکی ہے یعنی یقینی طور پر کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان سے بے یقینی کب ختم ہو گی یہ کوئی نہیں بتا سکتا لیکن اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن اشیا کے نرخ پل پل نہ بدلیں، حکومت جو کہے اس پر عمل بھی کرے اور کروائے بھی، اپوزیشن اور حکومت پارلیمنٹ کو مقدم سمجھیں اور غیر سیاسی لوگوں سے ملاقاتوں کو اہمیت نہ دیں، ہمارے حکمران چاہے وہ سابقہ ہو ں یا موجودہ وہ علاج کے لئے باہر نہ جائیں، گھر سے نکلتے وقت یہ یقین ہو کہ پندرہ منٹ کا راستہ کسی احتجاج یاٹریفک جام کی وجہ سے لمبا نہیں ہو گا یعنی ہر چیز طے کردہ اوقات میں ہو تو اس دن پاکستان سے بے یقینی کے سائے بھی ختم ہو جائیں گے اور نئے سال کے طلوع ہونے والے سورج بھی امید کی کرن بن جائیں گے۔۔ان شا ء اللہ
پاکستان
نان فائلر پر 50 ہزار سے زائد رقم نکالنے پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ
وفاقی حکومت نے نان فائلر پر 50 ہزار سے زائد رقم نکالنے پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کردیا۔

اسلام آباد: نئے مالی سال کا بجٹ 14 ہزار 460 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نان فائلر افراد کی جانب سے بینک سے رقم نکالنے کو دستاویزی اور ان کی ٹرانزیکشن کے اخراجات بڑھانے کیلئے 50 ہزار روپے سے زائد کی رقم نکالنے پر 0.6 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔
غیر ملکی ملازمین رکھنے والے امیر افراد پر ٹیکس میں اضافہ
وفاقی حکومت نے غیر ملکی ملازمین رکھنے والے امیر افراد پر عائد ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔
بجٹ تجاویز کے مطابق اس وقت کم و بیش 10 ہزار غیر ملکی شہری پاکستان کے امیر گھرانوں میں مددگار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، اوسطاً ہر گھر یلو مددگار کو سالانہ 6000 امریکی ڈالر تک تنخواہ دی جاتی ہے۔
تجاویز میں کہا گیا ہے کہ گھریلو مددگاروں کو ادا کی جانے والی رقم پر ایک سال میں دو لاکھ روپے کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
بجٹ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ ورک پرمٹ جاری کرنے والی اتھارٹی غیر ملکیوں کو نوکری پر رکھنے والوں سے یہ ٹیکس وصول کرے گی۔
پاکستان
دفاعی بجٹ میں اضافہ، تفصیل جانیئے
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملکی دفاع کے لیے 18 کھرب 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

اسلام آباد: نئے مالی سال کا بجٹ 14 ہزار 460 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملکی دفاع کے لیے 18 کھرب 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، گزشتہ مالی سال دفاعی بجٹ 15 کھرب 23 ارب روپے تھا جس میں اس سال اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 7 کھرب 14 ارب روپے مہیا کیے جائیں گے۔
پنشن کی مد میں 7 کھرب 61 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے 10 کھرب 74 ارب روپےکی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔
آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بے نظیر پروگرام، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، ریلویز اور دیگر محکموں کیلئے 14 کھرب 64 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔
تفریح
صحافیوں اور فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صحافیوں و فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد: نئے مالی سال کا بجٹ 14 ہزار 460 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2024-2023 پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صحافیوں و فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ اقلیتوں، اسپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کے لیے فنڈز اس کے علاوہ ہیں۔ پنشن کے مستقبل کے اخراجات کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔
-
پاکستان 2 دن پہلے
موبائل فونز کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس مزید نہ بڑھانے کا فیصلہ
-
علاقائی ایک دن پہلے
پرویز الہٰی کی ق لیگ میں واپسی سے متعلق عائشہ گلا لئی کا انکشاف
-
تجارت 2 دن پہلے
ملک میں فی تولہ سونے کی قیمت میں مسلسل کمی کا سلسل جاری
-
پاکستان 2 دن پہلے
پنجاب حکومت کا عید سے قبل سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن دینے کا حکم
-
پاکستان 2 دن پہلے
جہانگیر ترین کی جماعت کا نام ’استحکام پاکستان‘ فائنل کرلیا گیا
-
تجارت 3 گھنٹے پہلے
سرکاری ملازمین کیلئے کیا کیا اقدامات ہوئے ؟
-
تجارت 5 گھنٹے پہلے
ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت میں اضافہ
-
پاکستان ایک دن پہلے
2017 میں ملک جہاں پہنچ چکا تھا وہیں دوبارہ لے جانا چاہتے ہیں، اسحاق ڈار