اولمپکس کا میدان اور پاکستان
جاپان کے شہر ٹوکیو میں 2020اولمپکس یعنی دنیا کے سب سے بڑے کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوئے جس میں حسب توقع،امریکہ،چین اور جاپان نے پہلی تین پوزیشنیں حاصل کیں۔سونے کے تمغوں اور مجموعی تمغوں کی دوڑ میں امریکہ سو سے زائد میڈل جیت کر سب سے اوپر ہے۔

پاکستان کا بھی دس رکنی دستہ ان کھیلوں میں شریک ہوا جن میں صرف ارشد ندیم اپنی کارکردگی کی بنا پر براہ راست اولمپک مقابلوں میں شریک ہوئے باقی سب کھلاڑی وائلڈ کارڈ انٹری اور پاکستان اولمپک کمیٹی کی سفارش پر گئے۔ اولمپک میڈل ٹیبل پر نظر دوڑائیں تو ٹاپ ٹین وہ ہی ممالک ہیں جو اس وقت معاشی اور سیاسی لحاظ سے دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں وہی مماک کھیلوں میں بھی چھائے ہوئے ہیں۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین ہیں جو اپنی مرضی کے قوانین سلامتی کونسل سے پاس کرواتے ہیں اور کوئی قرار داد کوجب چاہے ویٹو کر سکتے ہیں جن میں امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں جبکہ اولمپک ٹیبل کے ٹاپ ٹین ممالک میں بھی یہی ممالک شامل ہیں۔
دنیا میں سب سے طاقتور ترین معاشی گروپ جی سیون ممالک ہیں جن میں امریکہ، کینیڈا، فرانس،جرمنی، اٹلی،برطانیہ اور جاپان شامل ہیں۔ ان میں سے چھ ممالک اولمپکس میڈل پر ٹاپ ٹین میں ہیں جبکہ کینیڈا بھی سات سونے کے تمغوں کے ساتھ مجموعی طور پر 24تمغے جیت کر 11ویں نمبر پر ہے۔ جس طرح جی سیون ممالک دنیا کی آبادی کا دس فیصد ہیں اور پوری دنیا کے جی ڈی پی کا چالیس فیصد حصہ ان کے پاس ہے اس طرح اولمپکس ٹیبل پر بھی ان کی حکمرانی ہیں ان تمام ساتوں ممالک کے تمغے باقی ممالک کے مجموعی تمغوں سے زیادہ ہیں۔ اس طرح دنیا کا کوئی بھی بڑا گروپ یا ممالک کی تنظیم اٹھا کہ دیکھ لیں چاہے وہ جی ٹوینٹی ہو ہو یا جی سیون یا نیٹو کا اتحاد ہو یا اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے مستقل اراکین جو ممالک ہمیں وہاں قائدانہ کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں وہی ممالک اولمپکس مقابلوں میں میڈل حاصل کرنے کی دوڑ میں بھی آگے ہیں اور باقی سب ان کی تقلید کر رہے ہیں۔ اگر ہم مسلم ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اسلامی ممالک میں سے ترکی ہی کی کارکردگی اولمپکس میں کسی حد تک قابل ذکر ہے ترکی دو سونے کے تمغوں کے ساتھ تیرہ میڈل حاصل کر کے مجموعی تمغوں کی دوڑ میں 35ویں نمبر پر آیا ہے۔
ہمسائیہ ملک ایران نے بھی تین سونے کے تمغوں جیت کر21ویں پوزیشن حاصل کی ہے اور جنگ زدہ ملک شام بھی ایک کانسی کا تمغہ جیت کر فہرست میں سب سے آخر میں موجود ہے۔ یعنی کھیلوں میں بھی وہی ممالک آگے ہیں جو دنیا بھر میں معیشت اور سیاست اور طاقت میں سب سے آگے ہیں۔امریکہ اگر کو سپر پاور کا درجہ حاصل ہے تو چین ابھرتی ہوئی معاشی سپر پاور ہے اور دونوں ممالک تمغوں میں بھی پہلی اور دوسری پوزیشن پر موجود ہیں۔ برطانیہ، روس، فرانس، اٹلی، جاپان،،آسٹریلیا، جرمنی اور ہالینڈ وہ ممالک ہیں جو دنیا میں خوشحال تصور کئے جاتے ہیں جہاں جانے کیلئے پاکستانی لوگ ڈنکی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔اولمپک کا میڈل ٹیبل بھی ان کی برتری کی کہانی سنا رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ممالک اگر معیشت اور سیاست میں آگے ہیں تو ان کی برتری تسلیم کر لی جائے او رہماری فیڈریشن بس ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہیں (ویسے جو حال پچھلے بیس سالوں میں کھیلوں کا ہوا ہے لگتا ہے یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں بلکہ تکیہ لگائے سو رہے ہیں)۔
ہاکی کا کھیل جس میں پاکستان نے سب سے زیادہ میڈل حاصل کئے ہیں بد قسمتی سے پچھلے دو اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کوالیفائی ہی نہیں کر سکی۔ اسی طرح ایسے کھیل جو انفرادی توجہ کے طالب ہیں جن میں پاکستان اگر تھوڑی سی زیادہ محنت کرے تو تمغے جیت سکتا ہے جیسے ویٹ لفٹنگ، کشتی، باکسنگ، جویلین تھر اور ہیمر تھرو ایسے کھیل ہیں جو زیادہ تر اتھلیٹ اپنے بل بوتے پر ہی کھیل رہے ہیں اور انہیں فیڈریشن کی حمایت اور مدد نہ حاصل ہونے کے برابر ہے۔
ٹوکیو اولمپکس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ انفرادی کھیلوں پر توجہ دی جائے تو ہمارے کھلاڑی اچھا پرفارم کر سکتے ہیں۔بھارت کے نیرج چوپڑا کو عالمی معیار کی سہولتیں میسر تھیں اور ان کیلئے غیر ملکی کوچ اور کڑوڑوں کے فنڈز مہیا کئے گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو مایوس نہیں کیا جبکہ ان کے مقابلے میں ارشد ندیم گاؤں کی کچی پکی زمین پر کھیلتے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے مقابلوں میں پہنچے اور قابل ذکر کارکردگی دکھائی جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ اور جو کھلاڑی سفارشی کوٹے پر گئے وہ اپنی ہیٹس میں آخری نمبر پر آئے جس سے ظاہرہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اولمپکس سلیکشن کا معیارکس حد تک گر چکا ہے۔بیس سال سے ایک ہی شخص فیڈریشن کو سنبھال رہا ہے اگر نتائج برآمد نہیں ہو رہے تو انہیں سائیڈ لائن کرنے میں کیا امر مانع ہے یا وہ خود تھوڑی شرم و حیا کریں اور فیڈریشن کا پیچھا چھوڑ دیں۔ نیرج چوپڑا اگر تمغہ جیت سکتا ہے تو پاکستانی کھلاڑی بھی یہ کر سکتے ہیں صرف انہیں معاشی طور پر آزادی اور سہولتیں مہیا کرنا ہوں گی۔ ٹیم گیمز کی بجائے اگر انفرادی کھیلوں اور کھلاڑیوں پر پیسہ لگایا جائے تو اگلے اولمپکس میں پاکستان کا نام بھی میڈل ٹیبل پر آ سکتا ہے۔ پاکستانی قوم تو صرف یہ چاہتی ہے چلو جب اولمپکس مقابلے ہوں تو مسلم ممالک اور ایشیا میں ہی پاکستان اپنی کارکردگی بہتر کر لے نہ میڈل کے ڈھیر لگائے صرف دو چار میڈل ہی جیت لے تا کہ میڈل لسٹ میں ہم پاکستان کا نام دیکھ کر ہی خوش ہو جائیں۔